راقم السطور بگرام جیل میں نظر بندرہے برطانوی شہری معظم بیگ کی کتاب پڑھ رہا تھا، یہ اُمت مسلمہ کی ایک بے بس و لاچار محبوس بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ان سنی فلک شگاف چیخوں کے بارے میں ہے جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو روحانی و جسمانی تشدد سے گذرنے کے دوران اُن کے منہ سے نکلیں۔کتاب پڑھ کر کوئی بھی حساس دل انسان اشکوں کے دریا پر روک نہیں لگا سکتا۔ بگرام جیل کے اندر عافیہ صدیقی کے ساتھ پیش آئے جگر سوز واقعات پڑھتے ہوئے جب میرا ضبط ِغم ٹوٹ گیا اور کلیجہ کامنہ کو آگیا تو یکایک مجھے جموں کشمیر کے اندر اور باہر مختلف جیلوں اور عقوبت خانوں میں مقید وہ اسیر یاد آگئے جو اپنے عزیز و اقارب سے اور اپنے وطن سے برسوں سے دور ہیں اور اُن کا دکھ درد بانٹنے والا کوئی نہیں ہے۔میں چونکہ ۶۱۰۲ء میں خود سرینگر کے سنٹرل جیل میں تقریباََ چار مہینے مقید رہا اور اس عرصے میں وہاں جرم بے گناہی میں قید جوانوں اور بزرگوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع میسر ہوا تو اللہ گواہ ہے کہ میں نے روئے زمین پر اتنے بے بس، بے کس اور ظلم کی چکی میں ناحق پسنے والے انسانوں کو نہیں دیکھا جو زندہ تو ہوتے ہیں لیکن ایک لاش کی طرح ، جو کھاتے تو ہیں لیکن دوسرں کی مرضی پر، جن کی سانسوں پر بھی پہرے ہوتے ہیں اور جو اس لامحدود دنیا کی محدود چاردیواری کے اندر اپنے بے کیف وبے روح شب و روز گذارتے ہیں ۔جہاں آہنی دروازوں اور تنگ و تاریک کوٹھریوں کے سوا کوئی دوست اور غمگسار نہیں ہوتا ہے، جہاں اٹھنے بیٹھنے پر پابندی ہوتی ہے، جہاں بھیڑ بکریوں کی طرح شام کے وقت ’’چکرحوالدار‘‘ گنتی کر کے قیدیوں کو ایک ہی کمرے میں بند کر کے پیچھے سے تین کلو کا تالہ لگاتا ہے اور جہاں پھٹے اور بوسیدہ بستر کی بدبو سے مظلومیت کا احساس بری طرح ہوجاتاہے اور قیدی ہمیشہ سوچتا ہے کہ کب اس دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہوگا، کب دنیا کے ان ناخداؤں سے ، جن سے انسانیت تنگ آچکی ہے، کی چنگیزیت کا جنازہ نکلے گا اور کب مظلوموں کو ظلم کے دلدل سے نجات ملے گی۔سنٹرل جیل کی اسیری کے دوران جب سورج قلعے کی پہاڑی کے پیچھے چھپ کر رات کے مہیب سائے جیل پر چھا جاتے تو میں ان اسیران بے تقصیر جنہیں گناہ گار ہاتھوں نے اپنے ماں باپ ، بیوی بچوں اور عزیزواقارب سے دور کر دیا ہے ،کو دیکھ کر اکثر سوچتا رہتا کہ اس وقت پوری دنیا میں حقوق البشر کے موضوع پر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر گرم بحثیں چل رہی ہیں ہر عالمی لیڈر انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کا دوسرں کو اُپدیش دے رہا ہے ، انسانی اقدار کی تعظیم و تکریم پر یہ لوگ بنا کسی کاما فل سٹاف کے تقریریںجھاڑ رہے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ انسانی حقوق کا درس دینے والے یہ لوگ اصل میں ’’پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘ کے مصداق زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں ۔ اگر دنیا کے بڑے بڑے حکمران بشری حقوق کی دعوے داری میں سچے ہیں تو اُن کے بازو کہنیوں تک کیوں انسانی خون سے رنگے ہیں ؟ان سے انسانیت کی قبائیں دن میں ہزار بار کیوں چاک ہورہی ہیں؟ ان کے سامنے کتنے لوگ مارے جارہے ہیں ؟ کتنوں کے گھر اجاڑے جارہے ہیں؟ کتنے مسلمانانہ حلیہ رکھنے والے پیروجوان ستائے جارہے ہیں؟کتنی قوموں اور ملکوں کو خونخوار مسائل کے بھنور میں الجھائے رکھا جارہے؟ یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ اُن کی کرسیاںاور تخت وتاج قائم رہیں، ان کے دبدبے کا سکہ جما رہے، یہ اسلحہ سازی کی صنعت سے اپنی چند روزہ عیاشیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں، ایسے انسان دشمن لوگوں کی انسانی حقوق کے حوالے سے دھواں دار تقریریں اور بیانات اُن کے ماتھے پر لگے کلنک صاف نہیں کر سکتے۔ دو عالمی جنگوں سے لے کر آج تک کے خون خرابے کی خونین داستان واضح کرتی ہے کہ ان خون تشنہ لوگوں نے انسانیت کو صرف لہو کے سمندر ، آنسو، آتش زدگیوں، گوانتا ناموبے، ابوغریب، بگرام ائیر بیس، تہاڑجیل جیسے عقوبت خانوں، ہٹلر کے جیسے گیس چیمبروں اور جیلوں کے سوا کچھ نہیں دیا جنہیں یاد کر کے انسانیت شرمسار اور آدمیت سربہ گریبان ہے۔یہ لوگ جانوروں کو تو تحفظ دیتے ہیں مگرانسانوں کی بلی چڑھاتے ہیں، معصوم لوگوں پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر ان کی زندگیاں اجیرن کر جاتے ہیں، ظلم زیادتی کے خلاف برسراحتجاج نہتے عوام کو پیپر گیس ، پیلٹ گن جیسے ممنوعہ اسلحہ کے ستعمال سے اجتماعی تعذیب دیتے ہیں،دن دھاڑے آگ و آہن کے ذریعے بستیاں اجاڑتے ہیں۔ ہمارے سامنے شام وفلسطین کے معصوم بچوں کی مثالیں روز آتی ہیں کہ کس طرح ان پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں ، کس ڈھٹائی کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی اذانیں خاموش کر دی جاتی ہیں، کس طرح ڈرون کی بارشوں سے خون ناحق بہانے کا سلسہ جاری رکھا جارہا ہے،ہم روہنگیائی مسلمان اقلیت پر بودھ اکثریت کے ظلم و جبر کی کریہ داستانیں بھی دیکھ رہے ہیں۔ جموں کشمیر جو امت مسلمہ کا ایک ایسا اٹوٹ حصہ ہے، جہاں 1947ء سے لے کر آج تک حقوق البشر کے حوالے سے ایک سیاہ تاریخ رقم ہوئی۔،اس تاریخ کی سطر سطر میں ظلم وزیادتی، دھونس دباؤ، زیرحراست لاپتہ کر کے گمنام قبروں میں سلا دینے کی کہانیاں، بستیاں جلانا اور کشمیر کے باعزت لوگوں کی کھلے بندوں تذلیل جیسے خون کھول دینے والے واقعات بھرے پڑے ہیں۔اس ظلم وستم سے چھٹکارا پانے کے لئے یہاں کے عوام نے وقتاََ فوقتاََ بھرپور مزاحمت کی اور تواریخ گواہ ہے کہ یہاں کے نہتے عوام نے اتنی لاانتہا قربانیاں دیں جن کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ خون کے آنسو رُلا دینے والی معاصرتاریخ کا ہر ورق چیخ و پکار ، آہوں اور سسکیوں، نالوں اور فریادوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر دور میں کشمیری عوام کو اپنے حقوق کی برملا مانگ کرنے سے جابرین وظالمین کا جبر وجور باز نہ رکھ سکا اور نہ کسی ظلم سے خوف کھا کر قوم نے مزاحمت ترک کی ۔ بے شک اس کی پاداش میں اسے سختیاں جھیلنا پڑیں اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں۔
جموں کشمیر کی صورتحال کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہاں پر ہندوستان نے تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہماری بے توقیری شروع کی۔آج دلی کی سات آٹھ لاکھ فوج افسپا کے کالے قانون تلے کشمیر میںجو من میں آئے کر گزرتی ہے ،ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور حد تویہ ہے کہ آج یہ فوج افسپا کے آشرواد سے اتنی دلیر ہوچکی ہے کہ اب دن دھاڑے گھروں میں گھس کر پیرو جوان کے ساتھ ساتھ عزت مآب بہو بیٹیوں کا زدوکوب کر رہی ہے اور ’’گنا ہ ‘‘یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کرکٹ میچ پر تالیاں بجا کر خوشیاں کیوں ظاہر کیں ۔ افسوس یہ سب دیکھ کر بھی دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔بہرحال جموں کشمیر کا بے داغ سچ یہ ہے اپنے سلب شدہ سیاسی حق کو پانے کی خاطر کشمیری عوام کو بے دریغ قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں کیونکہ اس کا پالا ایک ایسی اندھی طاقت سے ہے جو صرف طاقت کی زبان استعمال کرنا جانتی ہے اور جس کی ڈکشنری میں انسانیت ، انصاف اور اصول نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی کشمیری عوام نے اس طاقت کے نشے میںچور فیل بدمست سے اپنا حق مانگا تو بدلے میں پیلٹ، بلٹ، جیل، پی ایس اے، کریک ڈاؤن ، توڑپھوڑ ،املاک کی بربادی اور زخم زخم لاشیں ملیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب جب بھی کشمیریوں نے صدائے احتجاج بلند کیا تو ہندوستان نے روایتی داؤ پیچ سے اس مبنی برحق آواز کو دبانے کے لئے جیلوں کے دروازے بھی کھول کر سیاسی انتقام گیری کی ایک بدترین مثال قائم کر دی۔