دین اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہر شعبہ میں حلال و حرام کی حد بندیوں کاخیال رکھیں ، بطور خاص اپنے معاملات کودرست رکھیں، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں اور اپنے معاشرتی امور کو شریعت کے مطابق انجام دیں، خصوصاً اسوۂ نبوی کے مطابق نکاح کا انعقاد کریں۔ ان نصیحت آمیز جملوں کا اظہار حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب نے کل ہند مشاورتی اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا،جواصلاح ِمعاشرہ کمیٹی آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے زیر اہتمام ۷؍ستمبر کو منعقدہوا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں نے دین کو عبادات کی حد تک محدود کر دیاہے اور معاشرتی امور میں غفلت برتی جارہی ہے، شادیوں میں جہیز کا لین دین ہورہا ہے اور اسراف سے کام لیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسلام اور اسلامی شریعت کی بدنامی ہو رہی ہے، مسلمانوںکو چاہئے کہ وہ شادی بیاہ کے موقع پر بیجا رسوم ورواج سے اجتناب کریں اور سنت و شریعت کے مطابق نکاح کے معاملات کوانجام دیں۔ اس بات پر خوشی کا اظہار کیاگیا کہ نکاح کوآسان بنانے کے سلسلے میں اصلاح معاشرہ کمیٹی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے آسان اورمسنون نکاح مہم کی شکل میں جدوجہد کی جارہی ہے ، انہوں نے علمائے کرام اور سماجی کارکنان سے اس مہم کو آگے بڑھانے کی گذارش کی اوراس امید کا اظہار کیاکہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں مثبت تبدیلی پیدا ہو گی۔ نکاح کے سلسلے میں اسلامی ہدایات کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں معاشرتی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیںاوربڑی تعداد میں مسلم بچیاں اپنے گھروں میں بے نکاحی بیٹھی ہوئی ہیں،اس لیے تمام لوگوں کی یہ فکرہونی چاہئے کہ نکاح کا اسلامی نظام معاشرے میں نافذ کیاجائے۔ مولانا خالدسیف اللہ رحمانی نے اپنے خطاب میںبتایا کہ بورڈکے قیام کابنیادی مقصد شریعت کا دفاع اور اس کا تحفظ ہے، جس کے لیے بورڈکی جانب سے تفہیم شریعت اوراصلاح معاشرہ کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ اصلاح معاشرہ کے کام میں کمی کی وجہ سے ارتداد کا دروازہ کھل رہا ہے اور مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے نکاح کر کے ایمان سے محروم ہورہی ہیں، اس تناظر میں آسان نکاح مہم بالواسطہ ایمان کے تحفظ کی کوشش ہے،جس میں علماء کرام اور خواتین کا بہت اہم رول ہے۔ جمعیت علماء ہند کے مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے فرمایا کہ آسان نکاح مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بااثر افراد لوگوں کی کمیٹی بنائی جائے جوشاد ی کے موقع پر جاکر لوگوں کوسادگی کے ساتھ نکاح کی انجام دہی کی تلقین کریں۔چنانچہ چند جلسوں، تقریروں اورمضامین کے ذریعے نکاح میں پائی جانے والی خرابیوں کا سدباب نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے مسلسل اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہےاورتمام لوگوں کومل جل کر اس محنت کوآگے بڑھاناچاہئے۔دیگر مقررین کرام نے بھی نکاح کو آسان بنانے کی فضا ہموار کرنے کے لئے اپنے مفید مشوروں سے نوازااور کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ نکاح کے موقع پر صرف ایجاب و قبول کے وقت اسلام نظر آتاہے ،اس کے علاوہ شروع سے اخیر تک بے جا رسوم ورواج پر عمل کیا جاتاہے۔انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ہر مسجد کے امام کی نگرانی میں محلہ سدھار کمیٹی بنائی جائےتاکہ نکاح کوآسان کرنے کے لیے سماجی دباؤ بنایا جائے اورخواتین کی ذہن سازی کے لیے خواتین کی کمیٹی بنائی جائے۔علماء اور با اثر شخصیات نکاح کی مہنگی تقاریب میں شریک نہ ہوں۔ نکاح پڑھانے والے حضرات نوشہ اور اس کے چند ساتھیوں اور ذمہ داران کو اپنے یہاں بلا کر سادگی کے ساتھ نکاح پڑھا دیں۔ جو قوم اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی شادیوں پرمال خرچ کرتی ہے وہ قوم کبھی سرخرو اورسربلند نہیں ہوسکتی اس لئے شادیوں کو آسان بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تمام مسالک و مکاتب فکر کے افراد کی جانب سے نکاح کو آسان بنانے کے سلسلے میں جو متحدہ کوشش ہونگی، اس کے نتیجے میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ شادی بیاہ میں فضول خرچی کرنے کے بجائے مسلمان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت ، صحت کی حفاظت اور ملت کی غربت کے خاتمے پراپنا مال اور وسائل خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ مسلمانوں میں اعلیٰ مقاصد کے لیے مال خرچ کرنے کاشعو ر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ بیجا مصارف میں اپنا مال ضائع نہ کریں۔نکاح کے لئے آسان راستہ اختیار کرنا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے لہٰذا مسلمان شادی بیاہ میں اسراف اور فضول خرچی کے ذریعے اس کو مشکل نہ بنائیں ۔