بی جے پی کی چھتر چھایا میں جموں کشمیرمیں مجوزہ تھرڈ فرونٹ کا معرض وجود میں آجانا ریاست کی داستانِ الم کا ایک اور منفی باب ثابت ہوگا ۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ مرکز کے تمام تر منفی اپروچ کے پس منظر میں تین جماعتوں (کانگریس، پی ڈی پی اور این سی) کی ایک بے ڈھنگی سی حرکت کے نتیجے میں ریاست کی اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکاہے اور آگے چل کر یہ قدم سہ پارٹی مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آنے سے کئی درجہ بہتر نتائج کا سبب بن جائے گا۔ ابھی تو بھارت بھر کے دانشوروں کی نظر میں برسر اقتدار بی جے پی کے وقار کو زبردست ٹھیس پہنچی ہے اور اس ضمن میں ابھی سے کئی طرح کے دوسرے سوالات اُبھرنے لگے ہیں۔ بی جے پی کے لئے یہ امر ایک زبردست دھچکا ہے کہ اسمبلی کو ۱۵؍ نومبر کی تاریخ تک تحلیل کرنے سے منکر گورنر ستیہ پال ملک نے ۲۱؍ نومبر کی رات کے اندھیرے میں کارروائی کرکے اس پر یکایک تیار ہوئے ،اور بیک جنبش قلم اسمبلی کو چھ مہینے کی تاخیر سے تحلیل کرڈالا۔ اب گورنر صاحب کا کہنا ہے کہ پچھلے پندرہ دنوں سے اُنہیں ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں اطلاعات موصول ہورہی تھیں لیکن گورنر صاحب جانتے ہی ہوںگے کہ اسمبلی دلی کی ہو یا گوا کی، تحلیل رہنے کی صورت میں ہارس ٹریڈنگ کا ہی سنٹر بن جاتی ہے، پھر اسمبلی کو مفتی سرکار کو چلتا کرنے کے ساتھ ہی تحلیل کیوں نہیں کیا گیا تھا؟مزید برآں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گورنر صاحب کوآخر کیا جلدی پڑی تھی کہ اُنہوں نے ۱۵؍ نومبر کو اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا بیان دیا تھا۔کچھ لوگوں کے اس سوال میں بھی دَم ہے کہ پنچایتی انتخابات کے پہلے ہی مرحلہ پر جب وزیر اعظم شری نریندر مودی کو کشمیر میں بندوق پر صندوق کی فتح دکھائی دی تھی اور جب کچھ ہی دن بعد ۲۱ ؍نومبر کو ریاستی سطح پر بھارتی جمہوریت کا پودا حکومت سازی کی صورت میں پھر سے پنپنے لگا تھا، تو وزیر اعظم نے اپنی پارٹی لیڈران کو جمہوریت کی بحالی کے کام میں روڑے اٹکانے سے کیوں نہیں روک لیاتھا ؟ شتروگھن سنہا کو چھوڑ کر بی جے پی کے سبھی نیتا کہیں اس معاملے کو فرقہ واریت کی عینک سے دیکھتے ہیں اور کہیں اس میں پاکستان کا ہاتھ ہونے کی دہائی دیتے ہیں۔ اُن کے یہ عذرات کہ سہ پارٹی ریاستی حکومت مسلم ووٹ کا عکاس ہوتی اور اس میں جموں ریجن کو نمائندگی نہیں ملتی، کس حد تک مضحکہ خیز ہے اور جمہوریت کی توہین ہے ۔ مان لیجئے کہ آگے چل کر اسمبلی انتخابات میں سب کے سب ہندو اُمیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں، تو کیا اُن کو حکومت بنانے کے حق سے محروم رکھا جائے گا؟ا گر آئی ایس آئی اور پاکستان کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ مداخلت گورنر پلان کے تحت منعقدہ بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کے دوران کہیں بھی کیوں نظر نہیں آئی؟ اور جب بالفرض بھاجپا کونظر آئی بھی تھی تو این سی اور پی ڈی پی کی بائیکاٹ کال تک ہی کیوں محدود کردی گئی تھی؟ اب مداخلت کا یہ ہاتھ اچانک طور راتوں رات بی جے پی عمارت پر کیونکر لہراتا دکھائی دیتا ہے؟ اور غریب سجاد لون اسی مداخلت کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کی کرسی کو گلے لگانے سے کیوں رہ گیا ؟ یہ تو ’’چت بھی میری، پٹ بھی میری‘‘ جیسا معاملہ ہے ۔ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات کی عمل آوری کے دوران بی جے پی قائدین کے سامنے جموں کشمیر کی سیاسی و سلامتی نازک صورت حال سے متعلق اب کئی ایک سوال اُٹھا ئے جاسکتے ہیں۔ ابھی اگر جمہوری عمل کا اچانک طور گلا گھونٹنے کا یہ معاملہ عدالت عظمی کی کاروائی کا حصہ بن جاتا ہے تو مرکزی سرکار کے پاس اپنا دفاع کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہوگی۔ اغلب یہی ہے کہ سپریم کورٹ دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ الف مقدمات پر ریاست میں نئی اسمبلی منتخب ہوجانے تک کاروائی التوا ء میں رکھنے کا فیصلہ سنائے گی ۔ ہمارے یہاں کچھ حلقوں کی طرف سے بھی دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ الف کی افادیت پر بے جا قسم کے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ وہ دراصل اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بھاری بھرکم اہمیت کی وجہ سے ہی ان دفعات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے حریت کانفرنس اور سرینگر بار ایسوسی ایشن پہلے سے ہی میدان میں ڈَٹے ہوئے ہیں اور بار ایسوسی ایشن کے ممبران پچھلی دفعہ سپریم کورٹ کی کارروائی میںسرگرم حصہ لینے کیلئے وہاں حاضر بھی رہے تھے ۔سجاد لون بی جے پی کی حمایت سے قانون سازیہ پر قابض ہوکر شاید ہی دفعہ ۳۷۰ ؍اور ۳۵؍ الف کو کمزور کرنے یا پھر سرے سے ہی ہٹانے کا محرک بن پاتا کیونکہ ان دفعات کے ساتھ ریاستی عوام کو ایک جذباتی وابستگی کو کوئی بھی دانا وفہمیدہ سیاست دان نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ نیز اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ ریاست میں نافذ خصوصی پوزیشن کا حامل، کسی بھی قانون کو حذف کرنے یا اس میں ترمیم لانے کیلئے ریاست جموں کشمیر کی قانون سازیہ کی رضامندی ضروری بن جاتی ہے۔ ۳۷۰ ؍اور ۳۵ ؍الف دفعات کو ہٹانے کے حق میں مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی حکومت کے ارادے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سجاد لون وزیر اعلیٰ کی کرسی حاصل کرنے کیلئے جی ایم صادق کا کردار نبھانے کیلئے تیار بھی بیٹھے مگر اس کی قیمت چکانے کی وہ بھی ہمت نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے پی ڈی پی، کانگریس اور این سی نے بروقت کاروائی کرکے سجاد لون کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ہے۔ بہر کیف بی جے پی اپنے اس پیادے کے ناکام ہوجانے پر سیخ پا ہوچکی ہے اور اپنی شرمندگی کو کبھی فرقہ واریت اور کبھی پاکستان اور آئی ایس آئی کے جاموں میں چھپانے کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ اپنے علاقے کے ساتھ محبت کرنے کیلئے ہم سب کیلئے لداخ کے بی جے پی ممبر پارلیمنٹ تھپسن چیوانگ کی قربانی مشعل راہ ہوگی۔ چیوانگ جی نے اپنے حلقہ ٔ انتخاب کے عوام کے در ماندہ مسائل کو لے کر کچھ دن قبل اپنی نشست سے استعفیٰ دیا ہے۔چیوانگ جی نے جب تک مستعفی ہوجانے کی وجوہات کو چھپائے رکھا تھا، بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر رینہ اس قربانی کو چیوانگ کی روحانیت کا کرشمہ قرار دے رہا تھا۔ رینہ کی اس نا سمجھی پرتھپسن چیوانگ بھڑک اُٹھے اور اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کو دئے گئے وعدوں کو پس پشت ڈالے جانے کاکھلے عام رونا رویا۔تھپسن چیوانگ نے کہا کہ جب اُن کے ہوتے ہوئے حکومت اور اُن کی پارٹی نے چار سال کے عرصے کے دوران بھی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا، اُس کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں کے ممبرانِ پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو تھپسن چیوانگ کی اس سوچ اور اس قربانی سے اپنے لئے کوئی سبق سیکھنا چاہے۔ عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر بچوں جیسی پوسٹیں لکھنے کے بجائے اپنے اجتماعی مفادات کی حفاطت کرنے کا طریقۂ کار اختیار کریں اور گھڑی گھڑی اپنے ممبران کی توجہ کشمیر کی بقا ء اورخصوصی انفرادیت کو مضبوط بنانے کی طرف مبذول کراتے رہیں۔ اب جب کہ ہمارے اس مشترکہ کاز کے اصل مخالفین کی پہچان ہوگئی ہے، ہمیں اس کا توڑ کرنے اور جموں کشمیر ریاست کو حاصل حقوق اور پوزیشن کو مستحکم بنانے کیلئے انتھک اور کارآمد کام ہر سطح پر کرنا چاہیے۔
اسمبلی تحلیل کرنے کے موضوع پر ابھی کچھ دنوں تک بحث مباحثہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ جموں کشمیر میں اسمبلیوں کے بننے اور بگڑنے کی تاریخ کے کئی رنگ ہیں۔ ۱۹۵۳ء کا وہ قصۂ پارینہ یاد کیجئے ، بھارتی آئین کی توثیق سے قائم وقت کی ریاستی حکومت پر امریکہ کے ساتھ سازباز کرنے کا الزام عائد کرکے اس کی بیخ کنی کی گئی تھی لیکن ایک عشرہ بعد جب بھارت کے ہی آئین کے تحت قائم عدلیہ نے اس الزام کو غلط ثابت کردیا تھا تو جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کہاں شرمندہ ہوگئے تھے؟ ہماری آج کی نوجوان نسل نے جمہوریت پر شب خون کے ۱۹۸۴ء کے واقعہ کے بارے میں کچھ سنا ہو یا پھر اخبارات میں کبھی پڑھا ہولیکن تھا وہ ایک بڑا عجیب واقعہ۔ لوگوںنے بڑے چائو سے ۱۹۸۳ء کے انتخابات میں حصہ لے کر فاروق عبداللہ کی حکومت کو دو تہائی ممبران کی حمایت دلائی تھی لیکن اندرا جی کشمیری عوام کی امن پسندی سے پھر بھی خوش نہیں تھی۔ اُس نے اقتدار کیلئے مضطرب مفتی سعید کو مختار کل بناکر ’’جو مرضی ہے، کرلے‘‘ کے حکم نامہ سے نوازا، پھر ہوئی شروع پس پردہ بکاؤ کاروائی۔ اندرا جی کے کچن کابینہ میں لنگر انداز عارف خان، ارون نہرو اور مکھن لال فوطیدار سب مل کر مفتی کے پشت پناہ بنائے گئے تھے ۔ گورنر بی کے نہرو کو حاضر ہو جانے کا فرمان ملا لیکن گورنر صاحب نے حاضر ہوتے ہی جواب دیا کہ وہ پُر امن کشمیری عوام کی اُمنگوں کے خلاف کوئی ایکشن کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ بی کے نہرو نے اپنی خود نوشتہ ٔحیات میں بھی اس واقعہ کا حوالہ دیا ہے۔ اُن کا فوراً ہماچل کیلئے تبادلہ ہوا۔ مفتی نے دلی کی سڑکیں سجانے پر مامورجگموہن کو نئے گورنر کے عہدے کیلئے تجویز کیا، کیونکہ شیخ عبداللہ نے ۱۹۷۵ء کے ایمرجنسی دور میں پرانی دلی کے مسلمانوں پر سختیاں کرنے پر جگموہن کو کھری کھری سنائی تھی۔ جگموہن کو ’’ وائی ڈِڈ یو مڈی مائی واٹر‘‘ کے فارمولہ کے تحت باپ کا بدلہ بیٹے سے لینے کا اجازت نامہ ملا تھا ۔ لہٰذا گورنر ہوتے ہی فاروق حکومت کو سازشیں کر کے چاروں شانے چت کردیا۔ فاروق عبداللہ کے حامی پندرہ کے آس پاس ممبران اسمبلی پر زور زبردستی کرکے اور لالچ و طمع سے نواز کر رات بھر کیلئے ایک بزنس ہاؤس میں بند رکھا گیا۔ صبح سویرے چیف منسٹر کو قصر گورنری بلایا گیا۔ چیف منسٹر کا اسمبلی اجلاس بلاکر فلور آف دی ہاؤس پر اکثریت اور اقلیت کا سوال حل کرانے کا مطالبہ غیر آئینی تھا نہیں لیکن گورنرجموں و کشمیر جگموہن اور اُس کی درباری شان میںکستا خی! یہ سب کہاں برداشت کیا جاتا؟ اُس نے آگے آگے جاتے چیف منسٹر کے پیچھے پیچھے ڈِسمسل کا حکم نامہ روانہ کردیا۔ جمہوریت کا اس طرح سے قتل کئے جانے پر کون نہیں بپھرجاتا۔؟کشمیری عوام کیلئے دلی سرکار کے ہاتھوں یہ دوسری بڑی توہین تھی اور تبھی سے کشمیری قوم آوٹ لاء قرار دئے گئے ہیں۔ڈسمس ہوئے چیف منسٹر فاروق پر لازم تھا کہ وہ اپنے بپھرے عوام کے جذبات کی صحیح رہنمائی کرتے لیکن وہ پھر سے اقتدار کے جال میں پھنس گئے۔ دلی نے اس وفا کا یہ صلہ دیا کہ ۱۹۸۹ء میں اقتدار سے ایک بار پھر محروم کردیا،کیونکہ فاروق عبداللہ نے تب کے مرکزی وزیر داخلہ مفتی سعید کے کشمیر پر افسپا نافذ کرنے اور جگموہن کو دوبارہ گورنر کے عہدے پر فائز کرنے کے پلان کو کلی طور مسترد کردیا ، مگر اب مرکزی حکومت کی جابرانہ کشمیر پالیسیوں کے خلاف بندوق کا جاریہ دور شروع ہوگیا تھا اور سب کچھ تہس نہس ہوچکا تھا۔ جگموہن نے اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی قتل و غارت گری کا بازارگرمایااور بازاروں، گلیوں اور کھیت کھلیانوں میں خون کی ندیاں بہانی شروع کردی تھیں۔ درجنوں خونین معرکوں میں معصوم عوام کو یک بار درجنوں کے حساب سے مارا گیا۔ قتل و غارت گری کی یہ گرم بازاری جب بھی نرم پڑی تو کسی نہ کسی سازش کو پروان چڑھا کر اسے دوبارہ گرمایا گیا۔ آخری بار ۲۰۱۴ء کے اسمبلی انتخابات کا سٹیج سجاتے ہوئے مفتی سعید نے پھر سے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا۔ انہوں نے اپنی پی ڈی پی کے لئے لوگوں سے یہ کہہ کر ووٹ لیا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو جموں کشمیر کے دروازے پر ہی روک لیں گے۔ لوگوں نے اسی تیر بہدف جھانسے میں پھنس کر ووٹ دئے،مگر مفتی نے اسی ووٹ کو بھاجپا کے مشن کشمیر کا دروازہ کھولنے کیلئے بطور چابی استعمال میں لایا۔ مفتی کو اپنے لئے عیش و آرام اور چند روزہ اقتدارکی دنیا بسانے سے غرض تھی۔ دنیا سے اُن کی رخصتی کے بعد اُن کی دختر محبوبہ مفتی نے اقتدار سنبھالا۔ تب سے ناگفتہ بہ حالات اور حوادث کی لہورنگ تاریخ نے جو جو کروٹیں بدلیں اور بدل رہی ہے ، کشمیر میں ا س سے ہر کوئی واقف ہے۔ آگے المیوں کی یہ تاریخ اور کیا کیا رنگ بد ل کر اپنے چکلے چوڑے سینے میں درج کرے گی ، اس کاانتظار کیجئے ۔