نظرمحمد اور اورچودھری امانت حسین بچپن سے دوست تھے۔دونوں بچپن اور جوانی کی سرحدوں کو پار کرکے اب ایک ایسے لق و دق صحرا میں کھڑے تھے ِ جہاں انسان زیادہ تر تنہا رہ جاتا ہے اور دوسرے کے سہارے کا متمنی ہوتا ہے۔دونوں نے اب ساٹھ کی سرحد عبور کرلی تھی مگر بچپن، جو انسان کی زندگی کا وہ اسٹیج ہوتا ہے جسے بے فکری، مستانگی اور معصومیت سے تعبیر کیا جاتا ہے م کی یادوں کے نقوش اب تک انکے ذہنوں میں محفوظ تھے۔
دونوں کا تعلیمی سفر تو ایک ساتھ شروع ہوا تھا مگر دسویں کے بعد امانت حسین نے تعلیم ترک کردی اور تجارت کے پیشے سے منسلک ہوگئے جبکہ نظر محمد نے اپنے والدین کے اصرار پر ایک دینی مدرسے میں داخلہ لیا ۔جہاں انھوں نے تقریبا" چار سال کے عرصے میں قرآن حکیم،مشکوٰۃ شریف،صحیح مسلم، بخاری شریف، ترمزی شریف اور ابن ماجہ جیسی مستند حدیث کی کتابوں کے علاوہ اسلامی تہذیب اور شرعی مسائل کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں جبکہ انکے دوست امانت حسین نے تجارت کے تمام گر سیکھ لیے تھے ۔انکا اپنا فروٹ کا کاروبار تھا جس میں انھوں نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرلی۔اب دونوں دوستوں کی جوانیاں شادی کا تقاضہ کررہی تھیں۔ نظر محمد کی شادی نزاکت جہاں سے اور امانت حسین کی شادی لطافت بیگم سے ہوگئ تھی۔دونوں لڑکیاں خوبصورتی اور خوب سیرتی کا نمونہ تھیں۔پھر چند برسوں میں نظر محمد دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کا باپ بن گیاتھا۔دانشورں کا قول ہے کہ اولاد کی پیدائش والدین کی جوانیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ نظر محمد اور امانت حسین کو شادی اور بچے ہونے کے بعد اب یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے انکے پاوں میں کسی نے بیڑیاں ڈال دی ہوں۔ آئے دن بیوی بچوں کی فرمائشیں انکی بہتر تعلیم وتربیت کی فکر انکو پریشان کردیتی تھی ۔اب انکی جوانیاں مسائل حیات کو سلجھانے اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں اس طرح بیت رہی تھیں کہ انھیں پتا ہی نہیں چلا کہ جوانی کدھر سے آئی اور کدھر چلی گئ۔
امانت حسین کا بڑا بیٹا محمد اعظم کمپیوٹر انجینئرنگ کی ٹرینگ سے فارغ ہوکر ایک کمپنی میں ملازم ہوگیا تھا۔چھوٹا بیٹا بارھویں میں پڑھ رہا تھا اور بیٹی دسویں میں۔جہاں تک نظر محمد کے بیٹوں اور بیٹیوں کی تعلیم وتربیت کا تعلق تھا،وہ بھی پڑھنے لکھنے میں مصروف تھے اور انکا بڑا بیٹا سماعت احمد بی ایس سی کرچکا تھا اور چھوٹا بیٹا بی اے پارٹ فسٹ میں پڑھ رہا تھا۔انکی بڑی بیٹی نویں میں اور چھوٹی بیٹی ساتویں میں پڑھ رہی تھی۔مگر نظر محمد نے اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی تھی۔وہ چونکہ خود صوم وصلوٰۃ کے پابند اور شرعی احکامات سے واقف تھے۔اس لئے انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی صوم و صلوٰۃ کا پابند بنادیا تھا۔
