مغربی تہذیب نے عورت کی آزادی کے نام پر عورت کو بے وقعت و بے وقار بناکر رکھ دیا ہے، آج مغربی خواتین جسم و خیال کی آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی بے حیثیت اور مردوں کے لیے استعمال کا سامان بن کر رہ گئی ہیں، جو مغربی خواتین کل تک اسلام کے عورتوں کے متعلق احکام پر اعتراض اٹھایا کرتی تھیں، آج وہی اسلام کے اصول و قوانین سے اتفاق کرنے پر مجبور ہیں، مغربی دنیا میں عورتوں کے برہنہ پن، آزاد خیالی اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعروں نے باعزت خواتین کو نہ گھر کا چھوڑا ہے نہ گھاٹ کا، آپ ان کے کلچر کو قریب سے دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ آزاد جسموں کی دنیا میں روحیں کس قدر پریشان ہیں، ماں اور بیٹے کی تمیز، باپ اور بیٹی کی تمیز، بہن اور بھائی کی تمیز، بھتیجے اور پھوپھی کی تمیز، خالہ اور بھانجے کی تمیز اکثر گھرانوں سے مفقود ہوچکی ہے، وہ آزاد عورت ہر کسی کی جائز محبت اور نگاہِ عزت و وقار سے محروم ہوچکی ہے، ماں کو بیٹوں کی خدمت نصیب نہیں، بہن کو بھائی کی شفقت میسر نہیں، بیوی اپنے شوہر کے حقیقی عشق سے محروم ہے، غرض یہ کہ ہر عورت اپنے حق نسوانیت کو کھو چکی ہے اور اپنا وقار گم کرکے جانوروں کی طرح بے نیاز زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آج کی مغربی دنیا میں عورت بظاہر ذلیل نہیں ہوتی؛ لیکن اس کے تمام تر جذبات و احساسات کو پامال کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔
اب ذرا ساڑھے چودہ سو برس پہلے کے دنیوی کلچر کا جائزہ لیجیے، یہی عورت اس قدر ذلیل و رسوا ہوچکی تھی کہ کہیں پیدا ہوتے ہی درگور کردی جاتی تو کہیں بیوہ ہوتے ہی نذر آتش کردی جاتی تو کہیں مردوں کے ہوس کا شکار بنی رہتی اور کہیں مردوں کی غلامی میں مشقت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی تھی۔ پھر اسلام آیا، آخری نبی محمد ﷺ کو اللہ پاک نے اس جہالت بھری دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپ ؐ نے دنیا کو جینے کا صحیح ڈھنگ بتایا، چلنے کا درست طریقہ سمجھایا، زندگی گزارنے کے راہنما اصول بتائے، ہر کسی کا درجہ اور مقام بتایا، ماں باپ، بھائی بہن، شوہر بیوی ہر ہر رشتے کی نزاکت اور شرافت بتاکر اسے نبھانے کا درس دیا؛ بلکہ خود ان رشتوں کو مکمل طریقے سے نبھاکر دکھایا۔
آقائے مکی و مدنی محمدﷺ نے دوسرے تمام لوگوں کے حقوق کے ساتھ عورتوں کے حقوق پر وہ روشنی ڈالی کہ جس سے عورت کو اس کا صحیح وقار ملا، وہ جو کل تک مردوں کی رکھیل تھی، آج گھر کی شہزادی قرار دی گئی، وہ جو کل تک آنکھوں کو چبھتی تھی آج آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئی، وہ جو کل تک جلادی جاتی تھی آج پلکوں پر بٹھائی گئی، وہ جو کل تک ذلیل و خوار ہورہی تھی آج اسے جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا۔ جی ہاں جب اسلام آیا تو عورت کو اس کا وہ وقار ملا جس کی وہ حقدار تھی، عورت کو اس کا فطری حق ملا، عزت ملی، شرافت ملی، خدمت ملی اور حضرت انسان کی روح پرور محبت ملی۔
اسلام نے عورت کو اس کے ہر جائز رنگ و روپ میں بہترین کردار بخشا ہے، خواہ وہ ماں ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا کسی اور رشتے سے منسلک ہو بہر حال وہ قابل احترام لائق تکریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا ’’ اور عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز نا پسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔ اس آیت میں اللہ پاک نے مرد کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ اگر تمہیں عورت کی کوئی بات، کوئی فطرت یا کوئی قدرتی شیٔ بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو، ناگوار گزرتی ہے تو صبر سے کام لو؛ ہوسکتا ہے عورت کی اسی ادا میں اللہ پاک تمہارے لیے بہت سی خیر کی باتیں پیدا فرمادے۔ا سی طرح عورتوں کو زبردستی وراثت میں حصہ نہ دینے اور ان کے حق مہر کو کھا جانے پر قرآن نے واضح روک لگائی ہے۔
