ڈاکٹر محمد قاسم نے 5جنوری 2018 ء کواپنی قید وبند کے 25 سال مکمل کر لئے۔ 25 سالہ قید کی روئداد بیاں کرنے میں کئی پیچ و خم نظر آتے ہیں جن سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ریاستی حکام کسی بھی صورت میں ڈاکٹر محمد قاسم کی رہائی کے خواہاں نہیں ہیں بھلے ہی اُنہوں نے عدالتی حکم کے مطابق اپنی قید کے ایام مکمل کر لئے ہوں ۔عمر قید کی سزا جو کہ ایک عام خیال میں 14سال پہ محیط ہوتی ہے لگتا ہے قید تا دم حیات میں تبدیل کر لی گئی ہے۔اِس کی بڑی وجہ اُن کے وہ سیاسی خیالات ہیں جو ریاستی نکتہ نگاہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر صاحب صیح معنوں میں ایک اعلی پایے کے اسکالر ہیں جنہوں نے اپنی طویل الْمدت قید کے دوراں کم و بیش بیس کتابیں تصنیف کی ہیں۔اُن کی تصانیف کا محور بیشتر اسلامی نظریات کی تشہیر ہے اور سیاست پہ اُن کے تبصرات کا دائرہ بھی اُن کے دینی خیالات کا ترجمان ہے۔ اپنے خیالات کی ترجمانی میں وہ کسی بھی قسم کی سودا بازی کے قائل نظر نہیں آتے ۔اُن کے خیالات اور اُن کی ترجمانی کو تند و تیز مانتے ہوئے ریاست اُن کی آزادی کی مخالفت کرتی ہوئی نظر آتی ہے بھلے ہی اِس سے آزادی فکر و نظر پہ بیجا حد و بند مانا جائے۔ گریٹر کشمیر کی ایک نیوز رپورٹ کے مطابق جو کہ 5جنوری 2018 ء کو شائع ہوئی ڈاکٹر محمد قاسم نے اپنے بیاں میں یہ کہا کئی ریاستی زعماء نے اُنہیں اپنے سیاسی خیالات پہ نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیالیکن اُنہوں نے اِسے مسترد کر دیا۔
ڈاکٹر قاسم 5 فروری1993ء کے روز اپنے سیاسی خیالات کے اظہار کی خاطر گرفتار ہوئے۔اُن کے قید کی مدت بڑھانے کی خاطر اُن کی گرفتاری ٹاڑا کے تحت عمل میں آئی u/s 3 (TADA), u/s 302 r/w 120-B RPC البتہ جموں میں ٹاڑاا عدالت نے بروز 14 جولائی 2001ء اُنہیںالزام سے بَریِ کیا۔اِس کیس کا یہ پہلو قابل ذکر ہے کہ ٹاڑا عدالت کے فیصلے تک ملزم نے اپنی قید کے آٹھ سال مکمل کر لئے تھے اور عدالتی حکم میں یہ تحریر ہوا کی سرکاری وکیل اُن کے خلاف کیس ثابت کرنے میں بری طرح نا کام ہوئے ہیں(File-16, TADA Court Jammu)۔ اِس فیصلے کے باوجود جس میں ابہام کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ریاستی سرکار نے عدالتی فیصلے کے خلاف بھارتی عدالت عالیہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اپیل کی بنیاد ملزم کے اقراری بیاں پہ رکھی گئی ہے جو کہ ٹاڑاکے سیکشن 15کے تحت لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ملزم کو ایک مبینہ قتل کے الزام میں عمر قید کی سزاسنائی البتہ فیصلے میں یہ ذکر آیا کہ اُس مدت کا فائدہ ملنا چاہیے جو کہ ملزم نے پہلے ہی قید میں گذاری ہے (Criminal Appeal 889 of 2001) جس کا مدعا و مفہوم یہی لیا جا سکتا ہے کہ ملزم کی رہائی مدت معینہ کے بعدجو بھی مقررارت قانونی کے مطابق قابل اجرا ہوعمل میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اپنے فیصلے میں تا دم حیات قید کا فیصلہ سنایا ہوتا تو یہ ذکر فیصلے کی تحریر میں کہاں آتا کہ ملزم کو اُس مدت کا فائدہ ملنا ہی چاہیے جو کہ اُس نے پہلے ہی قید میں کاٹی ہے؟طول عمر کی قید کا فیصلہ جو بعد میں منظر عام پہ آیا ریاستی انتظامیہ نے جیل مینول (کتاب مقررات) کی تحت لیا۔
