الطاف صوفی۔ بارہمولہ
امیتابھ بچن کے پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی کے ایک ایپی سوڈ میں ،نیرج سکسینہ نامی ایک شخص نے حصہ لیا ۔جنہوں نے تیز ترین فنگر راوئنڈ میں پہلا مقام حاصل کیا اور ہاٹ سیٹ تک پہنچ گئے ۔عموماً لوگ امیتابھ کے سامنے بیٹھ کر بہت جذباتی ہوجاتے ہیں ۔وہ اُن کو چھونا چاہتے ہیں انہیں گلے لگانا چاہتے ہیں لیکن وہ وہاں سکون سے بیٹھے رہے ۔کوئی چیخ نہیں ،کوئی رقص نہیں ،آنسو نہیں ،امیتابھ کو گلے نہیں لگایا ۔پھر جب تعارف ہوا تو معلوم ہوا وہ ایک سائنسدان ہیں ،پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں ،اور کولکتہ کی ایک یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں ۔انہیں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ نیرج نے سامعین کے پول کا استعمال کرتے ہوئے اعتماد کے ساتھ گیم کا آغاز کیا ،اس نے ہر سوال کا آسانی کے ساتھ جواب دیا ،اور اس کی ذہانت حیران کن تھی ۔اس نے وقفے سے پہلے 3.2 لاکھ ر ر وپے اور مساوی بونس جیتا۔
وقفے کے بعد امیتابھ نے اگلا سوال پیش کرنا شروع کیا : ٹھیک ہے ڈاکٹر اب گیارواں سوال آرہا ہے ۔۔۔یہ ہے ۔۔’’لیکن تب ہی ،نیرج بولا،’’سر ،میں چھوڑنا چاہوں گا ۔‘‘امیتابھ حیران رہ گئے ۔ایک مد مقابل اتنا اچھا کھیل رہا ہے ،جس میں ابھی تین لائف لائنیں باقی ہیں اور اپنی قابلیت سے وہ ایک کروڑ روپے آسانی سے جیت سکتے ہیں ،وہ چھوڑنا چاہتا ہے ؟
نیرج نے سکون سے جواب دیا ،’’یہاں دوسرے مقابلہ کرنے والے انتظار کر رہے ہیں ،اور وہ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں ۔وہ بھی ایک موقع کے مستحق ہیں ،اس کے علاوہ ، میں پہلے ہی ایک اچھی رقم جیت چکا ہوں ۔میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاس جو ہے وہ کافی ہے ۔مجھے مزید ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ امیتابھ تو ایک دم گنگ ہوگئے ،پورا اسٹیوڈیو ایک لمحے کے لئے خاموش ہوگیا ۔پہلے تو کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا ،اس نفسانفسی کے دور میں کوئی ایسے بھی سوچ سکتا ہے اور پھر سب نے کھڑے ہوکر دیر تک تالیاں بجا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔امیتابھ نے کہا ،’’ آج آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ۔اتنے شائستہ شخص سے ملنا نایاب ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے ‘‘۔ سچ میں ،اتنا بڑا موقع ہونے کے باوجود ،نیرج کا پیچھے ہٹنے اور دوسروں کو کھیلنے کی اجازت دینے کا فیصلہ جو اس کے پاس تھا اس پر مطمئن رہتے ہوئےمیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔میں نے دل ہی دل میں اسے سلام کیا ۔
آج لوگ اکثر پیسے ،طاقت کا لامتناہی پیچھا کرتے ہیں ،چاہے وہ کتنا ہی کما لیں ،وہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے ۔لالچ کبھی کم نہیں ہوتا،اس تعاقب میں لوگ اپنا خاندانی وقت
،نیند ،سکون ،محبت اور دوستیاں کھودیتے ہیں ۔لیکن ایسے وقتوں میں ڈاکٹر نیرج سکسینہ جیسے لوگ ہمیں قیمتی سبق یاد دلاتے ہیں ۔اس دور میں کسی ایسے شخص سے ملنا جو کم پر مطمئن ہو ،ایک نادر اور قیمتی نظارہ ہے ۔نیرج کے جانے کے بعد ایک نوجوان لڑکی ہاٹ سیٹ پر آئی ۔اس نے اپنی کہانی شیئر کی :’’میرے والد نے ہمیں اس لئے نکال دیا کہ ہم تین بیٹیاں ہیں ۔اب ہم ایک آشرم میں رہتے ہیں ‘‘۔
مجھے احساس ہوا کہ اگر نیرج نہ چھوڑتا تو اس لڑکی کو کھیلنے کا موقع نہیں ملتا ۔اُس کی قربانی نے اسے کچھ پیسہ کمانے کا موقع فراہم کیا ۔آج کی دنیا میں لوگ اپنی وراثت سے ایک پیسہ بھی الگ نہیں چاہتے ،لیکن یہ ایک غیر معمولی معاملہ تھا ۔
