ڈاکٹر شعیب احمد وانی
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس میںانسان کی تمام سرگرمیوںکو اچھے اور صحت مندانداز سے گذارنے کا درس ملتاہے۔یہ انسان کے جملہ شعبہ جات میں رہنمائی کرتا ہے ۔ اس میں ایک طرف جہاں ہمیں توحید،نماز،روزہ ،حج اور زکوۃ کے حوالے سے رہنما اصول ملتے ہیں وہیں دوسری طرف سیاسی ، معاشرتی ، معاشی ، مادّی ، اخلاقی ، نجی،قومی اور بین الاقوامی سطح تک کی رہنمائی بھی ملتی ہے۔ جب ہم اسلام اورامن و آشتی کی بات کرتے ہیںتو دیگر شعبہ جات کی طرح ہی زندگی کے اس جزوِ لاینفک کے حوالے سے بھی یکساںرہبری ملتی ہے۔ اسلام لفظ سَلم اور سِلم سے ماخوذ ہے جس کے ترتیب وار معنی امن و سلامتی،داخل ہو جانے ،اطاعت و بندگی کے آتے ہیں۔جو شخص دینِ اسلام کی تعلیمات پرعمل پیرا ہو،صفتِ ایمانی سے متصف ہو اور قلب و باطن کواللہ کے حضور اس طرح جھکائیں کہ اللہ اور رسولؐ کے متعلق ادنیٰ درجہ کا بھی شک نہ ہو تواس کو مومن کہتے ہیں۔ امن قائم کرنا ، باہمی پر امن ماحول میں رہنا، سلام ، امن کا حصول ، نجات ، اچھائی اور راحت یہ سب اسلام کے معنی میں داخل ہیں۔ اسلام کے منصفانہ نظام کو سمجھنے کے لیے اس کی الہامی تعلیمات پر غور کرنا بہت ضروری ہے ، کیونکہ یہ دنیاوی و اُخروی انتظام و انسرام چلانے کے اعتبار سے ہدایت کے سرچشمہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس میںتن،من اوردھن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ امن ، سلامتی، دوستی ، تعاون ، اخوت ، بھائی چارہ،عدل اور خوبی کے جذبے کے تحت معاشرے کی تعمیر کرنا بھی شامل ہے۔ اسلام امن کا داعی ہے یہ نہ صرف امن کی وکالت کرتا ہے بلکہ اس کے لئے باضابطہ اصول بھی وضع کرتا ہے۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات میںــ’اسلام‘ یا تو بطور اسم یا فعل کے مراد لیا جاتا ہے۔اس نقطہ نظر سے ’اسلام ‘کے معنی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی فرماں برداری اور اطاعت کے آتے ہیں ، اس کے اختیارات کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے احکامات کو ماننے کے آتے ہیں۔ ’اللہ تعالیٰ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا اور صرف اسی کی اطاعت کرنا،نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اتباع اور ان کے مطابق زندگی گذارنا اسلام کے رہنما اصولوں میں شمار ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایک مسلمان خود بھی محفوظ ومامون رہے ،اس کے ساتھ ساتھ امن کے پھیلاوکے لئے بھی کوششیں کرے۔چونکہ اسلام کا مطلب ہی امن و امان کے ہیں جس کا حصول اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے بغیر ناگزیر ہے۔ لہٰذا اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ تمام انسانیت کو سلامتی حاصل کرنی چاہئے یعنی امن کے اصولوں کے تحت زندگی گذارنی چاہیے اور شیطان کی پیروی سے گریز کرنا چاہیے۔ جیسا کہ قران کی ایک آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ،’’ اے ایمان لانے والو!تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(قرآن ، ۲: ۲۰۸) ۔شیطان امن کا دشمن ہے وہ چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے ہمیشہ فتن و فساد میں مبتلا رہیںتاکہ اسے شر پھیلانے میں کوئی دقت نہ ہو۔
