گزشتہ ستائیس برس سے کشمیر کسی نہ کسی عنوان سے نحوست آمیز خبروں کا مر کز بنا چلا آرہاہے ۔ تاریخ کو بہ نظر اعماق دیکھئے تو انسانیت کے خلاف ہو لناک جرائم کی ان تمام خبروں کے صرف دو کردار گھومتے پھرتے دکھائی دیں گے: ایک ظالم دوسرا مظلوم۔ گزشتہ سال یہی دو کردار کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے جب جولائی کے پہلے عشرہ میں برہان وانی کے جان بحق ہونے کے پس منظر میں وادی کے اطراف واکناف میں سوگواری کی شدید لہر نے اعصاب شکن احتجاج کا روپ دھارن کر لیا ۔ اس نازک صورت حال کو معاملہ فہمی اور سیاسی سوجھ بوجھ کے بجائے گولیوں کی گن گرج، پیلٹ کی قہر مانیوں، لاشوں کے انبار، زخمیوں کی فوج اور بربادیوں کا سمت ِسفر دے کر تاریخ کو خون کے آنسو رُلادیا گیا۔ اس سال اب یہی دوکردار پچھلے ماہ سے ایک انوکھے انداز میں ایک دوسرے کے روبر و کھڑے ہیں۔ ایک جانب اپنی شناخت کو چھپائے ہوئے وہ پُراسرار ظالم و نامعلوم بزدل ہیں جو دن دھاڑے بھی ، رات کے ا ندھیرے میں بھی، باہر بھی اور گھر کی چار دیواری میں بھی ’ہی مین ‘ کی طر ح مظلوم کشمیری خواتین کے بالوں پر دھڑلے سے قنیچی چلاتے ہیں۔ ان کے طریقۂ واردات پر ابھی تک حیرت وپُرا سررایت کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے ۔ ظلم کی اس نئی سننسی خیز سرگزشت پر لوگ انگشت بدنداں ہیں ، پریشان ہیں ، مشتعل ہیں ، جذبات بے قابو ہورہے ہیں، خوف ودہشت ذہنوں پر غالب ہے اورinvisble ظالم کا گریبان پکڑنے کی ٹوہ میں عام لوگ ہجوم در ہجوم کئی بار کسی انجانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس کی ہڈی پسلی ایک کرکے اپنا غم وغصہ اُتار دیتے ہیں ۔ ظالم اور مظلوم کے درمیان اس گھناؤنے کھیل میں اس بار خواتین کا انتخاب کیوں کیا گیا ،اس بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ، البتہ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو بنت ِحوا کی اس شرم ناک مظلومیت پر تاسف ہو رہا ہے نہ تعجب اور نہ ہی وہ اس گتھی کو سلجھانے کے لئے کوئی تیر بہدف کارروائی کر تی دکھائی دے ر ہے ہیں۔پولیس تماشہ بین بنی ہے ،سیاسی اور مذہبی جماعتیں بیان بازیوں سے اخبارات بھر رہے ہیں ، نوجوان کہیں مظاہروں اور کہیں پتھراؤ سے اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں جب کہ پُر اسرار ظالم بلا روک ٹوک اپنی کارروائیوں کا دائرہ مسلسل بڑھا تا جا رہاہے۔ ستم یہ کہ انسانی حقو ق کے جیالے اور تکریمِ نسواں کے متوالے بھی مہر بلب ہیں کہ کہیں سے بھی مظلوموں کے دفاع میں کوئی ایک آدھ حرکت و جنبش بھی نہیں ہو پارہی ہے ۔ یہ ماجرا کیا ہے ؟اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کر نا مشکل ہے مگر سنجیدہ مبصرین ہی نہیں بلکہ عوام الناس بھی آثارو قرائین سے یہی اخذ کر تے ہیں کہ یہ جگرسوز اور فتنہ سامان کارروائیاں اہل کشمیر کی گھٹن بڑھانے اورکشمیر کاز کو دھچکا پہنچاننے کی کسی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں ۔ بہر کیف تاریخ شاہد عادل ہے کہ کشمیری عوام نے آج تک بہت سارے خون آشام آوپریشنز کے درمیان خود کو حالات سے ایڈجسٹ کر نے کے خداداد فن مظاہرہ کیا۔ لہٰذا نامعلوم ظالم وجابرکی اس نئی بزدلانہ کارستانی کا حشر بھی وہی ہونا ہے جو نوے کے بھوت کہا نیوں وغیرہ کا ہوا ۔ بلاشبہ بال کٹائی کا یہ مذموم کھیل اپنے پیچھے دردو کرب کا دھواں چھوڑ کر دیر سویر تاریخ کا حصہ بنے گا۔ تاہم یہ معمہ تاریخ کے پنوں میں رقم ہو گا کہ کشمیر میں انسانیت کے مجرموں نے اس قوم کی بیٹیوں کی چوٹیاں کاٹنے کی پُر اسرار ، شرارت آمیز اور جگر سوز مہم چھیڑ کر انسانیت کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر انہوں نے منہ کی کھائی ۔ جرائم کی دنیا کی یہ کر یہہ الصورت داستان جو فی الحال لوگوں کا سکھ چین چھین رہی ہے ، کے پیچھے مجرموں کے اہداف واغراض کیا ہیں، اُس سے قطع نظر لگتا یہ ہے کہ سارا قصہ انتقام گیری ، بداخلاقی اور بددماغی کے بطن سے پھوٹی ایک آندھی ہے جس کی ناکامی نوشتہ ٔ دیوار ہے ۔ بایں ہمہ افسوس صد افسوس کہ کشمیر جیسی چرب دست وتر دماغ قوم کی تقدیر میں یکے بعد دیگرے نحوستیں ، لاینحل بحران اور ٹھوکریں آ رہے ہیں کہ جو ختم ہونے کانام نہیں لے رہے ۔ آخر اس سرزمین کو کس کی بد نگاہی کھاگئی کہ سکون واطمینان کی بہار یںکشمیرکے لوگوں سے برابر روٹھی ہوئی ہیں ۔ ہمیں یہ صورت حال ایک لحاظ سے تازیانہ ٔ عبرت کے طور بھی لینا چا ہیے اور اپنے اعمال اور اخلاق کامکمل محاسبہ کر نا چاہیے کیونکہ بسا اوقات قومیں اپنی غلط کاریوں اور اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دب کر قانون مکافات ِ عمل کے شکنجے میں پھنس جاتی ہیں اورا پنوں اور غیروں کے ہاتھ سخت سزا ئیں پاتی ہیں اور پامال ہو کر ر ہتی ہیں۔ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا کہ کہیں اس ساری ناگفتہ بہ داستان کے ڈانڈے ہمارے اپنے اخلاق سوز حرکات کی خدائی سزا سے تو نہیں ملتے ۔ علامہ اقبال ؒ نے اس جانب ایک اہم اشارہ کیا ہے ؎
صورتِ شمشیر ہے دست ِقضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
جبری بال کترائی کی اس گھمبیر صورت حال کا تدارک کر نے میں نہ صرف قوم فرداًفرداً ذمہ دار ہے بلکہ دینی انجمنوں ، سول سوسائٹی اور سماجی اصلاح کاروں پر واقعی یہ ناقابل التواء ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو اس بحران کے دلدل سے نکال باہر کر نے میں اپنی تیر بہدف کاوشیں کریں ۔ نیزجب تک عوام الناس خود بھی اخلاقیات کے گلستان کے مالی نہ بنیں اور مخرب ِاخلاق عناصر کے خلاف اپنی سطح پر پُر امن اجتماعی ایکشن پلان ترتیب دے کر اسے گھر سے لے کر بازار تک نہ عملایں ،ہم نخوستوں کی بارش اور فریق مخالف کے منفی عزائم سے کبھی نجات نہیں پاسکتے ۔ اگر سماج کے اخلاقی تعمیر نو میں ہم سب ا پنی اہم ذمہ داریاں اداکرنے میں لیت لیل کریں تو جرائم کی کوکھ سے جنمے نت نئے المیے یہاں پنپتے رہیں گے جو اس و قت ایک منظم سازش کی شکل میں عفت مآب کشمیرکی بیٹیوں کے خلاف ظلم وزیادتی کی مقراظ بن کر ہم سب کی نیندیں حرام کر رہا ہے ۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہمارے درمیان نئے نئے فتنے جاگ جائیں گے۔ المختصر ہم سب کو ماں بہن بیٹی کے خلاف موجودہ ناقابل معافی جرم کی منظم روک تھام میں متحد ومنظم ہو نا ہوگا تاکہ چھپے دشمن اورمجرموں کو پیغام ملے کہ عوام چوکنا ہیںاور ان کی یہاں دال گلنے والی نہیں ۔ نیز کار پر دازان ِ حکو مت اور پولیس کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کراس انتہائی سنگین جرم میں ملوثین کی نشاندہی کرنے کے لئے فوراً سے پیشتر ایک واضح حکمت عملی وضع کر کے اس طوفان کو روکنا ہوگا ۔ اگر سرکاری اور سماجی سطحوں پرسب لوگ اس ضمن میںاپنی اپنی ذمہ داریوں سے بھر پور انصاف کر تے ہیں تو مجرموں کو پکڑ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچنا نا بعید ازامکان نہیں ۔