نور شاہ
زندگی کے دو لفظ
وہ شاید نیم دیوانی تھی اور اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہونے کے باوجود بھی نیم عریاں نظر آتی تھی۔ کچھ عرصہ سے وہ شہر کے سب سے بڑے لڑکیوں کے کالج کے گیٹ کے بالکل قریب کالج کُھلنے اور بعد دوپہر کالج بند ہونے کے وقت نظر آتی تھی اور چلاّ چلاّ کر کہتی:
’’اپنے جسم کو سنبھالو… اپنے جسم کو بچالو… یہ دنیا بڑی بے رحم ہے معصوموں کو جینے نہیں دیتی…!‘‘
کالج کے اندر باہر آنے جانے والی لڑکیاں اب اس کی آواز سے اس قدر مانوس ہوچکی تھیں کہ کوئی بھی اس کی جانب توجہ نہیں دیتا۔ اب اس کی آواز کو بے آواز کرکے نظرانداز کرنا اُں کی عادت بن چکی تھی۔
ایک روز رابعہ نے جانے کیسے اپنے گھر میں کھانا کھانے کے وقت اس کا ذکر چھیڑا۔ رابعہ کی ماں غور سے سنتی رہی اور من ہی من میں جانے کیا سوچتی رہی۔ زندگی کی کس کتاب کے اوراق پلٹنے لگی اور پھر کئی دن بعد اس نے رابعہ کے ساتھ کالج تک جانے کی اپنی دبی ہوئی خواہش کا اظہار کیا۔ رابعہ کے کیوں اور کس لئے کہنے کے باوجود ماں خاموش رہی اور اپنی بات پر بضد رہی۔ دوتین بعد وہ رابعہ کے ساتھ کالج تک چلی آئی۔ وہ نیم پاگل حسب معمول گیٹ کے ایک گوشے میں اپنی باتیں دہرا رہی تھیں۔ ماں نیم دیوانی کو دیکھتی رہی سوچتی رہی خدوخال ذہن کے گوشوںسے اُبھارتی رہی اور پھر اچانک اس کی آواز سنائی دی۔
’’خانم… تم … اس حالت میں…!
نیم دیوانی ایک لمحے کے لئے خاموش ہوگئی۔ اس کے ہونٹوں کی جنبش رُک گئی
’’میں نے تم کو پہچان لیا خانم ‘‘
رابعہ خاموشی سے کالیج کے اندر چلی گئی اور ماں اپنے گھر لوٹ آئی۔
چند روز بے عنوان گذرگئے!
اور ایک دن جب گھر کے سارے افراد ڈنر لے رہے تھے تو رابعہ نے نیم دیوانی کی بات چھیڑی۔ ماں نے کہا۔
’’میں صرف اتنا بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے اسے پہچان لیا ہے وہ خانم ہے۔
جب میں سروس میں تھی وہ میرے اسکول کی ایک ہونہار طالبہ تھی، پڑھنے لکھنے کے تعلق سے بڑی قابل……لیکن ایک دن جانے کس درندے کی درندگی کا شکار ہوگئی… اور تعلیم ادھوری چھوڑکر جانے کہاں غائب ہوگئی… لیکن اب اپنی زندگی کے اندھیاروں سے باہر آئی ہے اور نیم دیوانگی کی حالت میں اسکول یا کالج آنے جانے والی بچیوں کو سماج کے ان درندوںسے بچنے کے لئے اپنی آواز بلند کر رہی ہے…زندگی کو سنبھالنے سدھارنے کا ایک پیغام دے رہی ہے… اپنی زندگی کے دولفظ سنارہی ہے‘‘
زندگی کے یہ دو لفظ کتنے کڑوے کسیلے ہیں…!!!
���
زمین پیاسی ہے
محبت نے اُن کے دلوں پر اُن کی پہلی ملاقات میں ہی دستک دی تھی اور پھر ان دونوں کو ایک ہی میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ تعلیم کے دوران بھی اُن کی محبت کی چنگاریاں بجھنے نہ پائیں۔ اب وہ ڈاکٹر بن چکے تھے اور اُن کی شادی ہوئے بھی چار سال بیت چکے تھے لیکن اب تک بے اولاد تھے اور بے اولاد ہونے کا انہیں بے حد دُکھ بھی تھا…!
شہر خاص کے ایک موزوں اور مصروف بازار میں اُن کا اپنا ایک کشادہ ساخوبصورت سا کلنک تھا جہاں وہ اپنے مریضوں کا علاج و معالجہ کرنے میں لمحہ لمحہ مصروف رہتے تھے۔ا ُن کے کلنک کے باہر ایک بڑا سا بورڑ آویزان تھا!
اور جس پر لکھا تھا… ’’بے اولاد جوڑوں کے لئے خوشخبری‘‘۔
آیئے اور ہمارے علاج و معالجہ سے اولاد کی نعمتوں سے مالامال ہوجائیں!
���
لل دید کالونی، راولپورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9906771363