14 سال کی مدت تمام ہونے کے بعد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے جیل کے حکام کو یہ ہدایت دی کہ ڈاکٹر قاسم کے کیس کو تجدیدی (Review) بورڑ کے سامنے رکھا جائے(OWP No. 430/2008 dated 23.5.2008) ۔تجدیدی بورڑ نے کیس کے منجملہ پہلوؤں پہ نظر ڈالتے ہوئے بروز 3جون 2008ء یہ رائے دی کہ ڈاکٹر قاسم کی رہائی وقت سے پہلے ہی عمل میں لائی جائے البتہ جموں و کشمیر سرکار نے بورڑ کی رائے رد کر لی اِس توضیح کے ساتھ کہ جموں و کشمیر جیل مینول کی مد 54.1 کے تحت ٹاڑا کے اُن قیدیوں کیلئے جن کیلئے عمر قید کی سزا مقرر ہوئی ہے دو تہائی مدت یعنی 20 سال میں صرف 14سال کی تکمیل کے بعد ہی رہائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی(Govt. order No. Home 773 (P) of 2009 dated 14.09.2009) ۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس منصور احمد میر نے سرکاری فیصلے کو رد کرتے ہوئے یہ رائے دی کہ سرکار کو جموں و کشمیر جیل مینول کے ساتھ ساتھ عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ کی قانونی تشریح کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تھا۔ فاضل جج کے فیصلے کی تشریح میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے جموں و کشمیر جیل مینول کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی قانونی تشریح پہ عمل کرنے کی جو بات کی اُس کا مدعا و مقصدیہی ہو سکتا ہے کہ یہ جموں کشمیر سرکار ہی تھی جس نے ٹاڑا کورٹ کے فیصلے کی خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لہذا جموں و کشمیر جیل مینول کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے رائے بھی معنی رکھتی ہے جہاں فیصلے میں یہ ذکر ہوا کہ ملزم نے جتنی قید پہلے ہی کاٹی ہے اُس کو نظر میں رکھا جائے۔
جموں و کشمیر سرکار نے اُس کے بعد ڈبل بنچ (دو ججوں کی عدالت) کے سامنے جسٹس منصور احمد میر کی یک نفری رائے پہ نظر ثانی کی اپیل کی اور فاضل ججوں نے یہ رائے دی کہ اپیل تو قابل غور ہے البتہ درخواست کنندہ (جموں و کشمیرسرکار) کی مشکل جیل مینول کی مد 54.1 ہے جس کا دائرہ اُس کے فیصلے پہ روک لگائے ہوئے ہے البتہ اِس پہ کوئی روک نہیں کہ وہ متبادل راستہ اختیار کرے (یعنی قانونی چارہ جوئی کے دوسرے راستے کھلے ہیں) فیصلے میں یہ بھی آیا ہے کہ جموں و کشمیر کے انسداد جرم کے سیکشن (401 and 402) جو مرکزی انسداد جرم کے قوانین (432 and 433) سے مطابقت رکھتے ہیں سرکار کے اختیارات سزا کی مدت کو کم کرنے میں لا محدود ہیں (LPA No. 120/2010 dated 08.09.2011)۔دیکھا جائے تو فاضل ججوں کا فیصلہ مشاوراتی تھا جس میں یہ مشورہ عیاں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی سرکار سزا کی مدت کم کرنے میں اپنے لامحدود اختیارات کا استعمال کرسکتی ہے۔ جیل مینول کی مد (J&K Jail Manual Chapter xxx.21.2) کے مطابق عمر قیدکا مفہوم 20 سال بیاں ہواہے ۔ ڈاکٹر محمد قاسم کی قید کے بیس سال مکمل ہونے کی اطلاع جیلوں کے ڈی جیDG) ( نے جموں و کشمیر کی وزارت داخلہ کے پرنسپل سیکرٹری کو دے دی ۔اُن کی اطلاتی چٹھی میں یہ رقم ہواہے کہ جیل مینول کی مد 21.2 کے تحت ضروری اقدامات جیل مینول کی مد 21.27 کی پیروی میں اٹھائے جائیں ۔منجملہ قانونی چارہ جوئی و عدالتی فیصلوں کے باوجود جموں و کشمیر کی سرکار نے سزا کی کاہش میں اپنے لا محدود اختیارات کا استعمال نہیں کیا گر چہ اختیارات کااستعمال نہ کرنے کا کچھ نہ کچھ قانونی جواز ہونا چاہیے۔