آج امانت حسین کےبڑے بیٹے اعظم کی شادی تھی ۔امانت حسین نے اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ خود نظر محمد کے گھر پر آکر ہی دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ وہ بمع عیال شادی کی تقریب میں شریک ہو۔ نظر محمد نے سفید ململ کا کڑھائی دار کرتے پائیجامے کے اوپر برف جیسی سفید اچکن زیب تن کی۔ادھ سیاہ بالوں اور چھد ری داڑھی میں خوشبودار تیل لگایا اور قدآدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آنکھوں میں بریلی کا سرمہ لگایا۔پورے وجود پر جنت الفردوس نام کا عطر چھڑکنے کے بعد چند لمحوں تک آئینے میں اپنی وضع قطع کا جائزہ لیتے رہے۔اس وقت انھیں یوں لگ رہا تھا کہ جیسے انکی اپنی شادی کے دن لوٹ آے ہوں۔انھیں اپنی زندگی کے کئ بھولے بسرے دن یاد آنے لگے۔بچپن اور جوانی کے وہ دن کس قدر رنگین اور پر کیف ہوا کرتے تھے جب انھیں کسی بات کی فکر نہ کسی چیز کا غم تھا مگر اب انھیں اپنا آپ ایک بوجھ سا معلوم ہورہا تھا۔دل میں بار بار یہ خیال ابھررہا تھا کہ آخر کہاں گئے وہ بے فکری کے دن ۔نظر محمد ماضی کی انھیں بھول بھلیوں میں کھوے ہوے تھے کہ اسی دوران انکے کانوں میں انکی بیوی کی آواز پڑی۔نزاکت جہاں نے پوچھا
"آپ تیار ہوئے کہ نہیں؟ میرا خیال ہے آپ تھوڑا سا کھانا کھا کے نکلیں۔کیا معلوم آگے شادی میں کب کھانا ملے۔یوں بھی کہاوت ہے نا کہ گھر سے کھاکے جائو توآگے بھی ملتا ہے"
نظر محمد نےجھنجھلاتے ہوئے کہا"اری میں تو تیار ہوچکا ہوں۔کیسی عجیب بات کر رہی ہو۔میرے دوست کے بیٹے کی شادی ہو اور مجھے کھانا نہ ملے"
نظر محمد نے جھلمل کرتی خوبصورت جوتی پاوں میں پہنی اور ایک بار پھر قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوگئے ۔تب انکے دل کے کسی گوشے سے یہ آواز آئی کہ آئنیہ جھوٹ نہیں بولتا ہے کھرا اور کھوٹا سب کچھ دکھا دیتا ہے۔ وہ سوچتے سوچتے اس نتیجے پہ پہنچے کہ دنیا کے تمام مذاہب، فلسفے اور علوم وفنون انسان کو آئینہ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔پھر انھوں نے دل ہی دل میں یہ تمنا کی کہ کاش انسان کا دل ودماغ ہر کام میں اور ہر گام پہ آئینے کی طرح صاف وشفاف رہتا تو اسکی زندگی میں امن وچین ہوتا۔وہ آئینے کے سامنے یہی باتیں سوچ رہے تھے کہ دفعتا" انکی بیوی ڈریسنگ روم میں داخل ہوگئ۔بیوی نے انھیں دیکھا تو مسکراتی ہوئی بولی
"اچھا یہ بناو سنگھار ہورہا تھا"
نظر محمد ہنس پڑے اور بیوی سے پوچھا"بتاو کیسا لگ رہا ہوں"؟
بیوی نے طنزیہ انداز میں کہا"لگتا ہے لوگ دلہے کو کم اور آپ کوزیادہ دیکھیں گے"
"اچھا اب تم نے بھی مذاق کرنا سیکھ لیا ہے"نظر محمد نے کہا
"ہاں سچ کہہ رہی ہوں آج بہت خوبصورت لگ رہے ہو۔مگر ایک چیز کی کمی محسوس کررہی ہوں وہ یہ کہ سر اور ڈاڑھی کے آدھے سے زیادہ سفید بال مجھے کھٹک رہے ہیں۔ان میں کالی مہندی لگائی ہوتی تو بالکل اکیس سال کے نوجوان دکھائی دیتے"
"یعنی تم یہ چاہتی ہو کہ میں اصلیت کو چھپاؤں۔یاد رکھو جب تک دنیا میں سچ ختم نہیں ہوگا جھوٹ نہیں بولوں گا اور جب تک دنیا میں حلال ختم نہیں ہوگا حرام نہیں کھاؤں گا"
نزاکت جہاں خاموش رہی اورنظر محمد نے گھر سے باہر نکلتے ہوئے کہا"اچھا تو میں چلا شام تک لوٹ آؤں گا"