گذشتہ برس کمانڈربرہان وانی کے جان بحق ہونے کے بعد اٹھنے والی عوامی احتجاجی مہم سے لے کر آج تک تقریباََ پندرہ ہزار سے زائد کشمیری گرفتار کر لئے گئے جو مختلف جیلوں میں ایام اسیری کاٹ رہے ہیں۔ 1978ء میں ریاست میں پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا گیا جو کہنے کو جنگل اسمگلروں کے خلاف استعمال میں لایا جانا تھالیکن اسے آج جموں کشمیر کے اندر حریت پسندانہ سیاسی نظریہ رکھنے والوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔یہ کالا قانون ابھی چل ہی رہاتھا کہ 1990 ء میں افسپا کے نام سے ایک اور تلوار کشمیریوں کے سر پرلٹکا دی گئی۔ ان کالے قوانین نے یہاں کون سے گھل کھلائے وہ ہر کس وناکس پر عیاں ہے۔ اس کی تازہ جھلک یاتو آرونی، ہف شرمال، پلوامہ، ترنکہ وانگام ،وہل، کھڈونی اور للہار میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں افسپا کی ننگی تلوار سے عوام کو چھلنی کیا گیا ، یہ جموں کشمیر کے ان جیلوں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاںچھوٹے بچے سے لے کر اسی سال عمر کے بوڑھے تک کئی ماہ سے زینت زندان بنائے گئے ہیں ۔
اس وقت جب عیدالفطر کا چاند ملت اسلامیہ پر سایہ فگن ہونے والا ہے کے باوجود بھی ان اسیروں کی رہائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے ۔ یہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔اس وقت جب عید کا چاند طلوع ہونے میں دوایک دن باقی ہیں، سیاسی نظر بند آہنی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں ۔ یہ سب کشمیری کاز کے وہ محسن ہیں جو اپنے حال کو ہمارے مستقبل کے لئے خوشی خو شی قربان کرتے جار ہے ہیں۔ ایسے اولوالعزم انسانوں اور قوم کے لئے دردِ دل رکھنے والوں کو یونہی تاریخ کے بھولے بسرے کونے میں چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ہندوستان اور جموں کشمیر کے مختلف جیلوں تہاڑ، رانچی، جودھپور،امپھالہ کٹھوعہ، کورٹ بلوال، سنٹرل جیل سرینگر ، کپواڑہ ، مٹن اور بارہمولہ سب جیلوں میں ہزاروں کشمیری قیدیوں کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے شہری پابند سلاسل ہیں اور ان سب کی زندگیاں پس دیوار زندان اجیرن بنی ہوئی ہیں۔ ان اسیران بے تقصیر میںایسے بھی ہیں جو سزا کی معیاد پوری کرنے کے باوجود رہا نہیں کئے جارہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس زر ِضمانت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی سزا کی مدت بڑھ جاتی ہے ، کچھ ایسے ہیں جو اپنے کیسوں کو قابل وکیل فراہم نہیں کر پارہے ہیں، کچھ ایسے ہیں جن کو جان بوجھ کر عدالتوں تک پہنچنے نہیں دیا جارہا ہے تاکہ وہاں اُن کی رہائی کے احکامات صادر نہ ہوں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔عمر قید کی سزا پانے والے عزم و ہمت کے ان پیکروں میں ڈاکٹر محمد قاسم، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، غلام قادر بٹ، فیروز احمد بٹ، نور محمد تانترے،محمود ٹوپی والا، فیاض احمد شاہ، شوکت احمد خان، عبدالحمید تیلی، نذیر احمد شیخ وغیرہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ مسرت عالم بٹ جنہوں نے ۲۰۱۰ء میں اپنے تحرک سے بڑے بڑے ایوانوں میں زلزلے پیدا کئے اور قوم کو سربلندی کی دھندلی سی روشنی دکھا کر ہر پیروجواں کے اندر انمٹ ولولے اور جوش و جذبے کی روح پھونک دی۔