سشمیتا
جموں//مرکزی وزارت داخلہ نے جموں و کشمیرچیف سکریٹری اتل ڈلوکو اسلحہ لائسنس کیس میں سابقہ جموںوکشمیرکیڈر کے تین انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس افسران کے خلاف استغاثہ کی تجویز دوبارہ جمع کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزارت داخلہ نے 21 فروری 2025 کو اپنے خط میں چیف سکریٹری سے کہا کہ اس کے خط کی وصولی کا ایک ہفتہ کے اندر وہ “یشا مدگل(AGMUT: 2007)، ڈاکٹر شاہد اقبال چودھری (AGMUT: 2009) اور نیرج کمار(AGMUT: 2009) کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری کے لیے مکمل تجاویز پیش کریں۔وزارت داخلہ کے خط کے مطابق، متعلقہ انکلوژرز میں’’ڈی وی ڈیز کے ساتھ ایف آئی آرزکی تصدیق شدہ کاپیاں ،انکشافی بیانات،گواہوں کے بیانات،ریکوری میمو؛ تحقیقاتی رپورٹ، تحقیقاتی رپورٹ کا مختصر خلاصہ، منظوری کے حکم کا مسودہ،ملزم افسر کی طرف سے دفاع کا تحریری بیان اور تحقیقاتی آفیسرکے مخصوص تبصروں کے ساتھ اس کے دلائل کو رد کرنے کے دلائل ،محکمہ قانو ن کی رائے اور اتفاق اور 28جولائی 2014 کو ڈی او پی ٹی کے او ایم میں یوٹی ڈویژن، وزارت داخلہ کے ساتھ منسلک چیک لسٹ صحیح طریقے سے شامل ہونا چاہئے‘‘۔اس موضوع پر جموں و کشمیر انتظامیہ کے 27دسمبر 2024 کے خطوط (CC:7552508 اور CC: 14842) کا حوالہ دیتے ہوئے، وزات داخلہ کے انڈر سکریٹری سی پی ونود کمار نے کچھ گمشدہ دستاویزات کا تذکرہ کیا، جو انہوں نے کہا کہ ان (خطوط)کے ساتھ منسلک نہیں پائے گئے۔ گمشدہ دستاویزات میں سی بی آئی کا 23 جولائی 2024 کا خط اور ڈی وی ڈی شامل تھی۔ قانونی رائے مورخہ 8 جولائی 2024، چیک لسٹ اور ڈی وی ڈی سی بی آئی کے خط یا تجویز کے ساتھ 1 اکتوبر 2020 کو منسلک ہے۔قبل ازیں وزارت داخلہ نے اپنے 12 فروری 2025 کے خط میں، جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ آئی اے ایس افسران ایم راجو اور پرسنا راما سوامی جی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری کے لیے سی بی آئی کی تجاویز ا اسی معاملے میں لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامی منظوری کے ساتھ س (وزارت داخلہ ) کو بھیجیں۔اس موضوع پر جموں و کشمیر انتظامیہ کے 27 دسمبر 2024 کے خطوط (CC: 7537079 اور 7184683) کا حوالہ دیتے ہوئے (اسلحہ لائسنس کیس میں آئی اے ایس افسران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری)، وزارت داخلہ کے انڈر سکریٹری راکیش کمار سنگھ نے ہدایت کی کہ “سی بی آئی کی اس وقت کے ڈی ایم کرگل ا یم راجو،اس وقت کے ڈی ایم لیہہ پرسانا راما سوامی کے خلاف استغاثہ کی منظوری کی تجاویز کو لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامی منظوری کے ساتھ وزارت داخلہ کو بھیجا جا سکتا ہے‘‘۔وزارت داخلہ نے 2 جنوری 2025 کے اپنے (عدالت) کے حکم کی تعمیل میں شیخ محمد شفیع اوردیگران بمقابلہ یونین آف انڈیا اور دیگر کے معاملے میں جموں و کشمیر اور لداخ، جموں کی ہائی کورٹ کے سامنے دائر اپنی سٹیٹس رپورٹ میں اس کا انکشاف کیا ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے 27 دسمبر 2024 کو اپنے چار خطوط کے ذریعے بندوق کے لائسنسوں کے دھوکہ دہی سے جاری کرنے کے سلسلے میں اور کسی بھی قسم کے فوائد کے بدلے میںسابقہ جموںوکشمیرکیڈر کے ان پانچ آئی اے ایس افسران کے خلاف “مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کی تجویز” بھیجی تھی‘‘۔وزارت داخلہ کے خط کے مطابق، جموں و کشمیر حکومت کے جواب کا انتظار تھا۔قبل ازیں، جموں و کشمیر حکومت کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ (جی اے ڈی) نے 27 دسمبر 2024 کی اپنی اسٹیٹس رپورٹ کے ذریعے، جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کو اس معاملے میں مطلع کیا تھا کہ جموں و کشمیر حکومت نے 27دسمبر 2024 کو اپنے خیالات اور تبصرے وزارت داخلہ کو تین آئی اے ایس افسرو ں شاہد اقبال چودھری ،یشا مدگل اور نیرج کمار کے بارے میں حتمی فیصلہ لینے کے لئے بھیجے ہیں۔ اسٹیٹس رپورٹ میں، یہ بھی کہاگیاہے کہ آئی اے ایس آفیسر پی کے پولے کے تعلق سے، جموں و کشمیر کے یوٹی کے خیالات اور تبصرے مرتب کیے جا رہے تھے اور یہ جانچ کے حتمی مرحلے میں تھے۔آئی اے ایس افسر پرسنا راماسوامی کے تعلق سےیہ کہاگیا کہ چونکہ یہ واقعہ لداخ کے دائرہ اختیار میں ہوا ہے، اس لیے اس معاملے میں رائے دینے کے لیے دائرہ اختیار کے پہلوؤں کے حوالے سے مزید جانچ کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں27دسمبر 2024 کو خط زیر نمبرGAD-VIGOSP/74/2024-09-GAD (C No 7537079) محرر27دسمبر2024 وضاحت کے لیے وزارت داخلہ کو بھیجا گیاتھا ۔آئی اے ایس افسر ایم راجو کے حوالے سے اسٹیٹس رپورٹ میں بھی اسی طرح کے خیالات کا حوالہ دیا گیا تھا اور جی اے ڈی نے بھی 27 دسمبر 2024 کو عدالت کو وضاحت کے لیے وزارت داخلہ کو اپنا مکالمہ پیش کیا تھا۔آئی اے ایس افسران جتیندر کمار سنگھ (اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کٹھوعہ)، پرسنا راماسوامی (اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کٹھوعہ) اور رمیش کمار (اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کٹھوعہ) کے تعلق سے یہ کہاگیا تھا کہ یہ معاملہ جی اے ڈی کے زیر غور ہے۔کیس کی اگلی سماعت 20 مارچ 2025 کو ہوگی۔سی بی آئی کو یہ معاملہ 2017 میں اس وقت کے گورنر این این ووہرا نے سونپا تھا۔ سی بی آئی کے مطابق 2012سے2016کے درمیان جموں ڈویژن میں تقریباً 1.53 لاکھ اسلحہ لائسنس اورکشمیر ڈویژن میں تقریباً 1.21 لاکھ کو اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس نے مبینہ طور پر جعلی دستاویزات پر مالیاتی منافع کے عوض جاری کی تھیں۔