قدیم زمانے میں علم نجوم کو تمام علوم پر برتری حاصل تھی۔ نظام شمسی کے اسرار سے واقف نجومی وقت کا اندازہ لگاسکتے تھے۔ یونان سے جب یہ علم دوسرے خطوں میں پہنچا تو جگہ جگہ وقت بتانے والے ماہر نجومی ہوتے تھے، جو وقت کا تعین کرتے تھے۔سینکڑوںسال بعد سترہویں صدی میں کرسٹیان ہوجینزنے پینڈولم کلاک کی ایجاد کرکے وقت بتانے کیلئے نجومیوں پر انحصار کو ختم کردیا۔
درحقیقت وقت بتانے سے زیادہ اہم گھڑی بنانا ہے۔ اس نظریہ کو انگریزی میں ٹائم ٹیلنگ اور کلاک بلڈنگ کہتے ہیں۔کشمیر میں کم از کم نصف صدی سے وقت بتانے والے ٹائم ٹیلر قائدین کا ایک ہجوم پیدا ہوا، لیکن ابھی تک کشمیریوں کو کلاک بلڈر کا انتظار ہے۔ پچھلے دس سال میں کشمیر میں سماجی سطح پر کئی بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ گو غربت اب بھی ایک چیلنج ہے، تاہم مجموعی طور پر سماج آسودہ ہے۔ اس دہائی کے دوران جتنی تعداد میں لوگ حج اور عمرہ کے لئے گئے وہ گزشتہ چالیس سال میں زیارت پر گئے لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی دہائی کے دوران انٹرنیٹ کے انقلاب نے بھی کشمیر ی مزاج میں نئی تبدیلیاں پیدا کردیں۔ مسابقتی امتحانات کے ذریعہ افسرشاہی کی سیڑھیاں چڑھنے کا جنون بھی اسی دہائی کے دوران قوم کے سر چڑھ کر بولا۔نوجوانوں نے ہر شعبہ میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئے۔ اسی دہائی کے دوران کشمیریوں نے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لئے مزاحمت کے نئے سنگ میل قائم کئے۔
2017میں قوم تو مقہور تھی اور جنازوں کی دھوم شادی بیاہ کی تقریبات پر حاوی رہی۔ اس دوران مزاحمت کی مشق سخن بھی جاری رہی اور جبرکی چکی کی مشقت بھی۔ سال کے اختتام پر جو بیانیہ عام تھا اس کے مطابق بھارت تاریخی حقائق کو جھٹلا کر کشمیرپر اپنا اقتدار اعلیٰ تھوپنا چاہتا ہے اور اسکے خلاف ہورہی مزاحمت کو پوری طاقت کے ساتھ کچلنا چاہتا ہے۔ نیشنل کانفرنس سے حریت کانفرنس تک سب نے کہا کہ مودی کا بھارت کشمیر کا ملک کے ساتھ جبری ادغام چاہتا ہے۔ کچھ دانشور حضرات نے تو یہاں تک لکھا کہ آر ایس ایس کشمیریوں کے لئے روہنگیا مسلمانوں سے بھی بدتر انجام کی متمنی ہے۔ دوسری جانب اقتدار پرست سیاسی خیمے کا خیال ہے کہ تعمیر و ترقی سے کشمیریوں کی تقدیر بدل جائے گی۔ یہ سبھی لہجے ٹائم ٹیلنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ سب وقت بتاتے ہیں، گھڑی کوئی نہیں بناتا۔’’ مزاحمت تب تک جاری رہے گی جب تک آزادی نہیں آتی‘‘، یہ ٹائم ٹیلنگ ہے۔ کیونکہ یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ ہر جانے والے سال میں زمینی سطح پر جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کو کیسے روکا جائے۔ قیادت کا کام ٹائم ٹیلنگ نہیں ہے۔ وقت تو عام لوگ بتاتے ہیں، قائد گھڑی بناتا ہے، تاکہ قوم کسی سیاسی نجومی کی محتاج نہ رہے۔
