ایک ایسا عظیم سائنس داں جو دائیں گال کو جنبش دیتا تھا اور لوگوں کو کائنات کی نہ صرف سیر کرواتا تھا بلکہ ایسی معلومات فراہم کرتا تھا کہ انسانی عقل دھنگ رہ جاتی تھی۔ پوری دُنیا کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ طاقتور کہلانے والے ممالک کے سربراہ اُنھیں تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اُس عظیم ماہر فلکیات، طبعیات دان اور ریاضی دان کا نام اسٹیفن ولیم ہاکنگ ہے۔جو ۸ جنوری؍ ۱۹۴۲ء کو آکسفورڈ برطانیہ میں پیدا ہوا۔اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنایا اور دُنیا پر ایک چمکتے ستارے کی مانند نظر آیا۔وہی چمکتا ستارہ ۷۶ سال کی عمر میں ۱۴؍مارچ۲۰۱۸ء کو ہمیشہ کے لیے اپنے انجام کو پہنچا۔
اسٹیفن ہاکنگ عہد حاضر کے ایک عظیم سائنس دان تھے۔ اُنھیں ثانی ٔ آئن سٹائن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ان کا اہم کارنامہ ثقب اسود(Black Holes) یعنی بلیک ہولز، تھیوریٹیکل کاسمولوجی (Cosmology) کے میدان میں تھا۔ اس ضمن میں اُن کی ایک شہرہ ٔ آفاق کتاب’’وقت کی مختصر تاریخ (A Brief History of Time) مذکورہ میدان میں ایک انقلابی حیثیت کی حامل ہے۔یہ وہی اسٹیفن ہاکنگ ہے جس نے بلیک ہول(Black Hole) اور ٹائم مشین(Time Machine) سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے متعلق سب سے زیادہ معلومات فراہم کیں۔ جب اُن کی حالات زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہاکنگ طالب علمی کے زمانے میں کوئی خاص قابل ذکر طالب علم نہیں تھا۔ ایک روشن دماغ ہونے کے باوجود بھی اُن کے اساتذہ کی یہ شکایت رہتی تھی کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور طالب علمی کے زمانے میں اُنھوں نے اپنی قابلیت کا کوئی خاص مظاہر بھی ہ نہیں کیا تھا۔۱۹۶۶ء میں جب وہ اکیس برس کے تھے تو اُن پر لو گیرگ بیماری Lou Gehrig's Disease کا حملہ ہوا۔ یہ بیماری Motor Neuron Disease بھی کہلاتی ہے جس میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مفلوج اور معذور ہو جاتا ہے۔ جب ڈاکٹروں نے اس بیماری کی تشخیص کی اور ہاکنگ کو بتایا گیا کہ وہ صرف دو سال ہی زندہ رہ سکیں گے توبہت اُداس ہو گئے۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے یہ بتایا کہ اُن کی بیماری بہت ہی سُست رفتار سے آگے بڑھے گی اور وہ ایک طویل عرصے تک زندہ رہ سکیں گے تو اُن کی اُداسی میں بہت حد تک کمی آئی۔ لیکن پھر بھی یہ بیماری اُنھیں رفتہ رفتہ مفلوج و معذور بنا کر جسمانی طور پر ویل چیر تک محدود کر دیا ۔
اب ایک طرف موت اپنا منہ کھولے اس کی منتظر تھی تو دوسری جانب اُس کے اپنے خواب تھے۔ زندگی کے اس مشکل ترین دور میں ایک بڑا فیصلہ کرنابھی اپنے آپ میں ایک بڑی بات تھی۔ اُنھوں نے زندگی کے ایک قلیل عرصے میں ایک بڑے کام کو چُنا۔اس کام نے جہاں اُسے موت کے خوف سے کسی حد تک دُور رکھا وہیں دوسری طرف اس کام میں بنی نوع انسان کی بھلائی کے پہلوبھی مضمر تھے۔ ہاکنگ نے جس مشکل ترین کام کا انتخاب کیا وہ آئن سٹائن کے پیچیدہ ترین نظریہ اضافت پر غور کرناتھا۔ اور اس کی گتھیوں کو سلجھانے لگا۔ سلجھاتے سلجھاتے وہ کائنات میں موجود بلیک ہولز سے الجھ بیٹھا۔ اس ضمن میں اُس نے مذکورہ میدان کی ضخیم سے ضخیم ترین کتابیں پڑھنا شروع کیں۔وہ اس میں اس قدر دلچسپی دکھاتا گیا کہ وہ آج تک بلیک ہولز سے الجھتا رہا۔ ڈاکٹروں کی پیش گوئی کے برعکس ہاکنگ آج تک زندہ سلامت رہا مگر اُس کا جسم پوری طرح مفلوج ہوچکا تھا۔اُس کی اس معذوری کے پیچھے ایک حادثہ ہے؛جو کہ یوں ہے کہ وہ ایک دن سیڑھیوں سے نیچے پھسل گیا۔ ہسپتال لے جایا گیا اوروہاں اس کا طبی معائنہ ہوا تو پتہ چلا وہ دُنیا کی پیچیدہ ترین بیماری ’’موٹر نیوران ڈزیز‘‘ (Motot Neuron Disease) جسے طبی زبان میں ’’اے۔ایل۔ایس‘‘میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اس بیماری کا تعلق انسانی دل سے ہوتا ہے۔انسانی دل پر چھوٹے چھوٹے عضلات ہوتے ہیں۔ان عضلات کا کام انسانی جسم کو کنٹرول کرنا ہے۔دل کے یہ عضلات ’’موٹرز‘‘(Motors) کہلاتے ہیں۔