مولانا پیر شبیر احمد
حضور اقدسؐ کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک و بدعت، ضلالت و گمراہی اور معصیت و نافرمانی کے عمیق گڑ ھے میں گری ہوئی تھی، انساینت نام کی کوئی چیز نہ تھی، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا، فسق و فجور اور بدکاریوں پر ندامت و شرمندگی کے بجائے اس پر فخر کیا جاتا تھا، شراب نوشی اور قمار بازی ان کا پسندیدہ و محبوب مشغلہ تھا، حسب و نسب پر تفاخر کیا جاتا، انتقام و کینہ وری کو وصف و خوبی سمجھا جاتا، معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے صدیوں چلتے، گویا کہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چک تھی۔ ان حالات میں جبکہ ہر طرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدسؐ دنیا میں رحمتہ للعالمین بن کر تشریف لائے اور عبد اللہ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب و ماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہونے لگی، آپؐ کی آمد و تشریف آوری ایسی ’’نعمت عظمیٰ‘‘ ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر ’’احسانِ عظیم‘‘ سے تعبیر فرمایاہے۔آپ ؐ سراپا رشد و ہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے کامل نمونہ ہیں اور آپؐکے اسوہ حسنہ میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کو مضمر کر دیا گیا ہے، آپؐابر رحمت بن کر انسانیت پر برسے اور ان کو کفروشرک اور ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت کی روشنی سے منور کیا، محسن انسانیتؐ نے انسانیت سے گری ہوئی ایک ایسی قوم میں مثالی پاکیزہ اور باکردار روشن زندگی گزاری کہ جن کی بداعمالیوں کی وجہ سے کوئی ان پر حکومت کرتا بھی اپنے لیے توہین و عیب سمجھتا تھا۔حضوراکرمؐ نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائیں ہیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو، اپنا وعدہ پورا کیا کرو، حرام باتوں سے بچو، خون ریزی اور یتیم کا مال کھانے سے دور رہو، کسی کا ناحق مال نہ کھاؤ، اسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا۔ہم سب ان پر ایمان لائے اور ان کی اتباع کرتے ہوئے ان پر دل و جان سے فدا ہوئے۔محسن انسانیت حضرت محمد ؐنہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کے لئے رحمت بن کر آئے۔ آپؐ نے عرب و عجم کے سامنے ایسا ضابطہ اخلاق، مکمل دستور العمل اور شاندار نظام حیات رکھا جو تنگ نظری سے پاک تھا۔ اقوام عالم کے لئے ایسا قابل تقلید اور آئیڈیل نظام جس میں نسلی امتیازات و قبائلی تفاخر کا خاتمہ، مجبوروں، محکموں، خواتین، بچوں اور پسے ہوئے طبقات کے انسانی حقوق کی گارنٹی ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم دانشور، محققین، فلاسفر اور مورخین بھی آپ کی انسانیت کے لئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ انگریزی زبان کے مشہور ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شاہ The Genuine Islam میں رقمطراز ہیں کہ میں نے محمدؐ کے بارے میں بہت پڑھا اور میری ذاتی رائے میں ان کے جیسے شخصیت کوئی نہیں ،وہ انسانیت کی بقا کے ضامن رہے، اگر ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو دنیا کے مسائل حل کر کے اسے خوشیوں اور امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔آپؐ کا حسن اخلاق اور صبر و استقامت، صلہ رحمی، عفو و درگزر اور سادہ زندگی پوری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ معلم کائناتؐ کی ذات و صفات اور سیرت مطہرہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد خواہ ان کا تعلق کاروبار سے ہو، خواہ قانون، عدالت، کارہائے نظام مملکت سے ہو، ہر معاملے میں کامل رہنمائی پائیں گے۔ حضور اکرمؐ کے بنائے ہوئے قوانین قیامت تک ہر انسان، ہر نسل، ہر قوم، ہر ملک ،ہر خطے کے لئے بلاامتیاز رنگ و نسل ہیں۔ ان قوانین پر عمل سے معاشرے میں امن وسکون پیدا ہو گا۔ ظلم و ستم، ناانصافی کا خاتمہ اور حقیقی معنوں میں مساوات انسانی پیدا ہو گی۔