زیر تبصرہ تصنیف خطۂ جموں کشمیر کے پونچھ ضلع سے تعلق رکھنے والے اعجاز اسد کا شعری مجموعہ ہے ۔جناب اعجاز اسد نے اپنی خدا داد صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پر 2012 میں ملک کے سب سے بڑے مقابلہ جاتی امتحان (آئی اے ایس) میں کامیابی حاصل کر کے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے ۔جناب اعجاز اسد فی الوقت بطور ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔جہاں انتظامی امور سے وابستہ لوگ پلک جھپکنے کی فرصت نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں وہاں اعجاز اسد اتنے اہم اور اعلیٰ انتظامی منصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو بحسن خوبی پروان چڑھا رہے ہیں۔ جس کا جیتا جاگتا ثبوت "برف زار " کی صورت میں اس وقت ہم سب کے سامنے ہے۔اعجاز اسد نے اپنے شعری مجموعے میں مختلف موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ان کے اس شعری مجموعے کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اعجاز اسد زمین سے جڑا ہوا شخص ہے۔ایک اچھے شاعر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنی شاعری میں جگہ دے ۔اکثر اوقات جب لوگ کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کرتے ہیں اور جب انہیں دنیا کی آسائشیں نصیب ہوتی ہیں تو وہ ہوا سے باتیں کرنے لگتے ہیں لیکن اعجاز اسد کے شعری مجموعے کو پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اعجاز نے تمام تر آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود اپنی شاعری میں عصری مسائل کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات اور احساسات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔مذکورہ شاعر نے اپنے شعری مجموعے میں بزرگوں کی تعظیم کو لازمی قرار دیا ہے۔بلکہ وہ اپنی شاعری میں یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کو جو کامیابی نصیب ہوئی ہے وہ بزرگوں کی دعاؤں کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔اس طرح کے ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
ہمارے پاس ہے جو بھی انہیں کا ورثہ ہے
سو ہم بڑوں کا بہت احترام کرتے ہیں
زہے نصیب! کہ میں نے بڑوں کی خدمت کی
اسدؔ انہیں کی دعاؤں پہ پل رہا ہوں میں
بزرگوں کی حویلی میں دکھائی دی وہی رونق
زمیں میں دفن تھے کچھ قیمتی زیور نکل آئے
مندرجہ بالا اشعار اس بات کی طرف ایک واضح اشارہ ہیں کہ اعجاز اسد بزرگوں کی تعظیم اور احترام کے قائل ہیں اعجاز اسد نے زیر تبصرہ شعری مجموعے میں قوم کے نوجوان کا حوصلہ بڑھانے کی بھی کوشش کی ہے وہ پست ہمتی کو ناکامی سے گردانتے ہیں اور ہر مصیبت کا بہادی سے مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انسان کو ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لینا چاہیے ۔اور کبھی بھی بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں۔ ؎
جان لڑا دیتا ہے جیالا
بزدل پیچھے ہٹ جاتا ہے
خوش رہنے کا عزم کرو تو
غم کا بادل چھٹ جاتا ہے
اندھری رات کی ظلمت سے ٹکرانہ میری فطرت
چراغِ عزم کو میں راہ کی مشعل بناتا ہوں
میری مشکل پسندی کا یہ عالم ہو گیا یارو!
مزہ آتا نہیں رستہ اگر ہموار ہو جائے
ہمیں آسانیوں سے کب ملی ہیں منزلیں اپنی
بڑی مشکل سے ہم نے بھیڑ میں رستے نکالے ہیں
مذکورہ شاعر امن و امان کا حامی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں بھائی چارے کا بھی خواہاں ہے مذکورہ شاعر کو مذہبی انتشار کھلتا ہے۔ بقول شاعر پوری انسانیت مذہبی تفرقات میں بٹ گئی ہے جبکہ انسان انسانیت کی پٹری سے گرتا جا رہا ہے مذکورہ شاعر نے مذہبی بھائی چارے اور رواداری کو قائم رکھنے کی بات کی ہے۔ جیسے؎
ہیں سبز و سرخ پیڑوں پر جھنڈے لگے ہوئے
سایہ بھی جیسے ہندو مسلمان ہو گیا
ہندو مسلم ہیں بستی میں
بتلاؤ انسان کہاں ہے
