سرینگر// //پرنسپل میڈکل کالج سرینگر کی طرف سے صحافیوں کے اسپتالوں میں داخلے پر پابندی کا فرمان جاری کرنے کے تنازع کے بیچ سماجی کارکن ایم ایم شجاع نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اس سرکیولر کو منسوخ کرنے سے متعلق عرضی دائر کی۔ سرینگر میں8بڑے اسپتالوں بشمول صدر اسپتال میں صحافیوں کے داخلے کو ممنوع بناتے ہوئے پرنسپل میڈیکل کالج سرینگر ڈاکٹر سائمہ رشید نے ایک سرکیولر زیر نمبرPS/MC/17/1083-91,محرر 26-09-2017کو جاری کیا جس میں کہا گیا’’مختلف نیوز ایجنسیوں سے وابستہ پریس رپورٹر اکثر غیر ضروری طور پر اسپتال کے وارڑون اور دیگر حساس جگہوں پر اسپتال انتظامیہ سے بغیر اجازت حاصل کیں داخل ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے معالجین کو پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں سخت زحمت اٹھانی پڑتی ہے‘‘۔حکم نامے میں تمام اسپتالوں کے سپر انٹنڈنٹوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ کسی بھی صحافی کو اسپاتل کے وارڑ یا آپریشن تھیٹر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں’’۔صحافیوں کی طرف سے اس حکم نامے پر سخت تیور دکھانے کے بیچ سینٹر فار پیس اینڈ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس کے چئیرمین اور صحافی ایم ایم شجاع نے انسانی حقوق کے مقامی کمیشن میں عرضی دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ایک مریض کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ناقص طبی سہولیات کا اظہار میڈیا کے پاس جاکر کریں،اور نہ ہی انفرادی سطح پر کسی کی شکایت پر انتظامیہ کوئی غور کرتی ہے۔انہوںنے عرضی میں کہا ہے’’میڈیا اور سیول سوسائٹی کا رول بنتا ہے کہ وہ مریضوں کے تکالیف اور شکایت کی جانب انتظامیہ کی توجہ مبذول کرائیں‘‘۔درخواست گذار کا کہنا ہے کہ ریاست میں گزشتہ کئی ماہ سے اسپتالوں میں ناقص طبی سہولیات اور نظام عوام کی نظروں کے سامنے ہیں،جبکہ ہر روز مریضوں کے غمناک روداد کے قصے پرنٹ میڈیا میں چھائے ہوتے ہیں۔ایم ایم شجاع نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ صحافیوں کی طرف سے اسپتالوںتک رسائی اور وہاں کے حالات کا احاطہ کرنے اور وہاں اہم معلومات حااصل کرنے کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ناقص طبی سہولیات اور ڈھانچے کو منظر نامے پر لاسکیں۔درخواست میں کہا گیا کہ صحافی او میڈیا سے وابستہ لوگ شکایات کی حصولیابی اور انہیں اجاگر کرنے کیلئے کافی مشقت اور عرق ریزی کرتے ہیں۔درخواست دہندہ نے کہا ہے کہ انتظامیہ کو اس طرح کی میڈیا پر فخر کرنا چاہے تھا،کہ وہ کافی مشکلات کے بعد بھی اہم اور حساس ڈاٹا کو جمع کرنے کے علاوہ طبی سہولیات میں فقدان اور دیگر خامیوں کو اجاگر کرتے ہیں،جس کی وجہ سے انتظامیہ کو انہیں درست کرنے میں مدد ملتی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے’’جمہوری نظام میں میڈیا کی عزت افزائی کی جاتی ہے،اور جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر دیکھا جاتا ہے،جو کہ نظام میں جوابدہی اور شفافیت لانے کیلئے ایک طاقتور اوزار سمجھا جاتا ہے‘‘۔ درخواست گذار نے کہا ہے کہ میڈیا کی عزت افزائی کرنے کے بجائے پرنسپل میڈیکل کالج سینگر نے اسپتالوں تک میڈیا کی رسائی کو ہی ممنوع بنادیا۔عرضی میں پرنسپل میڈیکل کالج کے سرکیولر کو آمرانہ طرز اور صوابدیدی قرار دیتے ہوئے کہا ہے ’’کمزور انتظامیہ،طبی غفلت شعاری، ادویات کی ناقص سپلائی،قیمتی مشینوں کی دیکھ بال،معالجین کے اسپتالوں میں آنے کے اوقات،مریضوں کی صفائی،اسپتالوں کی صفائی،مریضوں کی سلامتی اور حفاظتی انتطامات،اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کو دئیے جانے والی غذا وخوراک کا معیار،گردو ں کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے ڈایلاسز کیلئے آلودہ پانی کا استعمال،اسپتالوں میں نیم طبی و دیگر افرادی قوت کی کمی اور یہاں طبی و نیم طبی عملے کو انتظامیہ سے درپیش مسائل‘‘ سے میڈیا کو دور رکھنے کیلئے یہ حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔پرنسپل میڈیکل کالج کی طرف سے صحافیوں کی اسپتالوں تک رسائی کو نا ممکن بنانے کیلئے جاری کئے گئے حکم نامے کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے میڈیا کے اظہار کو کمی کرنے کا مترادف ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ میڈیا نمائندے مریضوں اور طبی شعبے سے متعلق خبریں کر کے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریا ادا کر رہے ہیں،اور عوامی رائے کی نمائندے کرتے ہے،جبکہ انکی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں کسی طرح کی رکاوٹ کھڑی کرنا اظہار رائے کی آزدی پر پہرے لگانے کے متراف ہے۔ایم ایم شجاع نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن سے رجو ع کرتے ہوئے پرنسپل میڈیکل کالج کے سری کیولر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