وہ جو مودی مہاراج نے دھمکی دی تھی کہ اہل کشمیر ٹورازم یا ٹررزم (سیاحت یا دہشت گردی) کا چنائو کریں قلم دوات کنول سرکار نے اس بات کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ پلو باندھ لیا، گانٹھ ذرا مضبوط بنا لی کہ کھلنے نہ پائے نہیں تو ناگپوری فرمودات ادھر ادھر بکھر جائیں گے پھر زعفرانی احکام بیج بہاڑہ سے لیکر کٹھوعہ تک پھیل جائیں گے اور ہاتھ آنے کا سوال نہیں۔ہاتھ نہ آئے تو ترشول بردار جے سری رام ، جے مودی مہاراج، جے بھاگوت کہتے ہوئے ٹوٹ پڑیں گے اور جگر کیا ، جسم کیا سب کچھ چھلنی کردیں گے کہ یہ بکھرائو مملکت خدادا کے کہنے پر کردیا گیا۔یہ سوچ کر تو سنجیدگی کے ساتھ لینا ہی تھا کہ مودی مہاراج جب من کی بات بولتے ہیں تو جَن کی نہیں سنتے بس اپنی ہی دھن سناتے ہیں پھر کوئی اتنی بھی ہمت نہیں کرپاتا کہ کہدے غریبوں کی سنو وہ تمہاری سنے گا ۔ کیونکہ چھپن انچ چوڑی چھاتی سے بات کرتے تو سب ڈرتے ہیں،بڑے بڑے پہلوانوں کے چھکے چھوٹتے ہیں اور اس سے زیادہ ان بھکتوں سے ڈرتے ہیں جو مودی مہاراج سے سوال کرنے والوں کو دیش دروہی مانتے ہیں اور مملکت خدادا کا ٹکٹ کٹوا دیتے ہیں۔ لندن جائو، لاہور جائو لیکن لال باغ میں رہنے نہیں دیں گے۔بس پھر کیاتھا بانوئے کشمیر کی پوری ٹیم کام میں جٹ گئی اور چھ سو ڈیلی گیٹ کا بڑا جتھا ملک کشمیر بلایا کہ بھائی لوگو رستہ ،گوشتابہ، وازہ وان کھائو ۔ادھر ادھر گھومو کہ ہمارے پاس کشمیر ہے ، حالات کا اسیرہے، جنت بے نظیر ہے ، ہر قیدی بلا تقصیر ہے، ٹولپ باغ ہے، مصیبتوں کی راگ ہے ، ڈل جھیل ہے ،دکھوں کی ریل پیل ہے ، شکاراہے ، خونین نظارہ ہے ،ہائوس بوٹ ہے صاحبان اقتدار کے دلوں میں کھوٹ ہے۔اور سب سے بڑھ کر دسترخوان ہے ،مرغ مسلم و نان کابل ہے جو ہم کسی بھی مہمان کے سامنے بچھاتے ہیںاور پھر انہی سیاحتی ڈیلی گیٹ کے ہاتھ یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ بھارت ورش کے صحافتی مچھلی بازار میں فرقہ پرستی کے طرف دار بیٹھے ہیں جو انسانیت کے غدار بیٹھے ہیں جبھی تو ہر بات کو ہر خبر کو مردار کردیتے ہیں ، اچھے بھلے عوام کو داغدار کرتے ہیں ۔اور بقول اہل کشمیر جس کے پیچھے دم نہیں ہوتی ایک عدد جھاڑو باندھ دیتے ہیں۔ یہ بھی کہ بھارت ورش نے ملک کشمیر کو کٹھن گھڑی میں بھلا دیا ،اپنے حال پر چھوڑا ۔خیر خبر نہ پوچھی ، یعنی مرے تو مرے جئے تو اپنی بھلا سے۔ حیرت کی بات کہ بانوئے کشمیر کو اب پتہ چلا کہ دلی دربار نے ملک کشمیر کو ان کے حال پر چھوڑا ہے، اکیلا چھوڑ کر ان کے دل کو توڑا ہے ۔اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ستر سال سے چلا آ رہا ہے ۔خیر کسے نہیں معلوم بانوئے کشمیر نے بھی مشکل وقت میں اہل کشمیر کو وردی پوشوں کے حوالے کیا اور ان سے جو بن پایا وہ حال بے حال کردیا۔کسی کی آنکھ پھوڑی ، کسی کی ٹانگ توڑی، کسی کی گردن مروڑی، اور ایک سو بیس کی تو قبر کھودی ۔ دو سال گزرے کسی کو انصاف نہیں ملا کسی کو سزا نہیں ملی ۔ بات بنے گی بولی سے والا نعرہ بھلا دیا اور رات کٹے گی گو لی سے دن گزرے گا پیلٹ سے ان کے ماتھے پر چپکا دیا۔سیلف رول کو کچن رول میں تبدیل کردیا ؎
نا مکمل ہی پہن لو کپڑے
کچھ نہیں تو سیاست ہی سہی
ہم جو آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں
کچھ نہیں تو سیاحت ہی سہی