اسی جرأت رندانہ کی پاداش میں مسرت عالم بٹ پر آج تک ۳۴؍ بار پی ایس اے لگائے گئے جو ختم بھی ہوئے لیکن پھر بھی ان کی اسیری کو طول دیا جارہا ۔ اس کے علاوہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، عبدالاحد پرہ، محمد رفیق گنائی، طارق احمد گنائی، امیر حمزہ، اسداللہ پرے، حکیم شوکت، معراج نندا، مولوی سجاد، محمد یوسف فلاحی، محمد شعبان ڈار، محمد رمضان شیخ کے علاوہ ہزاروں قیدی ہیںجو پچھلے دس مہینوں سے بدترین سیاسی انتقام گیری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ الغرض ہمارے اسیران زندان ہندوستان اور اس کے ریاستی گماشتوں کے ظلم کے شکار تو ہیں ہی مگر ان کے تئیں ہماری عدم توجہی قابل افسوس ہے۔ یہ ہماری اجتماعی بے اعتنائی کا شاخسانہ ہے کہ ان اسیران بے تقصیر کو جیلوں کے اندر ناقص اور مضر صحت غذائیں دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی صحت دن بدن بگڑتی جارہی ہے، انہیں علاج و معالجہ کی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے تاکہ جسمانی مریض بن کر ان کی ہمتیں توڑی جاسکیں، ایک یا دوسرے بہانے انہیں مقررہ پیشیوں پر عدالتوں میں حاضر ہونے سے روکا جاتا ہے تاکہ ان کی اسیری کو طول دیا جاسکے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان بے گناہوں کو اپنوں کے ساتھ ملاقات کے لئے تڑپایا اور ترسایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا بھرپور خیال رکھیں، ان کی ہمت بڑھائیں، ان کی اخلاقی پشت پناہی کریں، تاکہ انہیں کوئی نفسیاتی مشکل اور روحانی تکلیف پیش نہ آئے۔مزاحتمی قیادت ، قوم کے ذی حس افراد اور صاحب ِثروت لوگوں کو ان کی گردنیں ظلم و تشدد سے چھڑانے کے لئے پہل کرنی چاہیے۔جیلوں کے اندر کچھ ایسے قیدی ہیں جو اپنے لئے کپڑوں اور دوسری ضروریات زندگی کا انتظام نہیں کرسکتے ہیں ،لہذا یہ پہلی فرصت میں بھی قابل توجہ ہیں۔مزیدبرآں عیدالفطر کے حوالے سے جیلوں میں بند پڑے لوگوں کے گھروں میں جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اُن کے گھروالے اپنے عزیزوں کی کمی اوع عدم موجودگی محسوس نہ کریں۔بار ایسوایشن کے صدر میاں عبدالقیوم صاحب جیسے مخلص و متحرک ماہر قانون کی سربراہی میں اس بارے میں پہلے ہی سے قابل تعریف اور لائق صد توصیف کام کرتی چلی آرہی ہے، البتہ انھیں بھی اس قومی فریضے کی ادائیگی میں مزید وسعت اور سرعت لاکر قیدیوں کی رہائی، ان کے التواء میں ڈالے گئے کیسوں کی سنوائی، ہر جگہ کم از کم خرچے پر وکلا کی فراہمی اور جیلوں کا دورہ کر کے اسیروں کے حال سے حسب ِدستور قوم کو باخبر رکھنا چاہیے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو بھی ا سیران ِزندان کی طرف اور زیادہ متوجہ ہونا ہوگا۔اس کے علاوہ ریاست کے ذرائع ابلاغ، ائمہ و خطباء اور قلم کار حضرات کو بھی کشمیر وغیر کشمیری سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے ۔غرض ساری قوم کو اس بارے میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کرنا ہوں گی تاکہ اسیران زندان خود کو بے یارو مددگار نہ پائیں۔ مزیدبرآںآدمیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اور جمہوریت کو خیالات کا جنگ کہنے والوں کو بھی ان قیدیوں کی رہائی میں روڈے نہ اٹکاتے ہوئے جتنی جلد ممکن ہوسکے ان کی رہائی کے احکامات صادر کرنے چاہیے کیونکہ سیاسی انتقام گیری سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اور زیادہ الجھ جائے گا۔ انہیں کشمیر کی زمینی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے عیدالفطر سے پہلے تمام قیدیوں کو بلا شرط رہا کرنے کے لئے فوراً عملی قدم اٹھانے چاہیے۔
رابطہ :منزگام، اہرہ بل، کولگام
9070569556