اگر یہ ’’موٹرز‘‘ ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو انسان کے تمام اعضا ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں اور انسان آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔عموماً ’’اے ایل ایس‘‘ کے مریض کی زندگی دو سے تین سال کی ہوتی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ ۲۱سال کی عمر میں اس بیماری کا شکار ہوا تھا۔سب سے پہلے اس کے ہاتھ کی انگلیاں مفلوج ہوئیں،پھر اس کے ہاتھ، پھر اس کے باز، پھر اس کا بالائی دھڑ،پھر اس کے پاؤں، پھر اس کی ٹانگیں اور آخر میں اس کی زبان بھی مفلوج ہوگئی تھی۔یوں وہ ۱۹۶۵ء میں ویل چیئر تک محدود ہو گیا۔پھر اس کی گردن دائیں جانب ڈھلکی اور مرنے تک سیدھی نہ ہو سکی۔ وہ۱۹۷۴ء تک خوراک اور واش روم کیلئے بھی دوسروں کا محتاج ہو گیا تھا۔ آج تک اس کے پورے جسم میں صرف پلکوںمیں زندگی موجود تھی۔وہ صرف پلکیں ہلا سکتا تھا۔ ڈاکٹروں نے چوں کہ پہلے ہی امید چھوڑ دی تھی لیکن ہاکنگ نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے زندہ رہنے۔آگے بڑھنے اور اس معذوری کے باوجود دُنیا کا سب سے بڑا سائنسدان بننے کا فیصلہ کیا تھا۔چناں چہ اُس نے ویل چیئرپر کائنات کے رموز کھولنا شروع کیے جس سے پوری سائنسی دُنیا حیران رہ گئی۔کیمبرج کے کمپیوٹر سائنسدانوں نے ہاکنگ کیلئے ’’ٹاکنگ‘‘ کمپیوٹر بنایا۔ کمپیوٹر اُس کی ویل چیئر پر لگا دیا گیا تھا۔ کمپیوٹر اُس کی پلکوں کی زبان کوسمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ا سٹیفن اپنی سوچ کو پلکوں پر درآمد کرتا ہے اور پلکیں ایک خاص زاویے اور ردہم(Rhythm) میں ہلتی تھیں۔ پلکوں کی Rhythm لفظوں کی شکل اختیار کرتی تھی۔اور وہ لفظ کمپیوٹر کی سکرین پر ٹائپ ہوجاتے تھے اور بعدمیںا سپیکر کے ذریعے سنے اور سنائے جانے لگتے تھے۔اس طرح اسٹیفن ہاکنگ دُنیا کا واحد شخص تھا جو اپنی پلکوں سے بولتا تھا اور پوری دُنیا اس کی آواز سنتی تھی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے پلکوں کی اسی جنبش کے ذریعے سے بہت سی کتابیں لکھیں۔ اس نے ’’کوانٹم گریوٹی‘‘(Quantum Gravity) اور کائناتی سائنس (Cosmology) کوکئی نئے فلسفے سے بھی متعارف کیا۔ اس کی کتابA Brief History of Time نے پوری دنیا میں تہلکا مچا دیاتھا۔یہ کتاب۲۳۷ ہفتے دُنیا کیBest Seller کتاب رہی اوردُنیا بھر میں بہت زیادہ تعداد میں خریدی اور پڑھی گئی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ایک نیا کام شروع کیا تھا کہ مایوس اور نااُمید لوگوں کو زندگی کی خوبصورتیوں کے بارے میں لیکچر دے کر اُن کے عزم اور حوصلے کو بڑھاتا رہا۔ دُنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اور یونی ورسٹیوں میں اسے لیکچرز کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔وہ اپنی معذوری کی مثال دے کر عزم اور حوصلے کو مستحکم بنانے کے لیے اکثر کہتے تھے کہ’’ اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔اگرمیں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہی، جو چل سکتے ہیںاور جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے،جوکھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں؟‘‘۔ ۱۹۷۹ء سے ۲۰۰۹ء تک ہاکنگ کیمبرج یونیورسٹی کے اُس عہدے پر فائز رہا جس پر کبھی مشہور سائنسدان آئزک نیوٹن فائز تھا۔ ہاکنگ کودور حاضر کا افلاطون بھی گردانا جاتا تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں ایک لیکچر کے دوران انکشاف کیاتھا کہ دُنیا میں انسانوں کے محض ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں۔جس کے بعد خطۂ ارض سے نسل انسانی ختم ہو جائے گی۔اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ انسانوں کو اپنی بقا کیلئے کسی دوسرے سیارے پر نقل مکانی کرنا ہوگی۔ہمیں زمین کے مدار سے نکل کر چاند یا کسی اور سیارے پر منتقل ہونا ہوگا۔اسٹیفن ہاکنگ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دیگر سیاروں میں جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اُس کی تحقیق کے حساب سے انسانوں کو زمین چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ سیارہ انسانوں کیلئے بہت چھوٹا ہو گیا ہے۔
پی،ایچ،ڈی ریسرچ اسکالر،یونی ورسٹی آف حیدرآباد،فون9149958892
(بقیہ بدھوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)