اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی بحران کا شکار

Towseef
11 Min Read

شمس آغاز

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، بیداری اور خوشحالی کا سب سے مؤثر اور پائیدار ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف فرد کی ذہنی، اخلاقی اور شعوری تربیت کا وسیلہ ہےبلکہ ایک ایسا طاقتور ہتھیار ہے، جو معاشرتی انصاف، معاشی خود کفالت، سائنسی ایجادات اور قومی یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے فرد بااختیار بنتا ہے، اپنے حقوق سے آگاہ ہوتا ہے اور قومی ترقی میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت جیسے عظیم، متنوع اور جمہوری ملک میں جہاں مختلف مذاہب، ثقافتوں اور زبانوں کے لوگ بستے ہیں، وہاں تعلیم تک مساوی رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ خصوصاً اقلیتی طبقات کے لیے تعلیم نہ صرف ترقی کا زینہ ہے بلکہ ان کی شناخت، خود اعتمادی اور سماجی شمولیت کا ضامن بھی ہے۔ تاہم، حالیہ ’’آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن(اے آئی ایس ایچ ای)‘‘کے مطابق، مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں نمائندگی میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، جو نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ ایک قومی چیلنج بھی ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رجحان پر فوری توجہ دی جائے، پالیسی سازی میں شفافیت لائی جائے اور اقلیتی طبقات کو مخصوص تعلیمی مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ ہر فرد کو مساوی مواقع میسر آئیں اور ترقی کا سفر سب کے لیے یکساں ہو۔

آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن(اے آئی ایس ایچ ای) کی رپورٹ کے مطابق سال 2021-2022 میں بھارت کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کل 4 کروڑ 32 لاکھ 68 ہزار 181 طلبہ کا اندراج ہوا، جن میں مسلمانوں کی تعداد صرف 21 لاکھ 8 ہزار 33 رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان طلبہ کی شرح صرف 4.87 فیصد رہی، جو کہ نہ صرف قومی سطح پر اقلیتوں کے تناسب سے کم ہے بلکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں مسلسل کمی کی طرف اشارہ بھی کر رہی ہے۔ سنہ 2020 میں یہ شرح 5.5 فیصد تھی، جبکہ 2021 میں گھٹ کر 4.6 فیصد ہو گئی تھی۔ اس تسلسل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل قریب میں مسلمان طلبہ اعلیٰ تعلیم سے مزید دور ہو سکتے ہیں۔

یہ زوال صرف مجموعی سطح پر ہی نہیں بلکہ علاقائی سطح پر بھی واضح ہے۔ مثال کے طور پر جموں و کشمیر میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں اعلیٰ تعلیم میں ان کی نمائندگی 34.5 فیصد رہی۔ یہ شرح نسبتاً تسلی بخش ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کا مجموعی گروش انرولمنٹ ریشو (GER) صرف 24.8 فیصد ہے، جو قومی اوسط کے برابر ہی ہے۔ دوسری جانب، اروناچل پردیش میں مسلمانوں کی نمائندگی محض 0.16 فیصد ہے، حالانکہ وہاں کا GER گروش انرولمنٹ ریشو 36.5 فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو وہاں کی اعلیٰ تعلیمی فضا میں مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کیرالہ، جو کہ تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ ریاست ہے، وہاں مسلمانوں کی نمائندگی 14.36 فیصد ہے اور GER 41.3 فیصد ہے، جو کہ ملک کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ ہریانہ اور ہماچل پردیش جیسے ریاستوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بالترتیب 0.99 فیصد اور 0.41 فیصد ہے، جو کہ تشویشناک حد تک کم ہے۔ اترپردیش جیسی ریاست، جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے، وہاں بھی ان کی نمائندگی صرف 4.68 فیصد ہے۔ مغربی بنگال میں البتہ صورتحال کچھ بہتر ہے جہاں 12.33 فیصد طلبہ مسلمان ہیں، لیکن یہ شرح بھی ریاست کی آبادی کے تناسب سے کم ہے۔

اس مسلسل کمی کی کئی گہری اور پیچیدہ وجوہات ہیں جن پر سنجیدگی اور ہمدردی کے ساتھ غور کیا جانا ضروری ہے۔ سب سے بڑی اور بنیادی وجہ معاشی پسماندگی ہے۔ ملک کے بیشتر مسلمان خاندان غربت یا کم آمدنی کا شکار ہیں، جہاں روزمرہ ضروریات پوری کرنا ہی ایک چیلنج ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں بچوں کی تعلیم کو غیر ضروری یا اضافی بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات کم عمری میں ہی بچوں کو روزگار پر لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ خاندان کی مالی مدد کر سکیں۔ اس رجحان کا براہِ راست اثر اعلیٰ تعلیم کے حصول پر پڑتا ہے۔