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ موجودہ دور میں رشتوں کی ناقدری عروج پر ہے انسان نے اگر چہ ترقی کی بہت ساری منازل طے کی ہیں تاہم نہ ہی انسان کو سکون قلب حاصل ہو رہا ہے اور نہ ہی انسان کو اپنے اندر کے شیطان کو مارنے میں کامیابی ملی ہے، اگر چہ ظاہری طور پر آج کے ترقی یافتہ انسان نے مختلف فتوحات حاصل کیں ہیں۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار اعجاز اسدؔ نے اپنی شاعری میں کچھ اس طرح سے کیا ہے؎
باہر کے محازوں کی تمہیں فتح مبارک
اب نفس کے شیطان کو گرفتار کرونا
سارے بندھن ٹوٹ چکے ہیں
اب رشتوں میں جان کہاں ہے
کیسا عجیب آج کا انسان ہو گیا
آسائشوں کی دھن میں پریشان ہو گیا
مذکورہ شعری مجموعے میں ایسے متعدد اشعار موجود ہیں جو ایک انسان کی توجہ اس بات کی طرف مائل کرتے ہیں کہ آج کا انسان اگر چہ نئی نئی ایجادات کر کے اپنے لئے آسائش اور آرام کا سامان مہیا کر رہا ہے تاہم وہ و مادیت پرستی میں اس قدر کھوچکا ہے کہ وہ اصل دولت یعنی سکونِ قلب سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اعجاز اسد نے نام نہاد اور خود غرض سیاست دانوں پر بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ نشانہ سادا ہے۔ لکھتے ہیں؎
ہر اک شخص کو رہبری کا ہے دعویٰ
ذرا پوچھئے تو قیادت کہاں ہے
وہ چشم دید گواہوں کو مار ڈالیں گے
سیاسی لوگ، کہاں قاعدے سے چلتے ہیں
نفرت کی فصل بونے لگے، شرم تو کرو
وعدہ کیا تھا امن کا، تم نے عوام سے
اتنے سنجیدہ مسائل پر شاعری کرنے والا یہ شاعر رومانی احساسات سے عاری نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی شاعری سے محبت کی زرخیز زمین سے پھول اُگانے کا کام بھی کیا ہے۔ محبت کے پودے کی آبیاری مذکورہ شاعر نے کچھ اس طرح سے کی ہے ؎
میرے پہلو میں تو نہیں نہ سہی
میرے شانے پہ تیری شان تو ہے
تجھ سے مخاطب ہوں جانِ من
لیکن تیرا دھیان کہاں ہے
لمحہ لمحہ جیوں تجھے جاناں!
تو اگر میری زندگی ہو جائے
مجھ کو اگر بلاؤ ملاقات کے لئے
اپنی سہیلیوں کو خبر مت کیا کرو
اعجاز اسد صاحب نے اپنی شاعری میں جدائی کے درد و کرب کو بھی بہت سادگی سے پیش کیا ہے ۔اس موضوع پر مذکورہ شاعر نے اس طرح کے اشعار تخلیق کئے ہیں جو دل میں ایک تیر کی مانند پیوست ہوتے ہیں۔ انہوں نے جدائی کا سارا درد محض چند اشعار میں سمیٹا ہے ۔اعجاز اسد صاحب "برف زار "میں اس موضوع پر کچھ اس طرح سے رقم طراز ہیں ؎
دمِ رخصت مجھے تھا مسکرانا
اور اشکوں کو چھلکن کی پڑی تھی
قدم بھاری ہوئے محسوس مجھ کو
جدائی کی گھڑی ایسی گھڑی تھی
ہجر کا موسم کٹ جاتا ہے
بڑھتے بڑھتے گھٹ جاتا ہے
اعجاز اسد صاحب نے اگر چہ حسینوں کی بے وفائی کا رونا بھی رویا ہے تاہم ان کی آنکھیں ابھی بھی اپنے محبوب کی منتظر ہیں۔ لکھتے ہیں؎
اب آ کے جھانک میری سرخ سرخ آنکھوں میں
ان آئینوں میں تیرا انتظار بولتا ہے
موجودہ دور میں محبت جہاں ہوس پرستی کے ساتھ ساتھ جسموں کا کھیل بن چکا ہے وہاں اعجاز اسد جیسے شاعر کا کہنا ہے کہ اگر عشق دو روحوں کا بندھن ہےتو اس میں جسموں کی کیوں کر ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک شعر آپ کی بصیرتوں کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔
اگر عشق روحوں کا بندھن ہے پیارے
تو اس میں بدن کی ضرورت کہاں ہے
اعجاز اسد کے اس شعری مجموعے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سادہ سلیس اور عام فہم الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔قاری کو شعر سمجھنے کے لیے زیادہ مشقت یا کسی لغت وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ شعر پڑھتے یا سنتے ہی دل میں اتر جاتا ہے۔ مذکورہ شاعر نے اپنے گردونواح میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو اس خوبصورتی سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے کہ پڑھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے اُسے ہی ان حالات سے سابقہ پڑا ہو۔ان اشعار میں ذرہ بھر بھی نمود و نمائش نہیں ہے بلکہ شاعر نے جو محسوس کیا وہ سب اپنی اصل شکل میں قاری تک پہنچانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور ایسا کرنا شاعر کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے جو اعجاز اسد صاحب نے خوب نبھائی ہے۔
���
اویل نورآباد، کولگام
موبائل نمبر؛7006738436