نہ صرف سزا میں کاہش نہیں ہوئی بلکہ 20 سال قید کی تکمیل کے بعد سرکاری حکم نامے میں جو کہ 23 اگست 2012ء کو صادر ہوا عمر قید کی تشریح تا دم حیات کی گئی اور ڈاکٹر محمد قاسم ریاستی اداروں کی سزا کو بھگت رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد قاسم کیلئے ریاستی اداروں نے جو سزا مقرر کی ہے اُس کو ایک وسیع دائرے میں پرکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ جہاں عدلیہ نے ریاستی انتظامیہ کیلئے ایک ایسا فیصلہ لینے کیلئے راستہ کھلا چھوڑا تھا جو انصاف کے تقاضے پورا کرتا ہوا نظر آئے وہی انتظامیہ نے کوتاہ بینی کا ثبوت دیتے ہوئے انصاف کی روح کو مجروح کیا ہوا ہے ۔انصاف کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دیکھنا بھی چاہیے جس کا مدعا و مقصد یہ ہے کہ انصاف ایک وسیع عوامی دائرے کیلئے قابل قبول ہونا چاہیے۔ اِس ضمن میں پرکھا جائے تو ڈاکٹر محمد قاسم کے معاملے میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔یہ مانا بھی جائے کہ ڈاکٹر مذکور ایک جرم کے مرتکب ہوئے جس کی ایک سزا بھی مقرر ہوئی لیکن اِس کے بعد قید تنہائی میں اُن کے علمی تجسس پہ نگاہ ڈالی جائے تو ایک ایسا اسکالر نظر آتا ہے جس نے علمی کاوش کو اپنی حیات کا نصب العین قرار دیا ہو۔اُنہوں نے جیل میں ہی علوم اسلامی میں ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے علمی مراحل طے کئے۔اُن کے علمی تجسس کو دیکھ کر اُنہیں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (IGNOU)میں لیکچرر کا عہدہ ملا۔آج تک وہ 150 شاگردوں کو گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ سطح پہ ٹریننگ دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر محمد قاسم کو اُنکے علمی تجسس کی بنا پہ رہائی ملنی چاہیے تھی بھلے ہی اُن کے مبینہ جرم کی جس کی اُنہیں سزا ملی نوعیت کچھ بھی رہی ہے لیکن اُن کی یہی کاوش،یہی جستجو،یہی تجسس ریاستی انتظامیہ کو کھٹکتی ہوائی نظر آتی ہے۔ نظر تو یہی آتا ہے کہ ریاستی انتظامیہ کی نظر میں اُن کی رہائی اُن کے خیالات کے وسیع تر تشہیر کیلئے معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ انتظامیہ کی کوتاہ بینی کا ایک واضح ثبوت ہے کیونکہ قید میں ہوتے ہوئے بھی اُن کی تصانیف سے لوگ آشنا ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی علمی کاوش سے ڈاکٹر محمد قاسم عوام الناس میں متعارف ہو چکے ہیں ۔قید تنہائی نے گر چہ اُنہیں آزادی تقریر سے محروم کیا ہے لیکن قید اُن کی آزادی تحریر کے مانع نہیں بن سکی ہے ۔اِس حقیقت کو پرکھنے کے باوجود ریاست کوئی بھی خطرہ،کوئی بھی رسک لینے کیلئے تیار نہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ ریاست اُس نظریاتی سرمایے سے محروم نظر آتی ہے جو ریاستی روش کے مخالفوں کے خیالات و نظریات کے مد مقابل سیاسی افق پہ نمایاں رہے۔ ریاست کا نظریاتی دیوالیہ پن مخالفوں کی قید و بند پہ منتج ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو تاریخی کے ابتدائی دور سے ہی ریاستی حکام کی وہ روش نمایاں رہی ہے جہاں مخالفوں کو پابند سلال رکھنے کے سوا اُن کے پاس سیاسی و سماجی مسائل سے نبٹنے کیلئے کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر قاسم کے کیس کے تجزیے میںکئی رخ سامنے رکھنے ہونگے کئی پہلو اجاگر کرنے پڑیں گے۔