جب آپ کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کب رُکنا ہے اور دوسروں کو موقع دینا ہے ۔خود غرضی کو چھوڑنا اجتماعی خوشی کا باعث بنتا ہے ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان وقت کے ساتھ اپنا معیار بدلتا رہتا ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں پوری زندگی گزار دیتا ہے ۔ہوتا یوں ہے کہ ایک انسان اپنی موجودہ سماجی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کچھ سہولیات حاصل کرنے کے خواہش اور جستجو کرتا ہے اوربا لآخر وہ سہولیات اسے حاصل ہوجاتی ہیں ۔کچھ عرصے ان سہولیات کے ساتھ گزار کر انسان کے اندر مزید بہتری کی آرزو جنم لیتی ہے اور وہ نئی سہولیات کے حصول میں سرگرداں ہوجاتا ہے ۔ممکن ہے کہ یہ سفر دو کمروں کے مکان اور سائیکل سے شروع ہو مگر اس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا ۔جدید ترین کار اور وسیع و عریض کوٹھی کا مالک بننے کے بعد بھی انسان کو دائمی اطمینان نصیب نہیں ہوتا ،اور وہ کئی کاروں اور کوٹھیوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیتا ہے ۔مشہور ماہر نفسیات کیمپ بیل نے کہا تھا کہ انسان کرہ ارض پر کبھی سماجی جنت تعمیر نہیں کرسکتا ۔اس بات کا امکان موجود ہے کہ اپنی خیالی جنت یا یوٹوپیا میں ایک رات گزار کر جب وہ بیدار ہوگا تو اپنی زندگی کے معیار کو نئے سرے سے تشکیل دینے کا آغاز کردے گا ۔ انسان زندگی بھر اپنا موازنہ دیگر لوگوں سے کرتا رہتا ہے اور اس کا احساسِ کمتری ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔انسان بہت کچھ حاصل کرتا ہے اور کچھ دیر کے لئے خوشی اور اطمینان بھی اسے میسر آتا ہے ،مگر اس کی ساری خوشی اس وقت رخصت ہوجاتی ہے جب کچھ لوگ اسے اپنے سے بہتر مقام پر نظر آتے ہیں ۔عظیم تر سچائی یہ ہے کہ مذکورہ کمزوریاں قرآن و حدیث کے ذریعے بہت پہلے دنیا کے سامنے لائی جاچکی ہیں ۔سورہ النکاثر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ انسان زندگی بھر کثرت کی دوڑ میں لگا رہتا ہے ۔کثرت کی یہ خواہش کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہے ،مثلاَََزیادہ سے زیادہ دولت ،طاقت اور شہرت کا حصول ،انسان کو زندگی بھر اطمینان نصیب نہیں ہوتا ،یہاں تک کہ وہ موت سے ہم کنار
ہوجاتا ہے ۔
لالچ اور ہوس کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا ۔انسان جھوٹی مسرت کی تلاش میں پوری زندگی گزاردیتا ہے ۔نبی کریم ؐ کی ایک حدیث میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے :’’اگر ابن آدم کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرے گا ۔ابن آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھر سکتا ‘‘(ترمذی)
سارے قوانین اپنی جگہ ،مگر خود ماہرین نفسیات یہ محسوس کرتے ہیں کہ کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو بحثیت مجموعی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اطمینان بخش اور پُر مسرت زندگی گزارتے ہیں ۔آخر یہ لوگ کون ہوتے ہیں ؟ماہرین کا خیال ہے کہ ان لوگوں کا تعلق کسی خاص عمر،صنف ،خاندان ،برادری یا قبیلے سے نہیں ہوتا ۔ان لوگوں کا کوئی مخصوص تعلیمی معیار یا درجہ ذہانت نہیں ہوتا ۔کچھ مخصوص اوصاف ہیں ،جو ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں اور انہیں مسرت اور اطمینان عطا کرتے ہیں ۔یہ اوصاف درجہ ذیل ہیں :
۔ان لوگوں میں زیادہ خود اعتمادی ہوتی ہے ۔ان لوگوں کے اپنے اہلِ خانہ اور دیگر افراد سے خوش گوار تعلقات ہوتے ہیں ۔یہ مظبوط مذہبی اعتقاد کے حامل ہوتے ہیں ۔یہ دوسروں کی مدد کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ان کے اندر مایوسی کم پائی جاتی ہے ،یہ عمومی طور پر پُر امید اور خوش گماں ہوتے ہیں ۔ان کی نیند عام طور پر خوش گوار ہوتی ہے ۔
یہ لوگ سست الوجود نہیں ہوتے ،متحرک ہوتے ہیں ۔کسی نہ کسی مثبت سرگرمی سے وابستہ ہوتے ہیں ۔
یہ ساری خصوصیات وہ ہیں جو بین القوامی طور پر معروف ماہرین ِ نفسیات نے بیان کی ہیںاور ان کا تعلق کسی خاص نظریے یا مذہب سے نہیںہے ۔قرآن و حدیث میں بھی ان ساری خصوصیات کا تذکرہ موجود ہے ۔ہمیں ان خوبیوں کو اپنا نا چاہیے ۔اگر یہ اوصاف ہمارے اندر آجائیں تو اطمینان اور مسرت ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں گے ،وہ اطمینان جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہ مسرت جو پائیدار ہوتی ہے ۔
[email protected]
�������������������