آج کل متعصب میڈیا کے مخصوص حصے میں روز مسلمانوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی منفی پر وپگنڈا کیا جاتاہے ، اس سلسلے میں جہاں سہ طلاق اور مسلم کمیونٹی کے دیگر عائلی قوانین کے بارے میں زبان کے چٹخاروں میں فتوے دئے جاتے ہیں، وہاں مسلم خواتین کے ساتھ جھوٹی ہمدردیاں جتاکر اُن کی تصویر ایسی پیش کی جاتی ہے جیسے سب مسلمان اپنی ماں بہن بیٹی اور شریک حیات کے پیچھے لٹھ لئے دوڑ رہے ہیں اور یہ بچاری عورتیں چیخ وپکار کر رہی ہیں ہائے ٹی و ی چنل والوں ، ہائے عدالتوں ، ہائے آر ایس ایس سیکوں، ہائے گئو رکھشکوں، ہائے مودی ، ہائے ساکھشی مہاراج ہمیں ظلم وستم سے بچاؤ !!! اسی ناٹک بازی کے ایک حصے کے طور عورت کے حقوق اور مردوزن میں کامل مساوات کے تعلق سے زور و شور سے بحث ومباحثے جاری ہیں۔ ان مباحثوں میں حقوقِ نسواں کے نام پر سرگرم بعض چنیدہ مہاشئے خواہ مخواہ اسلام کو بیچ میں لاکر ایسی لایعنی اور فضول باتیں کہتے رہتے ہیں جن سے تعصب کی بُو اور تنگ نظرسوچ کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں جھلکتی۔ ان میں بعض شرارتا ًیہ بکواس جھاڑتے ہیں کہ اسلام کو بقول ان کے مرد اور عورت میں مساوات تسلیم نہیں، بعض اپنی جہالت اور کم علمی کے باعث یا دانستہ طور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ اسلام کوعورت کا دشمن جتلایا جائے ۔ حق بات یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو اپنے فطری حدود کار میں قابل رشک رتبہ دیا ہے، حقوق دئے ہیں، عزت دی ہے ، وقار دیا ہے، جینے کا قرینہ دیا ہے، وراثت کی حصہ داری دی ہے، تعلیم وتدریس کی ترغیب دی ہے ، جنت کی بشارت ہی نہیں بلکہ خود اسے جنت کا دروازہ ہونے کا شرف دیا ہے ، جب کہ دوسرے مذاہب ، تہذیبوںاور افکار ونظریات نے عورت کو کھلونا ، داسی اور دائی سے زیادہ مقام نہیں دیا ہے،عورت کو مرد کی حیوانی خواہشات کی تسکین کاسامان اور بچے پیدا کرنے کی ایک مشین بن کر رکھا ہے، بے توقیری کر تے ہوئے اسے تمام فسادات کی جڑ اور شیطان کا آلہ ٔ کار تک بتایا ہے ، کبھی سیتا ماں کی اَگنی پریکشا سے گزارا ہے اور کبھی دروپدھی کی چادر بن کر بے حرمتی کی ہے ، اسے شوہر کی موت پر ستی ہونے یعنی اس کی چتا پرزندہ جل مر جا نے کا آدیش سنناپڑا ہے ، بیوہ ہونے کی صورت میں اُسے دوسری شادی کے حق سے محروم رکھا ہے ، اُسے مرد کے شانہ بشانہ ایک انفردی حیثیت کی مالکن نہیں بلکہ شوہر کی ذاتی جائیداد بنا دیا ہے ، نتیجہ یہ کہ ان معاشروں میں مرد عورت کا حاکم ہونے کے ناطے زندگی کے ہر میدان میں اس پر اپنی بالادستی کی دھونس جما لینے کا لامحدوداختیار پالیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب ہم اسلام کی نگاہ میں عورت کا مقام ، اس کا انفردای تشخص اور ا س کی معاشرتی شناخت کا اعلیٰ وبالا درجہ دیکھتے ہیں تو طبقہ ٔ نسواں کی بااختیاری پر رشک آتا ہے۔
قدیم جاہلیت کے حامل جدید ملحدانہ افکار و نظریات کے پرچارک عورت کے تعلق سے اپنے موروثی جرائم اور گناہوںپر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ خاص کر اسلامی نظامِ زندگی کے تحت عورت کو حاصل بلند درجے کی جان بوجھ کر اَن دیکھی کر کے مسلم خواتین کو مظلوم ، کم ترین مخلوق اور پسماندہ گردانتے ہیں۔ ان کا الزامات کی فہرست بھی قابل دادہے کہ مسلم خاتون شادی کے بعد شوہر کے زیرکفالت ہو کر اس کی غلام ہوتی ہے، اس کے خاوند کو ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنے کے اجازت ہے، وہ بیوی کو طلاق بھی دے سکتا ہے، بیوی کو پردے کے جھنجھٹ میں قید کر کے رکھا جاتا ہے، اس کے معاشی حقوق سلب کئے جاتے ہیں، اس کے آزادیٔ اظہارِ پر قد غن لگائی جاتی ہے، اس سے معاملات ِ زندگی میں کوئی رائے نہیں لی جاتی اور گھر گر ہستی کے فیصلوں میں بھی اسے اعتماد میںلیا نہیںجاتا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اسے صرف گھر کی چار دیواری کے اندر قید کر کے رکھا جاتا ہے۔ یہ سب جھوٹ کا پلندہ اور برہنہ حقیقتوں کی حماقت آمیز تردید ہے ۔
