عظمیٰ نیوز سروس
جموں //اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) نے جموں و کشمیر کے محکمہ قبائلی امور کے سابق افسران اور دیگر افراد کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر ایک باضابطہ مقدمہ درج کیا ہے۔ درج کیس کے مطابق محمد شریف چوہدری، اْس وقت کے ڈائریکٹر محکمہ قبائلی امور جموں و کشمیر، مظفر حسین وانی، اْس وقت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، گلزار حسین، اْس وقت کے جونیئر اسسٹنٹ، جاوید احمد، اْس وقت کے انچارج کمپیوٹر اسسٹنٹ، شاہین نقشبندی، اْس وقت کے ہیڈ اسسٹنٹ، اور دیگر افسران/اہلکاران سمیت نجی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔مقدمہ درج کرنے کی کارروائی 09 اکتوبر 2024 کو ایف آئی آر نمبر 05/2024 کے تحت جموں و کشمیر پبلک کرپشن ایکٹ 2006 کی دفعات 5(1)(c)(d) اور دفعہ 120-بی آر پی سی کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔مقدمہ محکمہ قبائلی امور جموں و کشمیر کی طرف سے حکومت ہند کی پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے تحت ایس ٹی امیدواروں کے لئے کروڑوں روپے کی رقم غیر تسلیم شدہ اداروں کو جاری کرنے کے حوالے سے الزامات کی تحقیقات پر مبنی ہے۔ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم کا مقصد شیڈولڈ ٹرائب (ST) طلباء کو ان کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ ہر طالب علم کے لئے 18,000 روپے اور 2300 روپے ماہانہ الاونس دیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر سکیںتاہم، محکمہ قبائلی امور کے افسران اور اہلکاران نے اداروں کی درستگی اور تسلیم شدہ کورسز کی جانچ کئے بغیر اسکالرشپ کی رقم تقریباً 1,66,20,000 روپے 2014 سے 2018 کے درمیان مختلف کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹس کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی۔تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ایک ادارہ یعنی “NESSOWانسٹی ٹیوٹ سرنکوٹ، پونچھ‘ جس کے پاس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی (NIELIT) کی منظوری بھی نہیں تھی، اسے 33,30,000 روپے کی اسکالرشپ فیس جاری کی گئی۔ دیگر اداروں کے پاس اگرچہ NIELIT کی منظوری موجود تھی، تاہم انہوں نے طلباء کے امتحانات NIELIT کے ذریعے نہیں کروائے اور خود ہی کورس سرٹیفکیٹس جاری کئے، جو بالکل بے وقعت تھے۔اس مقدمے میں درج دیگر افراد میں کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹس کے مالکان شامل ہیں جنہوں نے افسران کے ساتھ مل کر جعلسازی اور سرکاری فنڈز کی خرد برد کی۔ ان میں محمد جاوید (نیشنل کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ، سرنکوٹ اور انفوٹیک انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹرز، پونچھ)، محمد فاروق (ٹیکنو پارک کالج آف پروفیشنل اسٹڈیز، راجوری)، محمد شکیل (ایم ایس خان کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ، راجوری) اور مدثر احمد (NESSOW انسٹی ٹیوٹ، سرنکوٹ) شامل ہیں۔اینٹی کرپشن بیورو نے مذکورہ افسران اور اہلکاران کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور اب اس کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس اسکینڈل میں سرکاری خزانے کو 1,66,20,000 روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے، جو بدعنوانی کی سنگین کارروائیوں میں شامل ہے۔