دوسری بڑی رکاوٹ معیاری تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ بہت سے مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے—جہاں نہ معیاری اسکول دستیاب ہیں، نہ کالج اور نہ ہی یونیورسٹیز۔ ان علاقوں کے طلبہ، خاص طور پر طالبات کو تعلیم کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں، جو نہ صرف مالی بوجھ بڑھاتا ہے بلکہ تحفظ اور سماجی دباؤ جیسے مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سے تعلیم کا تسلسل متاثر ہوتا ہے اور تعلیمی عمل ادھورا رہ جاتا ہے۔ ان مسائل کا حل جامع پالیسیوں، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور اقلیتی علاقوں میں تعلیم دوست ماحول پیدا کرنے سے ہی ممکن ہے۔

تیسری وجہ سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں ہیں۔ بعض خاندان مذہبی یا ثقافتی بنیادوں پر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہیں یا انہیں محدود ماحول میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ چوتھی وجہ حکومتی اسکیموں کی ناکافی عملدرآمد ہے۔ اگرچہ اقلیتوں کے لیے مختلف تعلیمی اسکیمیں اور اسکالرشپس موجود ہیں، مگر ان کی معلومات عام عوام تک نہیں پہنچ پاتی یا وہ پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ پانچویں وجہ اعتماد کی کمی ہے۔ مسلمان طلبہ اور والدین کو موجودہ تعلیمی نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ انہیں یہ احساس ہے کہ تعلیم حاصل کر لینے کے باوجود بھی انہیں مساوی مواقع نہیں ملیں گے یا وہ سماجی و اقتصادی ترقی میں پیچھے ہی رہیں گے۔

نتیجتاً، مسلمانوں میں تعلیم کے میدان میں جو کمی آئی ہے اس کے اثرات بہت وسیع اور دور رس ہیں۔ سب سے پہلا اثر سماجی تفریق میں اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جب ایک پوری کمیونٹی تعلیمی طور پر پیچھے رہ جائے تو وہ خود بخود سماجی ترقی کے عمل سے باہر ہو جاتی ہے۔ دوسرا اثر قومی ترقی پر پڑتا ہے۔ ایک بڑی آبادی اگر تعلیم سے محروم ہو تو وہ نہ صرف خود ترقی کے مواقع کھو دیتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ تیسرا اثر غربت اور بے روزگاری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو فرد کو معاشی خود کفالت کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ چوتھا اثر خواتین کی مزید پسماندگی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی تعلیمی شرح نہایت کم ہے اور اس کی وجہ سے ان کے اندر خود اعتمادی، معاشرتی کردار اور زندگی کے بہتر مواقع پیدا نہیں ہو پاتے۔

اس مسئلے کا حل صرف حکومتی اسکیموں یا وقتی پالیسیوں میں نہیں بلکہ ایک ہمہ جہتی اور مربوط حکمت عملی میں ہے۔ سب سے پہلے تو مسلمانوں کو خود تعلیمی اہمیت کو پہچاننا ہوگا۔ ہر سطح پر، چاہے وہ گھر ہو، محلہ ہو، مسجد ہو یا مدرسہ، تعلیم کو ترجیحی حیثیت دینی ہوگی۔ دوسری جانب حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے لیے مخصوص اسکالرشپس اور تعلیمی ریزرویشن کی پالیسیوں کو وسعت دے اور ان پر مؤثر عملدرآمد یقینی بنائے۔ خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں معیاری کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے۔

مسلم این جی اوز اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ طلبہ کے لیے مفت یا کم لاگت والے کوچنگ سینٹرز قائم کریں، اسکالرشپ کے بارے میں معلومات فراہم کریں اور ان کے لیے ہاسٹل، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات مہیا کریں۔ والدین کی تربیت اور کونسلنگ کا بھی بندوبست کیا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو ترجیح دیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خصوصی اسکیمیں شروع کی جائیں، جیسے علیحدہ تعلیمی ادارے جہاں ضروری ہو اور ان کے لیے مخصوص اسکالرشپس تاکہ والدین کا اعتماد بحال ہو۔

ڈیجیٹل تعلیم کے ذریعے بھی بڑی حد تک اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ آن لائن کورسز، اوپن یونیورسٹیز اور ورچوئل لرننگ کے ذریعے کم خرچ میں معیاری تعلیم ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اساتذہ کی تربیت اور کمیونٹی لیڈروں کی شرکت بھی تعلیمی بیداری میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

اگر بھارت کو واقعی ایک ترقی یافتہ، ہم آہنگ اور متوازن معاشرہ بنانا ہے تو ضروری ہے کہ تمام طبقات کو مساوی تعلیمی مواقع مواقع فراہم کیے جائیں۔ مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں گھٹتی ہوئی نمائندگی ایک سنجیدہ اور تشویش ناک علامت ہے جس پر فوری اور عملی اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے نتائج نہ صرف اس قوم کے لیے پورے ملک کی سماجی ہم آہنگی اور ترقی پر منفی انداز میں مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ تعلیمی پالیسیوں میں شفافیت، انصاف اور مساوات کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہر فرد، ہر قوم اور ہر مذہب کا فرد تعلیم کی روشنی سے مستفید ہو کر ملک کی ترقی میں مساوی کردار ادا کر سکے۔
رابطہ۔9716518126
[email protected]>
������������������

Share This Article