آج وہ بڑے جوش وولولے کے ساتھ اپنے گہرے دوست کے بڑے بیٹے کی شادی میں جارہے تھے۔انھوں نے سڑک پار کرنے کے بعد ایک دکان سے رنگین لفافہ خریدا اور سو سو کے کرارے پانچ نوٹ اس میں رکھے۔باہر سے لفافےپر اپنا نام لکھا۔لفافہ جیب میں رکھا اور چل دیئے۔چلتے چلتے تقریبا"ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب نظر محمد امانت حسین کے گھر پہنچے تو وہاں کا ماحول دیکھ کر وہ کافی رنجیدہ ہوئے۔لوگوں کا ہجوم پورے گھر کو گھیرے ہوئے تھا۔بینڈ باجے کی دھن پر کئ لوگ ناچ رہے تھے۔عورتیں اور جوان لڑکیاں بے پردہ دندناتی پھر رہی تھیں۔نظر محمد بڑی مشکل سے اپنے دوست امانت حسین کے پاس پہنچے۔وہ ایک الگ کمرے میں بیٹھے تھے۔امانت حسین نے نظرمحمد کو دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور تپاک سے دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے۔نظر محمد نے امانت حسین کو کہا
"تجھے میری طرف سے سسر بننے کی بہت بہت مبارک"
"یار برات میں کیوں نہیں آیا؟" امانت حسین نے پوچھا۔
"براتوں میں کم ہی جاتا ہوں" نظرمحمد نے جواب دیا
"امانت یار…….. میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔مجھے تو یہ قطعی امید نہ تھی کہ تو اپنے بیٹے کی شادی اسطرح کرے گا۔میری آنکھیں تو یہاں رقص ابلیس دیکھ رہی ہیں۔"
امانت حسین نے نظر محمد کی پرشکوہ باتیں سنیں اور ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہنے لگے
"یار بڑا دکھی ہوا ہوں ۔میں نے اپنے بیٹوں کو بہت سمجھایا کہ شادی عین شریعت کے مطابق ہوگی۔بینڈ باجا اور ناچ گانا بالکل نہیں ہوگا مگر دونوں بیٹے یہاں تک کہ میری بیٹی بھی اس بات پر اڑ گئ اور بولی
"ابا بڑے بھیا کی شادی ہے۔کوئی غمی کی بات نہیں ہے۔باجا ہرحال میں بجے گا"
دونوں بیٹوں کو بہت منع کیا ۔انھیں سمجھانے بیٹھا تو آگے سے بولے"ابا آپ دقیانوسی خیالات کے آدمی ہیں۔انسان چاندپہ جاپہنچا۔پوری دنیا میں کتنی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور آپ ہیں کہ شریعت کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔شادی اور غمی میں کچھ امتیاز بھی چاہیے کہ نہیں اور پھر آپ کو یہ بھی احساس نہیں کہ ہمارے دوست واحباب،رشتے دار اور خاندان کے لوگ بینڈ باجے کے بغیر کتنی بے رونقی محسوس کریں گے۔یاد رکھیئے سبھی واپس اپنے گھروں کو بھاگ جایئں گے"
"نظرمحمد یار افسوس تو اس بات کا ہے کہ میری اپنی اولاد ہی میرے قابو میں نہیں ۔دوسروں کو کیا نصحیت کروں"
نظرمحمد نے کہا"یار پورا معاشرتی نظام بگڑ چکا ہے۔تمام انسانی قدریں مسمار ہورہی ہیں۔عورت پردے کانام ہے یعنی ایسی چیز جسے چھپایا جائے۔مگر اب تم دیکھ رہے ہو فلمی دنیا اور میڈیا نے اسے عریاں کردیا ہے۔کونسی چیز ہے جس پہ عورت کی تصویر نہیں ہے۔عورت کا استحصال صدیوں سے ہورہا ہے۔مرد نے اسے آج تک کتنا بیچا ہے اور کس کس طرح سے بیچ رہا ہے یہ تو تم بھی جانتے ہو اور ایک عجیب بات بتاؤں ؟"
"بھلا کیا؟" امانت حسین نے حیران ہوکر پوچھا۔نظرمحمدنے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
