ریحانہ شجرؔ
مجھے یونیورسٹی کے دنوں کی ایک بات یاد آئی۔ ہر طرف بد امنی کا دور دورہ تھا۔ کہیں کسی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تو کہیں کسی کو اٹھا لے گئے۔
تعلیمی ادارے مہینوں بند پڑے رہتے تھے۔ ہم سہیلیاں مل کر ایک دن یونیورسٹی لائبریری تعلیمی مواد حاصل کرنے کی غرض سے گئیں۔
ان دنوں ایک عار ضی کینٹین یونیورسٹی باغ کے بیچوں بیچ بنایا گیا تھا۔ لائبریری سے کتابیں اور تعلیمی مواد لینے کے بعد ہم چاروں سہیلیاں یونیورسٹی کے لان میں جھیل کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئیں۔ چائے اور سموسے آڈر کئے اور مزے سے چائے کی چسکیاں لے کر باتیں کرنے میں مصروف ہوگئیں۔
اچانک پیالوں کے ٹوٹنے کی آواز نے ہماری گفتگو کا سلسلہ توڑ دیا۔ کچھ مستی خور کینٹین والے پر اپنا زور آزما کر پیالے چکنا چور کر رہے تھے۔ اور گرجدار آواز میں کینٹین والے کو للکار رہے تھے کہ دوبارہ پیالے زمین پر پڑے نہ ہوں، ان کو کتے چاٹتے رہتے ہیں اور بعد میں ان ہی میں ہمیں چائے پیش کرتے ہو۔
۔۔۔۔۔چھوٹو کڑک چائے لے آو، ان میں سے کسی نے آواز لگائی۔ دوسرے لڑکے نے کہا، کیا یار ! کہاں لائے ہو ، چائے سموسے سے کیا ہوگا آج کچھ اچھا کھانا چاہئے۔ دوسرے دوست نے کہا آج اچھا کھانا بنتا ہے، دوست ! لیکن پہلے چائے پی کر تھوڑا سا تازہ ہوجانے دو۔
ہم سہیلیاں سر نیچے کرکے ان کی باتیں سن رہیں تھیں۔
ان میں سے ایک نے کہا ، کچھ بھی کہو یار آج مزا آگیا۔ موٹی آسامی تھی۔ فضول میں اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھا سیدھے پیسے نکالنے میں اس کا کیا جاتا اور ہمارا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا۔
دوسرے نے کہا دیر آید درست آید ، شکر ہے سب ٹھیک ہوا۔ہم نے ایک ہفتہ پہلے اس کو اغواء کیا تھا۔ اتنے دنوں کے بعد آج ٹوٹ گیا اور فروتی کی رقم کا انتظام کیا ۔ اب ہم سینٹرل مارکیٹ جا کر کسی بڑے سے ہوٹل میں کھانا بھی کھائیں گے اور باقی رقم بھی بانٹ لیں گے۔
مجھے یہ آواز جانی پہچانی لگی۔ جب وہ نکلنے لگے تو میری نظر جس پڑی وہ میرا پڑوسی عادل تھا۔ میں حیران و پریشان اس کو تکتی رہی۔ محلے میں کیا ٹھاٹھ سے چلتا تھا اور اس کی ایمانداری کے بڑے چرچے تھے۔
میرا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اس لیے اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ میں نے کسی سے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا اور گھر پہنچ گئی۔
مغرب کے بعد میں کام میں مصروف تھی۔ پڑوس کے گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ روتے ہوئے عورت کہہ رہی تھی (ہتا عادل مول ہا تلہ ہوی، ژء کتیو اوسُکھ ییتس کالس ) عادل تو اب تک کدھر تھا تیرے بابا کو کوئی اغواء کر کے لے گیا۔
���
وزیر باغ، سرینگر
[email protected]