پاکستان اور ہندوستان نے کشمیر میں ستر سال سے ٹائم ٹیلنگ میں ہی سرمایہ کاری کی ہے۔ محبوبہ مفتی ہو یا عمر عبداللہ، سب لوگ تعمیر و ترقی کو مسلہ کشمیر کا حل قرار دیتے ہیں۔ لیکن آج تک کوئی بھی سیاستکار تعمیر و ترقی کے اس ان دیکھے جادو کو عملا نہ سکا، سب لوگ وقت بتاتے ہیں، گھڑی بنانے پر کوئی آمادہ نہیں۔
سالِ نو کے لئے اگر کوئی اجتماعی عہد کرنا ہے، تو یہ کیا جائے کہ سب لوگ محض وقت بتانے کو ہی قومی ذمہ داری نہ سمجھیں، کیونکہ ہمیں کلاک بلڈرس کی ضرورت ہے۔ اب مسلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹائم ٹیلنگ کلچر کس معنی میں عام ہے؟ لوگ مساجد یا سیمیناروں میں سماجی برائیوں پر تقریریں جھاڑتے ہیں۔ یہ ٹائم ٹیلنگ ہے۔ اگر وہ اپنے رفقاء کے ہمراہ مل کر ان برائیوں کے پیچھے محرکات کا احاطہ کرکے ان برائیوں کے متاثرین کی کونسلنگ اور ان کی مصروفیت کا انتظام کریں تو وہ وقت نہیں بتارہے ہونگے، بلکہ گھڑی بنارہے ہونگے۔مساجد میں ایسے جوشیلے مسلمانوں کی کمی نہیں جو آپ کی ٹانگ جھٹکنے میں پہل کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ صفوں میں دو انچ کی خالی جگہ رہی تو شیطان گھس جاتا ہے! لیکن یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شاہراہِ عام پر دکانوں کی پگڑنڈیاں دو انچ نہیں بلکہ چار فٹ آگے بڑھا کر عبور و مرور مشکل بنادیا ہے۔ایسے لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لئے ٹائم ٹیلر نہیں کلاک بلڈر کی ضرورت ہے۔رشوت، آلودگی، ملاوٹ دوسرے فاسد رجحانات کے خلاف اخبارات میں مضامین لکھنا بھی ٹائم ٹیلنگ ہے۔ کلاک بلڈنگ کا تقاضا ہے کہ حساس لوگ ان رجحانات کے خلاف موبلائز ہوجائیں۔
جنوب ایشیا میں بڑی طاقتوں کا گریٹ گیم نہ جانے کب تک جاری ہے۔اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ہمارے لئے کم از کم یہ سال چھوٹی تبدیلیوں کا سال ہوسکتا ہے۔لوگوں میں اپنی ہی ریاست اس کے وسائل اور اثاثوں کے تئیں خاصا التفات پایا جاتا ہے، جو ایک بیمار معاشرے کی نشانی ہے۔ہسپتال میں بیت الخلاء ایک ہفتے میں تہس نہس ہوکر عفونت کا گڑھ بن جاتا ہے، لوگ اپنے صحن کی صفائی اہتمام سے کرتے ہیں مگر اپنی دیوار کے باہر والی سڑک کو ’’سرکار‘‘ سمجھ کر اس پر گندگی کا نزلہ گرادیتے ہیں۔ یہ ساری قربانیاں جو قوم دے رہی ہے ، یہ کس لئے ہے؟ کیا یہ زمین ہماری نہیں، یہ جنگل یہ قدرتی وسائل، یہ دریا ہمارے نہیں۔ مزاحمت کی اخلاقی بنیادوں کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا۔ اور اس کے لئے ہمیں ٹائم ٹیلنگ کلچر کو ختم کرنا ہوگا اور کلاک بلڈنگ کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا۔نیا سال مبارک ہوگا اگر ہم اسے کلاک بلڈنگ کا سال بنانے میں کامیاب رہے۔
ماخذ: ہفت روزہ ’’ جہلم‘‘ سری نگر