جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی 22؍نومبر 2018 کو گورنر ستیہ پال ملک کے حکمنامے کے بموجب تحلیل کر دی گئی۔قارئین محترم کو یہ یاد ہی ہو گا کہ یہ اسمبلی 20؍جون 2018 کو معطل کی گئی تھی۔اسمبلی کی suspended animationکے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسمبلی قائم تو ہے لیکن فعال نہیں۔اسمبلی کو ایک ایسے دور میں معطل کیا جاتاہے جب کہ اس میں کوئی بھی جماعت خالص اپنی یا جماعتوں کا اتحاد ایک ملی جلی سرکار جسے کولیشن سرکار کہا جاتا ہے، تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔معطلی کی حالت میں اسمبلی کو تب ہی بدلا جا سکتا ہے جب ایک یا ایک سے زیادہ جماعتیں مل جل کے سرکار بنانے کے قابل ہو جائیں۔ریاستی اسمبلی کی معطلی کا حکم سابقہ گورنر این این وؤہرا نے صادر کیا تھا۔ اسمبلی کی معطلی کا حکم تب صادر ہوا جب بھاجپا نے پی ڈی پی کے ساتھ بنائی ہوئی کولیشن سرکار سے اپنی حمایت واپس لے لی جب کہ اسمبلی کی تحلیل کا حکم تب صادر ہوا جب پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس نے ایک ملی جلی سرکار بنانے پہ اتفاق کیا اور اس کے لئے رسمی طور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاستی گورنر ستیہ پاملک کو تحریری طور مطلع کیا۔ راج بھون سے کچھ لمحات بعد اسمبلی تحلیل کر نے کافرمان ہوا۔
گورنر ملک کے اقدام کو کسی بھی صورت میں جمہوری نہیں کہا جا سکتا، چونکہ پی ڈی پی،این سی اور کانگریس کے ممبراں کی مجموعی تعداد56تھی جبکہ 87ممبراں کی قانون ساز اسمبلی میں ایک سادہ اکثریت 44ممبراں سے بنتی ہے۔ صرفنظر از اینکہ جمہوری تقاضے کیا تھے یہ حقیقت عیاں ہے کہ جمہوری اقدار کے ساتھ کھلواڑ ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں روایت رہی ہے۔ جموں و کشمیر کی جمہوریت ریاستی تقاضوں کے تابع ہے ۔ریاستی تقاضے کیا ہیں اِس کا فیصلہ سرینگر میں نہیں بلکہ دہلی میں اقتدار کے اعلی ایوانوں میں ہوتا ہے۔ریاستی تقاضا وہی ہے جس کا تعین دہلی سرکار کرتی ہے۔گورنر ستیہ پال ملک ہو یا کوئی اور اُسے دہلی میں وازرت داخلہ کے کئے ہوئے فیصلوں کے تابع رہنا پڑتا ہے۔ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس تینوں جماعتوں کے اِس متفقہ فیصلے سے پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے گورنر ملک کو 22نومبر کی شام کو آگاہ کیا جبکہ میلاد البنی ؐ کی چٹھی کا دن تھا۔ یہ اطلاع فیکس مشین پہ دی گئی۔ اِس اطلاع کے کچھ ہی دیر بعد گورنر ملک کو ایک اور مراسلہ ملا جس میں پیوپلزکانفرنس (پی سی) کے سجاد غنی لون نے یہ دعوہ کیا کہ اُنہیں بھاجپا کے اسمبلی ممبراں کے علاوہ 18اسمبلی ممبراں کی حمایت حاصل ہے اور وہ حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ طرفین کے دعوؤں کے بیچوں بیچ گورنر ملک نے معطل شدہ اسمبلی کو تحلیل کیاحالانکہ اُنہیں 56ممبراں پہ مشتمل پی ڈی پی، این سی اور کانگریس کی کولیشن سرکار کو یہ موقعہ دینا چاہیے تھا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر اپنی اکثریت کو ثابت کرے ۔اسمبلی کے فلور پر اپنی اکثریت ثابت نہ کرنے کی صورت میں اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکتا تھا۔سجاد غنی لون کے دعوے کو آسانی سے جھٹلایا جا سکتا تھا کیونکہ اسمبلی ممبراں میں بھاجپا کی 25اور اپنی جماعت پیوپلز پارٹی کی 2نشستوں کے علاوہ جو اُنہوں نے 18 دیگر ممبراں کی حمایت کا دعوہ کیا تھا وہ دوسری جماعتوں کے ممبراں تھے جبکہ اسمبلی میں کوئی ممبر اپنی پارٹی کو چھوڑ دے اِس کے لئے سخت مقررات ہیں جو انٹی ڈیفکشن قانون کے زمرے میں آتے ہیں۔