دروغ بر گردن راوی جس نے کلاس روم کا نقشہ کچھ یوں کھینچا۔رول نمبر ایک، سر وہ ہسپتال میں زیر علاج ہے اسے پچھلے دنوں گولی لگنے سے ٹانگ میں گہرا زخم آیا ہے۔رول نمبر دو، سر وہ آنکھ میںپیلٹ لگنے سے دیکھ نہیں پاتا ڈاکٹر کا کہنا ہے اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔رول نمبر تین، سر وردی پوشوں کی مار پیٹ سے اسکی ہڈیاں فریکچر ہوگئی ہیں بازو اور ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے چلنے پھرنے کے لایق نہیں۔رول نمبر پانچ، سر اس کا باپ پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا اب عدالت میں پیشی کے سبب ماں کے ساتھ چل رہا ہے۔رول نمبر چھ، سر گن پائوڈر چھڑکنے کے سبب اس کا مکان جل گیا ،وردی اور کتابیں خاکستر ہو گئیں۔اور اس دوران خبر یہ آئی کہ پولیس حکام نجی سکولوں سے اپنے بچوں کے لئے ترجیحی طور ایڈمیشن مانگ رہے ہیں اور فیس میں کمی بھی۔ویسے سوچا جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ان کے بچے آئیں گے تو کلاس روموں میں رونق رہے گی ۔تعلیم کا بول بالا ہوگا ۔تعلیم تو زیور ہے کسی نہ کسی کے جسم پر جڑے گا تو خوبصورتی میں اضافہ ہوگا ۔تعلیم تو نور ہے ان ہی بچوں کے ذریعے پھیلے گا ۔اور فیس میں کمی تو ان کا حق بنتا ہے ۔ان ہی کے دم سے بندشوں کے نام پر کرفیو نافذ ہوتا ہے ۔اسکولوں میں حاضری ممکن نہیں رہتی ۔سکول بسوں کا تیل بچ جاتا ہے۔چاک ڈسٹر کی بچت ہوتی ہے ۔رجسٹر کاغذ کا خرچہ کم ہوتا ہے ۔اور اس اتنی بچت کے عوض اگر کچھ مدد مانگتے ہیں تو بقول گبر سنگھ کوئی گناہ نہیں کرتے ،میں کہتا ہوں کوئی گناہ نہیں کرتے ۔
لو جی اہل کشمیر !خوشی سے ناچو گائو کہ دلی دربار کے پاس دفعہ۳۷۰ ہٹانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔یعنی عز ہیند یزت فضی ہیند یزت قائم ہے۔ یہ کوئی ہوائی نہیں اڑی اور نہ ہی کسی نے افواہ پھیلائی بلکہ مرکزی منسٹر ہنس راج آہیر نے لوک سبھا میں بیان دیا۔ابھی کنول بردار منسٹر نے زبان بھی نہ کھولی تھی کہ قلم دوات کے بیان بازوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ بچ گیا بچا لیا۳۷۰ کی تال پر چند ایک ٹھمکے لگائے اور فوراً بیان دے مارا کہ ہمرا (ہمارے) موقفوا(موقف) پر مودی سرکار نے مہروا(مہر) لگا کر ہمری دوات کی روشنائی نکال کر ہمرے قلموا(قلم) سے دستخط کر دئے۔یعنی بھاجپا بیسن ابھی گھولا نہیں گیا کہ قلم بردار اس کا لڈو چکھنے لگے کہ یہ دیکھو پرکھو ہمارے مشترکہ پروگرام میں جو بھی قہوہ بنانے کی تفصیل ہے اس میں زعفرانی مصالحہ برابر ملا ہوا ہے۔پر ہم بھی کوئی کچی گولی نہیں کھیلے ہیں کہ وہ سب کچھ یاد ہے جب سنگھی بھکت ایک یادوسرے بہانے سپریم کورٹ میں کیس ڈالتے ہیں۔کسے نہیں معلوم کہ نیشنل کا ٹویٹر ٹائگر کیا، حریت کا صحرائی کیا، کامریڈ یوسف کیا بلکہ عام کشمیری رشید کاک کیا، سب سمجھ لیتے ہیں کہ اس میں سینٹر کی چال ہے کہ ادھر سے سیاسی فائدہ اٹھائو ادھر سے ۳۷۰ کے چیتھڑے اتارو ۔جب پورا ننگا ہوجائے تو عدالت عظمیٰ کا بہانہ بنائو ۔سانپ بھی مارو لاٹھی بھی نہ توڑو ۔مگر انہیں کیا معلوم جب اہل کاشمر کا کچھ نہیں چلتا تو کانگڑی کا وار کرتے ہیں اور گرمی کے موسم میں بھلے کانگڑی ساتھ نہ ہو تو ہری ہری زہریلی گھاس(Nettle) لاکر سویہ شلکھ کرتے ہیں جبھی تو پٹھان چیخ کر کہتا ہے ادھر کا گھاس بھی کافر ہے اور فوجی چلا کرکہتا ہے ادھر کا گھاس بھی پاکستانی ہے۔