یہ ریاست ،سیاست و عدالت کا یک ایسا قضیہ ہے جس میں تشکیل ریاست کا مدعا و مقصد عدلیہ کی ضرورت و سیاست کی حد و بند پہ نظر ڈالنی ہو گی تاکہ موضوع کو ایک وسیع نظر سے دیکھا جائے اور جائزے سے بھر پور انصاف ہو۔ریاست کی تشکیل افلاطون کی علمی کاوش کا نتیجہ تھی اور قدیم یونان میں افلاطون کی ریاستی تشکیل کے فلسفے سے کچھ دیر پہلے ہی سقراط نے وقت کے نا خداؤں کی سماجی نا انصافی کو اپنی مہم کا موضوع بنائے اُنہیں للکارا تھا ۔خالص علمی دائرے میں یہ نا انصافیوں کے خلاف پہلی آواز مانی جاتی ہے۔ سقراط کی آواز ،اُن کی سیاسی مہم اور مہم کے نتیجے میں اُن کی قید انسانی سوچ کی ارتقا کا اہم ترین موڑ مانا جا نا چاہیے ۔سقراط کو وقت کے نا خداؤں نے پابند سلال بنایا اور سزا یہ مقرر ہوئی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ جسے ہملاک [Hemlock] کہا جاتا تھا پی لیں۔روایت ہے کہ داروغہ زندان نے روئداد سقراط سے متاثر ہو کے قید خانے کا دروازہ کھلا رکھا لیکن سقراط نے قرار کو فرار پہ ترجیح دی اور وہ زہر کا پیالہ پی گئے ۔ آج بھی نہ جانے اپنی رفتار میں اپنے کردار میں اپنے گفتار میں سقراط کے کتنے ہی جانشین پابند سلال ہو کے محاورتی ضمن میں زہر کا پیالہ پی رہے ہیں۔آج بھی وقت کے نا خدا قید خانوں کا دروازے کھلے رکھنے پہ آمادہ ہیں بشرطیکہ رفتار میں کردار میں گفتار میں ہر قدم اُن کی خواہشات کا آئینہ دار ہو یعنی وہی کچھ کیا جائے وہی کچھ کہا جائے جو حکام وقت چاہتے ہیں لیکن کچھ دیوانوں کو سر خمی کی روش راس نہیں آتی وہ قید خانے کی تنہایوں میں اپنی آسودگی روحی کی تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جسمانی خواہشات کی غلامی اُنہیں راس نہیں آتی۔
افلاطون کا خواب اور تشکیل ریاست بظاہر انسانی ضروریات کی تکمیل کا ایک گام تھا ۔افلاطون نے ادارہ ریاست کیلئے فلسفی کی سربراہی کا خواب دیکھا تھا لیکن ایسے فلسفی تاریخ انسانیت میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیںظلم کے لمبے ادوار میں عدل وانصاف کی قندیلیں روشن تو ہوئیں لیکن یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ اُن کی مدت بہت کم رہی۔ فلسفے کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ منطق سے محبت ہے [Love of Wisdom] اور کئی مغربی عالموں کو آنحضورؐ کی ذات میں وہ فلسفی نظر آیا جس کی تمنا افلاطون نے کی تھی لیکن جب منطق پہ سیاست کا منفی رخ حاوی ہو جاتا ہے تو مثبت سیاست کے شیدائی شکار ہو جاتے ہیں اور تواور جب منفی سیاست کا سامنا افلاطون کو کرنا پڑا تو اُنہوں نے یہ کہا کہ یہ میرا مقام نہیں اور اپنے علمی ادارے میں جو اکیڈیمیا [Academia] کے نام سے تاریخ عالم میں ثبت ہے واپس چلے گئے۔
ڈاکٹر قاسم کی کہانی کے تجزئے میں علمی نشاندہی کو مد نظر رکھنا ہو گا اُن پہ جو بھی گذر رہی ہے وہ اُسی لمبی تاریخی داستاں کا ایک جز ہے جس کا نشان تاریخ کے ہر ورق پہ کہیں نہ کہیں نظر آئے گااور دیکھا جائے تو بیشتر باب اِسی داستاں کا درد لئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر قاسم کی روئداد ایک زخم کہنہ کی داستاں ہے ہاں اُس کی ٹھیس مختلف افراد میں مختلف نوعیت کی ہوسکتی ہے۔
Feedback on: [email protected]