گورنر ملک کے اقدام کو موجودہ تناظر میں دیکھنے کے بجائے اِسے 1947ء سے آج تک اُن متعدد واقعات کے تناظر میں دیکھنا ہو گا جو ریاست میں پیش آئے اور جن میں جمہوری اقدار کو مد نظر رکھنے کے بجائے ریاستی مفادات کو مد نظر رکھا گیا ۔ جیسا کہ پہلے ہی نوٹ ہوا ہے جموں و کشمیر میں ریاستی مفادات کو دہلی کی ترجیحات میں پرکھا جاتا ہے چناچہ فیصلہ وہی ہوتا ہے جو دہلی کی فیڈرل سرکار اپنے حق میں مناسب سمجھے۔ماضی کو پرکھا جائے تو ریاستی جمہوریت پہ پہلا شبخوں 9اگست 1953ء کو مارا گیا جب شیخ محمد عبداللہ کو وزارت عظمٰی کے منصب سے بر طرف کر کے قید کر لیا گیا ۔ وزارت عظمٰی کا منصب بخشی غلام محمد کو بخشا گیا۔ شیخ محمد عبداللہ کی بر طرفی اور بخشی غلام محمد کی تعیناتی سے پہلے یہ جانچنے کی کوشش بالکل نہیں ہوئی کہ کیا اسمبلی میں شیخ محمد عبداللہ اکثریت کھو چکے ہیں ثانیاََ کیا بخشی غلام محمد کو اکثریت کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے سے پہلے ہی شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری کا حکم صادر ہوا۔ اِس گرفتاری کی نوعیت اور اُس کے پس منظر میں جو کچھ بھی ریاست جموں و کشمیر میں پیش آیا اور دہلی کے اعلی ایوانوں کا جو بھی رد عمل رہا وہ متعدد کتابوں میں تحریر ہوا ہے ۔1953ء کی افتاد کئی تاریخ دانوںاور تجزیہ نگار وں کی توجہ جلب کر چکی ہے ۔اِن تحریروں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ 1953ء میں جو کچھ بھی رونما ہوا اُس سے دہلی اور سرینگر کے بیچ کی خلیج اتنی وسیع ہوئی کہ اُسے آج تک پاٹا نہیں جا سکتا۔ بھارت میں بھی کئی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ یہ ایک واٹر شیڈ (Watershed)تھا یعنی ایک ایسی افتاد جس سے صحنہ سیاسی پہ دوررس اثرات پڑے۔
1953ء میں ریاست جموں و کشمیر میں آئین سازی کا عمل ہو رہاتھا اور آئین ساز اسمبلی میں رہبری میں تبدیلی کا مسلہ لائے بغیر ہی صدر ریاست کرن سنگھ نے شیخ محمد عبداللہ کی بر طرفی کے احکامات صادر کر دئے۔ دیکھا جائے تو عصر حاضر میں ریاستی گورنر کی مانند صدر ریاست آئینی لحاظ سے دہلی کے تابع نہیں تھا بلکہ صدر ریاست کو ریاستی اسمبلی منتخب کرتی تھی اگر چہ رسمی طور پہ اسمبلی کے چنے ہوئے صدر ریاست کو صدر جمہوریہ ہند نامزد کرتے تھے۔ 1965ء میں ریاستی آئین کی چٹھی ترمیم کے بعد صدر ریاست کا عنواں بدلا گیا اور وہ گورنر کہلائے ۔گورنر کی تقرری میں ریاستی سرکار اور ریاستی قانون سازیہ کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ گورنر رئیس جمہور ہند کا نامزد ہوتا ہے اور گورنر وہی نامزد ہوتا ہے جس کی تقرری کی سفارش مرکزی کابینہ کرتی ہے۔بہر صورت ریاست جموں و کشمیر میں چاہے ریاست کا سربراہ صدر ریاست رہا ہو یا گورنر یہاں جب بھی حکومتیں گرائی گئیں اور اُنکی جگہ نئی حکومتوں نے اقتدار سنبھالا اُن میں دہلی کی فیڈرل سرکار کا فیصلہ مقد م رہااور جمہوری قدروں کی پامالی ہوتی رہی۔ ریاست جموں و کشمیر میں 1947ء کے آخری مہینوں میں شیخ محمد عبداللہ نے ریاست کے منتظم اعلی کا عہدہ سنبھالا جبکہ ریاستی سربراہ مہاراجہ ہری سنگھ ہی رہے ۔ وزیر اعظم مہر چند مہاجن بھی اُنہی کا نامزد تھا۔ 1948ء کے ابتدائی مہینوں میں شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا جبکہ مہاراجہ ہری سنگھ مہاراجہ بنے رہے۔بظاہر ایک جمہوری دور میں موروثی بادشاہت کی بر قراری کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن یہ ہمیشہ ہی دہلی کی ترجیحات میں رہا ہے کہ جموں میں سیاسی طاقت کا ایک متوازی مرکز بنا رہے۔1949ء میں گر چہ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست چھوڑ کے چلے گئے لیکن اپنے ولی عہد، یوراج کرن سنگھ کو تاج و تخت کا رکھوالا یعنی ریجننٹ (Regent) بنا کے بمبئی چلے گئے ۔اُس کے بعد وہ واپس نہیں آئے بعد میں ریاستی قانون اساسی کے تحت جب ریاست کا سربراہ مقرر کرنے کا وقت آیا تو کرن سنگھ کو صدر ریاست بنایا گیا تاکہ سیاسی طاقت کا ایک متوازی مرکز جموں میں بنا رہے۔
کرن سنگھ اگر چہ ریاستی قانون اساسی کے تحت صدر ریاست بن گئے لیکن اُن کی وفاداریاں دہلی سے بندھی رہیں ثانیاََ وہ جموں کے مفادات کے نگہباں بھی بن گئے حالانکہ بحثیت صدر ریاست اُنہیں اپنے مقام کو مد نظر رکھ کر سیاست سے بالاتر رہنا چاہیے تھے۔شیخ محمد عبداللہ کی 1953ء میں بر طرفی و گرفتاری کے علاوہ جب ریاست میں اقتڈار کی تبدیلی کا ایک اور دور آیا تو کرن سنگھ بدستور دہلی کے احکامات کی تعمیل کرتے رہے۔1963/64ء میں موئے مقدس کو درگاہ حضرت بل کے مقام مقدس سے اٹھایا گیا۔دہلی سرکار نے اِس دلدوز سانحہ کے بعد بخشی غلام محمد کی جگہ غلام محمد صادق کو اقتدار بخشنے کی ٹھان لی ۔بخشی غلام محمد کامراج پلان کے تحت پہلے ہی مستعفی ہو چکے تھے لیکن اپنی جگہ اپنے ایک در پروردہ شمس الدین کو وزارت عظمٰی کے مقام پہ بٹھا گئے تھے ۔اسمبلی میں بخشی غلام محمد کے حمایتیوں کی واضح اکثریت کے باوجود غلام محمد صادق کی تقرری اِس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں وہی ہوا جو دہلی نے چاہا اور حکومتوں کی تبدیلی میں جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔بخشی غلام محمد نے جب دہلی کے اقدامات کی مزاحمت کی تو وہ بھی شیخ محمد عبداللہ کی مانند قید کر لئے گئے ۔کرن سنگھ بدستوردہلی کے سیاسی اقدامات کے آلہ کار بنے رہے۔
1965ء میں جموں و کشمیر کے آئین کی چھٹی ترمیم منظر عام پہ آئی ۔اِس ترمیم کی رو سے ریاست کا وزیر اعظم باقی بھارتی ریاستوں کی مانند وزیر اعلی بنا اور صدر ریاست ،گورنر کہلائے۔تنزل مقام کے اِس آئینی ناٹک میں مرکزی کرادار غلام محمد صادق کا رہاجنہوں نے دہلی کے حکمرانوں کی نمک حلالی میں اپنے ہی تنزل مقام کو اپنے ہی ہاتھوں سے ادا کیااور ایسے میں دہلی کے آشیرواد کی قیمت چکالی۔ شومئی قسمت جہاں ریاست کے پہلے اور آخری صدر ریاست کرن سنگھ رہے وہی وہ پہلے گورنر بھی مقرر ہوئے۔اپنی سوانح حیات میں اُنہوں نے اقتدار کے تغیر و تبدل کو کئی ٹوپیاں (Hats)پہننے کا عنواں دیا ہے۔وہ ریجنٹ سے صدر ریاست اور صدر ریاست سے گورنر بنے۔ایسا کشمیر کے مد مقابل جموں کی متوازی لائن بنائے رکھنے کے لئے کیا گیا۔ ریاست آئین کی چٹھی ترمیم کے مرکزی کرادار غلام محمد صادق کے مد مقابل سید میر قاسم رہے لیکن اِس سے پہلے کہ انتقال قدرت کا ایک اور ناٹک رچایا جائے غلام محمد صادق انتقال کر گئے۔میر قاسم 1971ء کے آواخر سے 1975ء کے اوائل تک تین سال اور کچھ مہینے وزیر اعلی رہے۔اِس دوراں روٹھے ہوئے ساتھی شیخ محمد عبداللہ کو منانے کا سیاسی دور چلتا رہا لیکن روٹھننے منانے کا یہ عمل ایک سونگ ثابت ہوا کیونکہ شیخ محمد عبداللہ نے پرانی تنخواہ سے بھی کم تنخواہ پر کام کرنے کی حامی بھر لی۔پہلے تو 1953ء کی پوزیشن پہ واپسی کا تقاضا ہوا لیکن کہا گیا کہ گھڑی کی سوئیاں نہیں موڑی جا سکتی پھر خبر آئی کہ پرائم منسٹر نہیں تو کم از کم وزیر اعظم کا خطاب عطا ہولیکن یہاں بھی انکار ہوا ۔انجام کار جب شیخ محمد جو ایک زمانے میں وزیر اعظم تھے وزیر اعلی مقرر ہوئے تو وہ ایک ایسی اسمبلی کے لیڈر بنے جہاں اُنکا کوئی ممبر نہیں تھا لیکن دہلی کی ڈگڈگی کام آئی چونکہ اسمبلی کی ساخت میں عوام کا رول نہ ہونے کے برابر تھا اسلئے نہ چوں ہوئی نہ چرا اوردہلی انتقال قدرت کا ایک اور کرتب عملایا گیا۔
شیخ محمد عبداللہ کی جانشینی کا شرف اُنکے فرزند فاروق عبداللہ کو حاصل ہوا اور اُنہیں دہلی کا آشیر واد حاصل رہا لیکن جب فاروق عبداللہ اقتدار کے نشے میں یہ بھول گئے کہ دہلی کا آشیرواد تب تک ہی حاصل رہتا ہے جب تک کہ دہلی میں بر سر اقتدار پارٹی کے زیر سایہ کام کرنے کی حامی بھر لی جائے۔فاروق عبداللہ نے بھارتی حزب مخالف کے ساتھ ناطہ جوڑنے کی غلطی کی۔ایجنسیوں نے اپنا کرتب دیکھایا اور اُنکے 14 ممبر اسمبلی غلام محمد شاہ کے حامی بن گئے۔ نیشنل کانفرنس کے بھگوڑے ممبراں کانگریس کی حمایت سے غلام محمد شاہ کی سر براہی میںحکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ۔یہ حکومت ڈیڑھ سال چلتی رہی اور اِس دوراں فاروق عبداللہ نے اندرا گاندھی کے فرزند راجیو گاندھی سے سیاسی ناطہ جوڑ لیا اور گورنر راج کے ایک عبوری دور کے بعد وہ کانگریس کی حمایت سے ایک کولیشن سرکار کے وزیر اعلی بنے۔اِسی دوراںسیاسی میداں پہ جنگجو چھا گئے اور پچھلی کم و بیش تین دَہائیوں سے سیاسی فضا میں ایک واضح تبدیلی نظر آئی ہے گر چہ دہلی نے اپنی گرفت بنائے رکھی ہے۔
1990ء میں اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ مستعفی ہوئے اور گورنر راج کے ایک لمبے دور کے بعد 1996ء میں ایک اور اسمبلی انتخابات میں جس میں لوگوں کی شرکت نہ ہونے برابر تھی، فاروق وزیر اعلی بنے۔21؍ویں صدی کی شروعات میں کشمیر کی مین اسٹریم سیاست میں سیاسی سپیس کا بٹوارہ ہوا ۔ کئی تجزیہ نگاروں کی رائے میںسپیس کے بٹوارے میں بھی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ کا رفرما تھا۔2002ء سے 2014ء کے انتخابات تک کشمیر کی علاقائی تنظیموں نے قومی سطحوں کی جماعتوں کانگریس اور بھاجپا کے ساتھ حکومتیں تشکیل دی گئیںجس سے وہ کشمیری مفادات کے موثر دفاع سے محروم ہوئے۔ پچھلے دنوں جو نہی کشمیری علاقائی جماعتوں نے ایک کولیشن سرکار بنانے کی ٹھان لی تو اسمبلی آناً فاناًتحلیل کر لی گئی جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بٹی ہوئی سیاسی سپیس میں ہی دہلی میں ارباب اقتدار اپنا فائدہ پاتے ہیںاور یہ سیاسی میدان میں سلسلہ جاریہ بنتا جا رہا ہے۔
Feedback on: [email protected]