سرینگر/ / عید الضحیٰ کے موقعہ پر قصابوں نے قربانی ادا کرنے والے افراد کو دو دو ہاتھوں لوٹ لیا، ۔ چھوٹے جانوروں کی قربانی کیلئے900روپے کم از کم ریٹ مقرر کی۔سرینگر بالخصوص سیول لائنز میں عید سے قبل ہی جہاں کوٹھداروں اور قصابوں نے قربانی کی بھیڑوں اور بکریوں کی قیمت میں35روپے فی کلو اضافہ کیا تھا،اور حکومت کے نرخ نامے ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوئے وہی عید کے دو دنوں تک بھی قصابوں نے اپنی من مانی جاری رکھتے ہوئے سرکاری احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے از خود قیمتیں مقرر کی۔ سرینگر میں عید نماز کے بعد ہی قربانی ادا کرنے والے لوگ قصابوں کی تلاش میںلگ گئے،مگر قصاب تھے کہ منہ مانگتے رقم سے شہریوں کو ہی ذبحکرنے لگے۔ شہریوں نے بتایا کہ جس نے زیادہ قیمت دی،قصاب اسی کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے نظر آئے،اور یوں لگا کہ بھیڑوں کی قربانیاں نہیں بلکہ ذبح کرنے کیلئے بولی لگ رہی ہے۔سیول لائنز کے ایک شہری غلام نبی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ میں نے ایک مقامی قصاب سے عید سے ایک روز قبل500روپے فی جانور ذبح کرنے کیلئے قیمت مقرر کی تھی،تاہم عید کے روز اس نے قیمت بڑھا کر ایک ہزار روپے کردی‘‘۔انہوں نے کہا کہ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ مذکورہ قصاب نے ایک کلو فی جانور کے گوشت کا بھی تقاضا کیا۔غلام نبی نے مزید کہا کہ بعد میں علاقے میں بڑے جانوروں کو ذبح کرنے والے قصابوں کا ایک گروپ نمودار ہوا اور900روپے فی جانور کے حساب سے3500روپے5بھیڑوں کو ذبح کرنے کیلئے ادا کرنے پڑے۔ ایک اور شہری رفیق احمد نے بتایا کہ قصاب ایڈونس کے ساتھ ساتھ پرچیاں بھی دیتے تھے،جن پر وہ فہرست درج ہوتی جن لوگوں کو قربانی کرنی تھی،اور اس کے بعد اس شخص کا نمبر آتا،جس کو وہ پرچی دیتے۔ سیول لائنز کے شیوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری شبیر احمد نے بتایا کہ اس طرح کی صورتحال انہوں نے کھبی نہیں دیکھی،ایک تو قصابوں کو منت سماجت کرنی پڑتی اور دوسرا یہ کہ1200روپے فی جانور سے کم کی ادائیگی منظور نہیں تھی۔شبیر کا کہنا ہے کہ بعد میں انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ ازخود جانوروں کو ذبح کرینگے،اور آخر کار یہی طریقہ اپنا یا گیا مگر2بھیڑوں کی ذبح اور انکی کھلا اتارنے میں5گھنٹے صرف ہوگئے۔صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صحافی نے سماجی وئب سائٹ فیس بُک پر عید الضحیٰ کو تحریر کیا’’ قصاب لاپتہ،کاش میں نے خود ہی یہ ہنر سیکھ لیا ہوتا‘‘۔ سیول لائنز میںکشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرنے والے لوگوں کی فہرست اتنی طویل ہوگئی کہ ہر ایک کی اپنی کہانی اور داستان تھی،گویا یہ لگ رہا تھا کہ قربانی نہیں بلکہ وہ جنگ پر جا رہے ہو۔منظور احمد نے کہا کہ دن بھر7قصابوں کے پاس جانے کے بعد بھی نمبر نہیں لگا جبکہ میں منہ مانگی رقم دینے کیلئے بھی تیار تھا،اور بالاآخر دوسرے روز ہی قربانی کے جانوروں کو ذبح کیا۔ شہریوں نے بتایا کہ کم از کم سرکار کو چاہے تھا کہ وہ جانوروں کی ذبح کیلئے قیمت مقرر کرتے ہوئے سرکاری طور پر بھی قصابوں کا انتظام کرتے۔