امن لے لو، بات چیت لے لو، مذاکرات میں حصہ لے لو،سستا لے لو، اچھا لے لو ، پختہ لے لو، گارنٹی والا لے لو، دیکھ پرکھ کر لے لو، چھانٹ کر لے لو، رنگ برنگا لے لو، امن لے لو ، بات چیت لے لو۔سنا آجکل ملک کشمیر میں گائوں گائوں ، قریہ قریہ، بستی بستی یہی کچھ سنا جا رہا ہے کہ مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما گلی گلی گھوم کر امن اور بات چیت بیچ رہا ہے۔ہمیں تو بچپن یاد آیا جب غیر کشمیری کاندھے پر گٹھڑی سنبھالے اور میٹر ہاتھ میں لئے کپڑا بیچنے آتے تھے اور ہم بچے دن بھر ان کے پیچھے چلتے کہ کیا بیچا اور کیسے بیچا۔ابھی تو سنا ہے کہاں دنیش بابو امن اور بات چیت بیچ رہے ہیں پر اپنے لوگ کہیں ٹرانسفارمر کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہیں راشن کی دہائی دیتے ہیں ۔کسی کے بیٹے کا امتحان میں ریپیر آیا ہے ، کسی کا آدھار کارڈ نہیں بنا، کہیں کھیل کا میدان نہیں ، کہیں سوچھ بھارت کا بیت الخلا نہیں۔یعنی کسی کے پاس نوکری نہیں کسی کے پاس چھوکری نہیں اور یوں مطالبہ کرنے والے تو ضروریات کی ٹوکری سامنے رکھتے ہیں۔بھائی جس کے پاس جو چیز نہ ہو وہ تو وہی مانگے گا ۔مزے کی بات ہے دنیش بابو کو دیوان غالب سنانے بھیجا وہ ترازو دیکھ رہا ہے۔
اپنے ملک کشمیر میں لوگ خاص کر خواتین کہیں نہ کہیں گیت بنا ہی لیتے ہیں اور ایسی تان چھیڑتے ہیں کہ موسیقار انو ملک اور سیاستدان نوجوت سدھو بھی دنگ رہ جائیں ۔یقین نہ آئے تو وہ والا یاد کرو ینا ببا میون گژھی ملالے ، چائے چنے ووٹ کورمَے حوالے ( شیخ صاحب یا محبوبہ مفتی ہم سے ناراض نہ ہونا کہ صبح ناشتے کی چائے پینے سے پہلے ووٹ آپ کے حوالے کردیا )۔ ہو نہ ہو ادھر اپنا فاروق ڈار بیچارہ بھی یہی کچھ کرکے نکلا اور اب اس دن کو کوس رہا ہے جب وہ ووٹ ڈال کر آیا تھا ۔پھر کیا کرتا میجر صاحب کے ہتھے چڑھ گیا۔ دن بھر ملٹری جیپ کے آگے بندھا رہا ، گلی گلی گائوں گائوں گھوما ۔ ملک ملک مشہور ہوگیا ۔ کہیں تضحیک کا نشانہ بنا ، کہیں چشم ترحم کا شکار ہوا۔مانا کہ بشری حقوق ادارے نے معاوضے کا حکم دیا لیکن اپنے یہاں تو چلتی بس وردی پوشوں کی ہے ۔باقی کا حکم تو تادر نواب ہی ہے ۔جیپ پر فاروق بندھا لیکن اس کی تصویر کا فوٹو چھپا ٹی شرٹ ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے کہ بھکت جن اسے بہت پسند کرتے ہیں اور کنول بردار لیڈر اس میں بھی کمائی کر رہا ہے۔لیکن اس مغرور فرقہ پرست کو یہ نہیں سمجھ کہ اس سے ملک کشمیر میں بشری حقوق کی پامالی کا کالک وہ خود اپنے لوگوں کے چہروں پر مل رہا ہے۔
اور آخر پریہ خبر کہ محکمہ آب رسانی نے شمالی کشمیر مکینوں کو دھان کی کھیتی نہ کرنے کی صلاح دی ہے کہ آبی ذخائر میں پانی کی کمی ہے ۔ اب پتہ چلا جو اہل کشمیر کہتے رہتے ہیں یا اللہ زراعت میں برکت عطا کر وہ اصل میں پنجاب کے کھیتوں کی بات کرتے رہتے ہیں۔ اہل کشمیر نے سیلابی صورت حال کے نام بد دعائوں کی لمبی فہرست ارسال کی تھی شاید اس کا اثر اب دیکھنے کو مل رہا ہے کہ سیلاب کی ایسی کی تیسی ۔ادھر بیچارے دریاے جہلم کی کھدائی کرنے والے بھی مزید وقت حاصل کر پائیں گے کیونکہ ان کا کام آج تک مکمل نہ ہوا ؎
اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اس سال کوئی دھان کی کھیتی نہ کرے گا
(رابط[email protected]/9419009169 )