اِشا ایلیا
مشہور مغربی مصنف اسٹین لین پول نے اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘میں مسلمان تاجروں کی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اور کبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ یہاں چین میں منصب قضاء تک پہنچے اور حاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیانہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔ وہ عزت والے تھے اور عزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھےبلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی ،وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔ وہ چینیوں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔‘‘
ایک طرف وابستگان اسلام کے یہ بلند اخلاق کہ اغیار بھی اعتراف پر مجبور اور دوسری طرف ہماری حالت زار۔ آج کے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاق وکردار ،حسن معاملات اور نرمی و محبت کے آثار مٹتے جارہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قوموں میں رسوا اور ذلیل ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن ہمیں دیمک کی طرح کھاتاجارہا ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتے ہیں جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام نہ کرو کہ یوں کہنے لگو اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں تو ہم بھی ان کے ساتھ بھلائی کریں اور اگر لوگ ہمارے اوپر ظلم کریں تو ہم بھی ان پر ظلم کریں ،بلکہ تم اپنے آپ کو اس بات پر قائم رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو اور اگر لوگ بُرا سلوک کریں، تب بھی تم ظلم نہ کرو۔‘‘(ترمذی)