اسلام کے خلاف ان بے معنی اعتراضات اور سخن سازیوں کی ا بتداء اصل میں اٹھارویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی ۔ ا س دور میں اہل اسلام چونکہ مغلوب تھا، یور پ کی سامراجیت مسلم دنیا میں اپنے عروج پر تھی ،اس وجہ سے اسلام کے خلاف عیسائی مشنریوں نے صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے اور عیسائیت کے نشر واشاعت کے لئے اپنی زہر افشانیوں میںکوئی کسرباقی نہ رکھی ۔ قبل ا زیںیورپ پاپائیت کے شکنجے میں کسا ہوا تھا اور چرچ کی دقیانوسیت نے لوگوںکی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دی تھی۔اس دور میں مغرب کے فلاسفہ اور علماء ، دانش ور اور اہل ادب نے تنگ آکر عیسائی مت کی اصلاح کی آوازیں بلند کیں کیوںکہ انہیں دراصل ایک ایسے نظامِ تمدن سے سابقہ در پیش تھا جس میں طرح طرح کی جکڑبندیاں تھیں، جو عقل وفہم کا باغی تھا ، جو کسی پہلو سے لوچ اولچک نام کو بھی نہ رکھتا تھا، جو غیر معقول رواجوں ، جامد قاعدوں اور عقل و فطرت کے خلاف صریح تناقضات سے لبریز تھا۔ اس صورت حال میں چرچ کے خلاف بغاوت کا نعرہ عام ہو گیا۔ چرچ کی جکڑ بندیوں کے مقابلے میں شخصی آزادی کا ایسا انتہا پسندانہ نعرہ لگ کیا کہ فرد ہی مختار کل مختاربن گیا۔ چونکہ مغرب کی عورتوں کو بھی کلیسا نے احمقانہ پابندیوں میں کسا تھا، پاپائیت کے خلاف ہوکرانہیں بھی جدیدیت کے نام سے اپنی بے لگام آزادی مانگنے کا بہانہ مل گیا۔ کہا یہ جانے لگا کہ سماج ہو یا کوئی ادارہ، حکومت ہو یا کوئی مذہب، ان میں سے کسی کو بھی کسی سے اس کی انفرادی’’ آزادی‘‘ چھین نہیں سکتا۔ چرچ کے خلاف اس بغاوت کوسائنس اور ٹیکنالوجی کی کمک ملی تو کلیسا کواس کے ذریعے پچھاڑ نے کے بعد مغرب نے تمام مذاہب کو نہ صرف للکارا بلکہ کمیونزم کی شکل میں ا س نے مذہبی اقدار وعقائد کی توہین وتضحیک بھی شروع کی ۔ اسے اپنی الحاد ی فکر کو پھیلانے اور اپنی مادر پدر آزاد تہذیب کا سکہ دنیا میں چلانے کے لئے خاص کر اسلام کے خلاف بے ہودہ ہرزہ سرائیوں اور کذب بیانیوں کا سلسلہ و ار آغاز کر نا پڑا کیونکہ اسے یہ احساس ڈستا رہاکہ صرف اسلام میں مغربیت کا مردانہ وار مقابلہ کر نے اور خدائی ا صولوں کی اَساس پر جینے اور دنیا چلانے کی ناقابل تسخیرداخلی قوت موجود ہے ۔ اسلام کو مغربیانے کے لئے فتنہ پرور گوروں نے کیا کیا نہ کیا ، مساوات مردوزن کا نعرہ دیا ، مسلم خواتین کو بے حجاب ہونے کی ترغیبات دیں ، آزاد خیالی کی اپنی برہنہ و ناپاک دنیا کو مسلم معاشروں میں چلن دینے کے لئے مسلمانانہ نام رکھنے والے اپنے زرخرید ’’ترقی پسند‘‘ مریدوں کو اختیارات کی مسندیں دیں ، مصطفی کمال اتاترک اور کر نل ناصر جیسے اسلام دشمن آمروں کے ساتھ ساتھ ایسے نام نہاد دانش وورں اور علماء کو مسلم اُمت پر مسلط کیا جنہوں نے ترقی پسندی کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی عقائداور افکار کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن اسلام سے مغرب کو منہ کی کھانا پڑی، مسلمانوں کے عقیدتی اور معاشرتی نظام کو اندر سے توڑنے کے اپنے نامراد مشن میں ناکام ہوکر مغرب نے کھل کر اسلام کے خلاف جنگ وجدل کو’’ تہذیبوں کے تصادم ‘‘کے نام سے جاری رکھا ہوا ہے جس کے تباہ کن اثرات مسلم ممالک میں اپنی وحشتوںا ورخون آشامیوںکے ساتھ تا حال مر تب ہورہے ہیں ۔