" یار اصل میں اکیسویں صدی کی عورت۔عورت رہنا نہیں چاہتی اور مرد ۔ مرد رہنا نہیں چاہتا ۔دونوں اپنی صنفی شناخت بدلنے کے متمنی ہیں۔تم دیکھ نہیں رہے ہو کئ مردوں نے عورتوں کی طرح بال بڑھا لیے ہیں اور بہت سی عورتوں نے اپنی لمبی گھنیری سیاہ ذلفوں کو کتنی بے دردی سے کٹواکے رکھ دیا ہے اور وہی عورتیں جب اوپر سے جس کا پینٹ بشرٹ پہن کے چلتی ہیں تو تیرے میرے جیسے سیدھے سادے تو کیا بڑے بڑے فارورڈ لوگ بھی انھیں پہلی اوردوسری نظر میں مرد سمجھ بیٹھتے ہیں"
"ارے یار تو سچ کہہ رہا ہے" امانت حسین نے تصدیق کی۔
نظر محمد نے کہا"اور سن لے ہماری تمام علمی وادبی دانشگاہیں اور ہماری تفریح گاہیں عیاشی کا اڈہ بن رہی ہیں۔ٹی وی اور موبائل فون نے نئی نسل کوآزادانہ جنسی اختلاط کی راہ پہ ڈال دیا ہے۔مگر میرے دوست ایک بات یاد رکھنا جو زہر کھائے گا وہی مرے گا اور پھر یہ بات بھی تو یاد رکھنے کی ہے کہ ہیرا گندگی میں بھی چمکتا ہے۔اس لیے تو اپنی اولاد سے مایوس نہ ہو۔ہمارا کام نیکی کرنا ہے۔بدی خود بخود دور ہوجائے گی۔بھلا روشنی کے آگے اندھیرا ٹک سکا ہے کیا؟اورتجھے بھگت کبیر کا وہ دوہا بھی تویاد ہوگا"کبیرا تیری جھونپڑی گلکٹین کے پاس جوکرن گے سو بھرن گے تو کیوں ہوتا اداس۔
"یار تیری اچھی باتیں سن کر میرے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ساہوگیا۔اچھا اب تو اٹھ اور کھانا بالکل تیار ہوچکا ہے کھانا کھا لے"
نظرمحمد نے آہستہ سے لفافہ جیب سے نکا لا اور مٹھی میں دبا کر امانت حسین کے ہاتھ پہ رکھا۔"یہ کیا ہے؟" امانت نے پوچھا۔ نظر محمد نے کہا"جو کچھ بھی ہے تو رکھ لے"
"نہیں نہیں یہ نہیں ہوگا۔اس رواج کو بھی اب ہمیں توڑنا چاہیے" امانت حسین نے لینے سے انکار کیا مگر نظرمحمد کھانا کھانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔وہ اوپر مکان کی چھت پر آئے ۔جہاں شامیانہ لگا ہوا تھا۔ایک طرف ترتیب سے بڑی میزوں پر کھانا لگایا جارہا تھا۔کھانے میں روغن جوش،روسٹ مرغا، کباب، کوفتہ، نان ، یخنی اور اسپیشل چاول شامل تھے۔جن سے سوندی سوندی خوشبو آرہی تھی۔اسکے علاوہ طرح طرح کی کھٹی میٹھی اورنمکین چیزیں بھی تیار کردی گئ تھیں تاکہ کھانا کھانےکے بعد انکا بھی ذائقہ چکھا جائے۔ عورتیں مرد بچے بوڑھے اور جوان سبھی طرح کے لوگ کھانا کھانے کے لیے بے تاب تھے۔ مگر ابھی تھوڑی سی کسر باقی تھی۔ بینڈ باجے والے جب بجاتے بجاتے تھک گئے تو انھوں نے بجانا بند کردیا تو اسکے فورا" بعد ٹیپ آن کردیا گیا۔ڈیک کی آواز اونچی کردی گئ اور بیک وقت کالج اور یونیورسٹی کے لڑکوں اور لڑکیوں نے ایک فحش پنجابی گانے کی دھن پر ناچنا شروع کردیا۔گانے کے بول تھے"میرا پیر سرکدا جندا اج میں ٹھیکے دی پتی"