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔ اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو۔ یہ حق ہے کہ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ اللہ پاک نے بیان فرما دیا ہے ۔وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ: (آیت: 228) ’’اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق‘ البتہ مردوں کے لیے اُن پر ایک درجہ فوقیت کا ہے۔
یہ عورت کی محبوبیت اور مقبولیت کی بات ہی تو ہے کہ کائنات کا سب سے محبوب انسان ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ نے فرمایا ’’حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَائُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلوٰۃِ‘‘ کہ مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی کائنات اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے:’’ النکاحُ من سنتی۔ فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ یعنی نکاح میری سنت ہے۔ جس نے میری سنت سے منھ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلمہ ومربیہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:’’ھن لباس لکم وانتم لباس لہن (البقرہ: ۷۸۱)عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا۔ مطلب یہ کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش، تم اس کے لیے رازدار ہو تو وہ تمہارے لیے رازونیاز کی امانت دار، تم اس کے لیے جفاکش و جاں نثار ہو تو وہ تم پر قربان ہونے کے لیے تیار؛ غرض دونوں کی زندگی میں بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:’’لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں، تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔آپ ؐ نے ایک جگہ اور فرمایا:خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلی‘‘ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ انَّ أکْمَلَ المؤمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ‘‘کامل ترین مؤمن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔
اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ جس اسلام نے بیوی جیسی عورت کو ایسا مقام و مرتبہ عطا کیا ہو کہ شوہر پر اس کے حقوق لازم کردیے ہوں وہ دیگر پاکیزہ رشتوں کے بارے میں کیسی اعلیٰ رہنمائی رکھتا ہوگا؛ چنانچہ ماں جیسی عظیم ہستی کے مقام و رتبے کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے :صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے، ایک شخص نے نبی کریمﷺپو چھا:من احق الناس و حسن صحابتی؟قال امک قال ثم من؟ قال امک، قال ثم من؟ قال امک، قا ل ثم من؟ قال ابو ک۔میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ ﷺ نے فر مایا تمہاری ماں، اس نے پھر کہا اس کے بعد کو ن؟ فرمایا تمہا ری ماں، اس نے کہا اس کے بعد کون؟ فر مایا تمہا ری ماں، اس نے کہا اس کے بعد کون؟ فرمایا تمہارا باپ،، (متفق علیہ)
آپ ﷺ نے والدین کے ساتھ بد سلوکی کو کبیرہ گنا ہوں میں سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ یہی ہے۔ صحیحین کی حدیث ہے۔الا انبئکم با کبر الکبرالکبائر ثلاثاً قالو ابلیٰ یا رسول اللہ، قال الا شرک با للہ و عقوق الو الدین۔''کیا میں تمہیں یہ نہ بتا دوں کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے یہ بات تین مر تبہ دہرائی۔ صحابہ نے عرض کیا ضرور بتا ئیے یا رسول اللہ: فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کے ساتھ برا سلوک کرنا۔
غرض یہ کہ عورت بہن ہو، خالہ ہو، پھوپھی ہو، ماں ہو یا بیٹی ہو اسلام نے عورت کو ہر رشتے کی بنیاد پر قابل احترام درجہ دیا ہے، بلکہ اس کے لیے مستقل حقوق مقرر کیے گئے ہیں اور کسی بھی جائز کام میں عورت کو حصہ لینے سے منع نہیں کیا ہے۔ یہ بات سوفیصد درست ہے کہ اسلام سے بڑھ کر کسی بھی مذہب یا قانون نے عورت کے حقوق کا تذکرہ نہیں کیا اور اسلام سے زیادہ کسی بھی مذہب میں عورت کو عزت و احترام کی نگاہوں سے نہیں دیکھا گیا۔