اسلام کے خلاف ا پنے فاسد مقاصد حاصل کر نے کے لئے مغرب نے ماڈرن ازم کے عنوان سے ایک اور چال چلی ۔اس نے مسلم خواتین کی’’ آزادی‘‘ کا بیڑا حقوق نسواں کی علمبرداری کی آڑ میں اٹھایا ہو اہے ۔ اس حوالے سے اس نے جتنی بھی مکارانہ تحریکات کو جنم دیااور جتنا حق مخالف لٹریچر تصنیف کیا، ان کا بنیادی ہدف اسلام کے معاشرتی نظام میں کج روی اور ذہنی انارکی پیدا کرناہے۔ اس کے لئے کبھی رُشدی کو سامنے لایا گیا ،کبھی مختاراں مائی کو تشہیر دی گئی۔ یہاں پر اُن بے بنیادمباحثوں کا جواب دینامطلوب نہیں جو اسلام پر عورت کے مقام کو لے کر مغرب تامشرق زور و شور سے کیا جارہا ہے، بلکہ یہ باور کرانا مطلوب ہے کہ اسلام جو مقام ومرتبہ عورت کو دیتا ہے وہ کبھی دنیائے انسانیت پر آشکارا نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ بعض کم فہم اور مغرب کے دلداے مسلمان بھی کہیں کہیں مسلم عورت کے ا س مقام ومرتبہ سے گری ہوئی حرکات کا ارتکاب کر کے قوم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں مگر ا س کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ا نفرادی گناہ کا بوجھ اسلام کے سر دالا جائے ۔
موجودہ زمانے میں ہمارے گردونواح میں جو مخلص کارکنانِ تحریکِ نسواں صالح مقاصد کی خاطر دوڑ دھوپ کر رہے ہیں،انہیں چاہے کہ اپنی عمدہ تحریک میں قرآن وحدیث کے ان اعلیٰ وارفع ابدی اصولوں کو من وعن جذب کریں جو مسلم خواتین کی عظمتوں اور رفعتوں کے ضامن ہیں اور جن کے بغیر مسلم خواتین کا وجود زمانے کی آندھیوں سے بچایا یا نہیں جاسکتا۔ انہیں چاہیے کہ ازواج مطہراتؓ ، صحابیات ؓ اور اولوالعزم و تاریخ ساز مسلم خواتین کی سیرتوں کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اسلام ماں بہن بیٹی کو کس قدر ومنزلت سے ہم کنار کر تاہے۔ اسلام کہتا ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کی سب سے شاہکار مخلوق ہے لیکن اس کی ابتداء بھی ماں کے کوکھ سے ہوتی ۔ سوائے ابن مریم علیہ السلام ہم سب انسانوں نے ماں سے جنم لیا ہے اور اسی کوکھ میں ہمارے اندر بے شما ر صلاحیتیں اور قوتیں ودیعت کرکے رکھی گئیں اس لئے جس نے ماں کے بطن سے جنم لیا وہ کبھی وہم وگمان میں بھی عورت کی تذلیل کے ساتھ پیش نہیں آسکتا ۔ مسلم خواتین کو بھی چاہیے کہ اس پر خطر اور پر آشوب دور میں اپنی نسوانیت کھو کر اپنا وجود ڈانواں ڈول نہ بنائیں۔ فطرت نے ان سب کو جس عظیم مقصد کے لئے تخلیق کیا ہے ، وہ نام نہاد آزادی ٔ نسواں کے نام پر ماند نہ پڑ ے، کوئی مسلم عورت جان بوجھ کر اپنا استحصال نہ ہونے دے، اپنی لاج شرم کو اپنا انمول سرمایہ اور اثاث البیت جان کرا س کی ہمہ و قت رکھوالی کر ے،اپنے ماں باپ ، بھائی بہن، شوہر کے نیک مشوروں سے سرمو انحراف نہ کر ے، اپنی فطری صلاحیتوں کو اپنے حدود میں چار چاند لگانے کیلئے ہمیشہ وکوشاں رہے، قرآن وسنت اور سیر ت صحابیات ؓکو اپنی سانسوں سے زیادہ قیمتی سمجھے ، اپنے خاندان کے لئے باعث عزت بنے ، زمانے کے فتنوں سے باخبر رہ کر ان سے مقابلہ کر نے کی ہمت جٹائے ، اپنے آپ کو ذہنی ہیجان کے دلدل میں پھنسانے سے چوکنا رہے ، سہیلیوں کے انتخاب میں ہو شیاری سے کام لے۔ یہی کچھ ایک باوقار و محترم مسلم خاتون کے لئے نمونہ ٔ عمل ہوسکتا ہے جس پر چل کر وہ اسلام کی نعمتوں اور اس کی دی ہوئی عظمتوںکا لطف لے سکتی ہے ۔
رابطہ9622939998