محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔
اعتکاف قرآن کی روشنی میں: پچھلی قوموں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، اللّٰہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا: ’’ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو۔‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کی قربت و رضا کے حصول کے لیے گزشتہ امتوں نے نفلی طور پر بعض ایسی ریاضتیں اپنے اوپر لازم کر لی تھیں، جو اللہ نے اُن پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو ’’رہبان‘‘ اور ’’احبار‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفیٰؐ نے تقرب الی اللّٰہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی اُمت کے لیے اعلیٰ ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔
احادیث میں بھی اعتکاف کا ذکر موجود ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف نبی اکرمؐ کی پیاری سنت ہے: سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے نے بیان کیا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰؐ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپؐ کا وصال ہو گیا۔ پھر آپ ؐکے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات (بیویاں) بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’ جس نے اللّٰہ کی رضا کیلئے ایک دن کا اعتکاف کیا اللّٰہ اس کے اور دوزخ کے درمیان مشرق سے مغرب جتنے فاصلے جتنی دوری پیدا فرما دیتا ہے (یعنی وہ جہنم سے اتنے فاصلے جتنا دور ہو جاتا ہے)
اعتکاف کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ مردوں کا اعتکاف مسجد میں ہی ہوتا ہے، البتہ خواتین کیلئے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ (یعنی مسجد البیت) کو بطور اعتکاف گاہ مختص کر لینا جائز ہے۔
ملا علی قاری لکھتے ہیں: ’’ اعتکاف جماعت والی مسجد میں ہی درست ہے، یعنی ایسی مسجد جہاں لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں اور امام ابوحنیفہ ؒ سے مروی ہے: ’’اعتکاف صرف ایسی جامع مسجد میں درست ہے جہاں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ اعتکاف کسی بھی مسجد میں جائز ہے اور یہی قول امام مالک اور امام شافعی کا بھی ہے۔
’’ جس نے رَمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا،وہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔‘‘ (شُعَیب الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۶)
’’ اعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں ۔‘‘ (ابنِ ماجہ ج۲، ص۳۶۵، حدیث: ۱۷۸۱) حضرت حسن بصری ؓ منقول ہے: ’’معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں پنجگانہ نمازِ باجماعت ادا کرنےاور رمضان المبارک میں اعتکاف کے لیے بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
رابطہ نمبر9037099731
اعتکاف۔ قربِ الٰہی کا مجرّب عمل