اب نظر محمد کی آنکھوں کے سامنے فحاشی کا باب کھل چکا تھا۔وہ نہ آنکھیں بند کرسکتے تھے اور نہ ہی انھیں وہاں سے بھاگنے کی راہ دکھائی دے رہی تھی۔ادھر انکے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے ۔کھانے کی طرف بار بار نظریں اٹھتیں تو منہ میں پانی بھر آتا۔ غرضیکہ ایک عجیب قسم کی کشمش میں گرفتار تھے۔دیر تک یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ناچتے ناچتے پسینے سے شرابور ہوئے ۔ناچ گانا بند ہوا تو لوگوں کاہجوم کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ بد نظمی اور بداخلاقی کا مظاہرہ ہورہا تھا۔بوڑھے اور بچے پیچھے دھکیل دیئے جاتے اور مشٹنڈے آگے آجاتے۔عورتیں اور مرد سبھی ایک ساتھ کھڑے تھے، دھکے پہ دھکا لگا رہے تھے۔ نظرمحمد نے بھی کھانا لینے کیلئے پلیٹ ہاتھ میں لی اور آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگے کہ انکے آگے اور پیچھے عورتیں آکر کھڑی ہوگئیں۔اب شانے سے شانہ چھلنے لگا۔وہ دل ہی دل میں خدا سے دعا کرنے لگے"اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عورت کے فتنے اور قبر کے عذاب سے" لوگ کھڑے کھڑے کھانا کھا رہے تھے۔کھڑے کھڑے پانی پی رہے تھے۔باتیں کررہے تھے۔ہنس رہے تھے۔یوں معلوم ہورہا تھا کہ گویا آج کے ترقی یافتہ آدمی نے کھڑے کھڑے کھانا پینا جانوروں سے سیکھ لیا ہے۔نظرمحمد اندر ہی اندر کڑھ رہے تھے اور ملامت کررہے تھے کہ انگریز کمبخت تو ہندوستان سے چلا گیا ہے مگرہندوستانیوں کو اس نے اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے۔وہ تشویش میں پڑ گئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ آنے والے وقت میں یہ جدید دور کا آدمی بول وبراز اور دوسرے کام بھی کھڑے کھڑے ہی کرنے لگ جائے۔وہ ابھی یہی سوچتے ہوئے کھانا لینے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک کوئی 7 فٹ لمبا نوجوان ان سے آن ٹکرایا ۔اسکے ہاتھ سے چاول اور سالن سے بھری پلیٹ چھوٹ گئ اور پوری کی پوری نظر محمد کی برف جیسی سفید اچکن پر پڑ گئ اور چشم زدن میں انکا پیرہن رنگینیوں میں بدل گیا۔انھیں یوں لگا کہ جیسے کسی نے گرم گرم لوہا انکی چھاتی پہ رکھ دیا ہو۔قدرت نے انھیں صبر جمیل عطا نہ کیا ہوتا تو ضرور لڑ پڑتے مگر انھوں نے آہستہ سے خالی پلیٹ واپس اسی جگہ پہ رکھ دی جہاں سے انھوں نے وہ کھانا لینےکے لیے اٹھائی تھی اور چپکے سے سڑک پر چلے آئے۔اپنی اچکن اتاری اسکو تہہ کرکے اور بغل میں دبائے اپنے گھر پہنچے۔
سانجھ ڈھل چکی تھی۔نزاکت جہاں نے رات کا کھانا تیار کردیا تھا۔نظر محمد تھک ہار چکے تھے۔بھوک نے انکا برا حال کردیا تھا۔جاتے ہی بیوی سے کہا"کھانا کھلاو اور میری یہ اچکن بھی دھولو"
نزاکت جہاں نے حیران ہوکر پوچھا" کیوں……؟ بڑے چاو سے اپنے گہرے دوست کے بیٹے کی شادی میں گئے تھے اور بھوک بھوک کہہ رہے ہو۔میں اس وقت کہہ رہی تھی نا کہ کچھ کھا کے جاؤ مگر میری بات پرآپ نے کوئی دھیان نہیں دیا تھا اب آئی نا میری بات کی قدر" نظرمحمد نے ایک شکست خوردہ سپاہی کی طرح سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہا
"نزاکت جہاں تم نے سچ کہا تھا۔اب آئندہ کبھی بھی ایسی حماقت نہیں کروں گا۔مگر خدا کی بندی کھانا تو کھلا دو"
***********************
اسسٹینٹ پروفیسر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ
یونیورسٹی راجوری،( جموں وکشمیر)،موبائل نمبر 09419336120