قرآن کے مطابق تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اگر ان کے درمیان اختلاف ِ رائے ظاہر ہوتا ہے تو وہ صلح کرتے ہیں اور اسے درست کرتے ہیں (قرآن ، ۴۹: ۱۰)۔ وہ نیکی اور خداترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور گناہ اور زیادتی کے کاموں سے لوگوں کومنع کرتے ہیں ۔(قرآن ، ۵: ۲)وہ شوریٰ کے بعد اہم کام انجام دیتے ہیں ، یعنی ہر اہم کام مشاورت کے ذریعے پا یۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں(قرآن ، ۳: ۱۵۹/ ۴۲:۳۸)اور وہ ہمیشہ انصاف کے علمبردار اور اللہ کے خاطرگواہی دینے والے بنتے ہیں اگرچہ ان کی گواہی ان کے قریبی عزیزوں کے خلاف بھی ہو (قرآن ۴: ۱۳۵)۔کتنے ہی کٹھن حالات کیوں نہ ہو حقیقی مسلمان سیدھے راستے سے راہِ فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ چٹان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹا رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان وفادار ، دیانتدار اور انصاف پسند ہوتا ہے ، اپنے دین کی مکمل طور پر پابندی اور سچائی و دیانت کے لیے اپنی زندگی بھی قربان کر دیتا ہے۔ نیز اعتدال پسندانہ طرز زندگی اپنانا جو سب کے ساتھ اچھے تعلقات کی حوصلہ افزائی کر تا ہے۔ حق کے راستے پر رہنا کسی بھی مومن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو حکم دیا گیا ہے ، ’’پس اے محمدؐ! جس طرح آپ کوحکم دیا گیا ہے،آپ خود اور و ہ لوگ بھی جنہوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپؐ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں اور حد سے نہ بڑھیں (یقین کرو کہ) تم جو کچھ کرتے ہو وہ (اللہ) اسے دیکھ رہا ہے‘‘ (قرآن ، ۱۱: ۱۱۲)۔ اسی وجہ سے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرمانا پڑا ، ’’سورۃ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے‘‘۔اس آیت پر صحابہ رضوان علیہم اجمعین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، کہ نبی رحمتؐ پر اس سے بڑھ کر سخت کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی ۔
عفواور درگذر اسلام کی تعلیماتِ خاصہ میں سے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ بر تر و بالا چونکہ الرحمن والرحیم ہے ، لہٰذا للہ تعالیٰ نے نبی رحمتؐ کو بھی انہی تعلیمات اور روشن دلائل کے ساتھ انسانوں کی طرف رہنما اور نمونہ بنا کے بھیجاہے۔جیسا کہ قران مجید میںمذکور ہے کہ’’(اے رسولؐ) ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (قران ،۲۱:۱۰۷) اور دوسری جگہ مذکور ہے کہ،’’ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مومنین کے لئے شفیق اور مہربان ہیں‘‘ (قرآن ۹: ۱۲۸) ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصائب و مشکلات اور آفا ت و بھلیا ت میںکبھی صبر کا دامن نہ چھوڑتے اور جاہلوںکے ساتھ کبھی نہ الجھتے کیونکہ پیغمبری کے آفاقی اصول ہی یہی ہیں۔سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،’’ اے نبیؐ!نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے دستبرداری اختیار کرو‘‘(قرآن ۷: ۱۹۹) ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور الہامی اصولوں کی بدولت نبی رحمتؐ لوگوں میں اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دے گئے جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے باعث نمونہ قرار پایا ۔ ’’اگر آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ سخت اور تند خواہی کا سلوک کرتے تو وہ آپ کوچھوڑ دیتے اور اتحاد ختم ہوجاتا ‘‘(قرآن ۳: ۱۵۹)۔ چونکہ خدا اور خدا کے رسولؐ مومنین کے ساتھ مہربان اور رحم کرنے والے ہیں ، لہذا جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کو اپنے لیے نمونہ سمجھتے ہیں اور حد سے تجاوز نہیں کرتے توانہیں ایک دوسرے کے ساتھ صریح رحمت اور شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جن لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پایا ہے وہ کبھی بھی گھمنڈ،تکبر اور عداوت کرنے والے نہیں ہوسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐکو تاکیداً یہ ہدایات دیتا ہے کہ وہ’’ درگزر کرے اور لوگوں سے ان کے نظریات پوچھ کر مشورہ کرے‘‘ (قرآن ، ، ۳: ۱۵۹/ ۴۲:۳۸) ۔ خیالات کا تبادلہ چونکہ لوگوں کے مابین تناؤ کو کم کرتا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اتحاد اور تعاون کے جذبات کو بھی فروغ دیتاہے۔ اس کے نتیجے میں ، اسلام تبدیلی کا خواہشمند ہے وہ تبدیلی جو معاشرے میں نفرت کو امن اور سکون میں بدل دیتی ہے۔ نبی رحمتؐ کے مطابق ، اللہ تعالیٰ کے سامنے لوگ کنگھی کے دانتوں کی طرح برابر ہیں۔ زبان ،حسب و نسب ، رنگ ، امیری اور غریبی جیسی خصوصیات برتری کی علامات نہیں ہیں بلکہ برتری کا فیصلہ تو صرف تقویٰ کی بنیادوں پر ہی ہو سکتا ہے۔ سورۃ الحجرات کی تیرہویں آیت اسی جانب توجہ مبذول کرتی ہے ، ’’ ہم نے تم کوایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ، اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے‘‘۔اسلام صنفی ، معاشرتی یا نسلی گروہوںپر مبنی برتری کو مسترد کرتا ہے اورعالمگیر اصولوں کے لحاظ سے کسی فرد کی عزت اور قدر کا تعین کرتا ہے جو وہ اپنی مرضی اور کوشش کے ذریعے سے حاصل کرتا ہے ،نہ کہ صنف،رنگ یا نسلی تعلقات کے لحاظ سے جس کے حصول میں ایک انسان کو اپنا کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ظلم کے برخلاف امن و امان کے لیے اپنا تن ،من اور دھن قربان کرنے کی پیشکش کرتا ہے اور ان تمام پروپگنڈوں کی بیخ کنی کا حکم دیتا ہے جو حصولِ امن کی راہ میں روبۂ عمل ہوں۔اسلام سرکشی کو اطاعت میں بدل دینے پر بھروسہ رکھتا ہے۔سازشوں،جھوٹے پروپگنڈوںاورظلم و جبرکو جڑ سے اکھاڑنے کا درس دیتا ہے تاکہ امن حقیقی معنوں میں قائم ہو سکے ۔لاضرر ولا ضرار،اسلام کے انہی اصولوں کی کڑی میں سے ایک کڑی ہے جس کے ذریعے سے ظالم کا ہاتھ روکنے اور مظلوم کی دستگیری کا حکم ملتا ہے۔ ظلم اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہے جہاں پر ناحق ظلم ہو،عدم توازن ہو،قتل وغارت گری ہو سمجھ لینا چاہیے، وہاں پر اسلام کا نظام ِعدل نہیں ہے کیونکہ جہاں پر اسلام ہوتا ہے وہاں پر ظلم کے برخلاف عدل وانصاف،صلح رحمی،رحم و کرم،شائستگی،شرافت،معقولیت اورانسان دوستی کے بادل سایہ فگن ہوتے ہیں ۔حدیث میں آیاہے،’’ ظلم سے بچو اس لیے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے‘‘(صحیح مسلم،۲۵۷۸)۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام دنیامیں آیا ہی اس لیے ہے کہ تاکہ دیر پا قیام ِامن کے لئے ظلم و بربریت کا قلع قمع کیا جائے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے کہ،’’جس نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی،اللہ تعالیٰ کوتکلیف پہنچائی‘‘ (الحدیث)۔ظلم و جبرکوچھوڑ کر اسلام باقی امور کوصلح مشورہ سے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے کیونکہ ظالم کا ہاتھ اگر روکا نہ گیا تو دنیا میں مظلوموں پرانتہائے ظلم کی وجہ سے عدم توازن پیدا ہوگا اور یوں امن کی جگہ خونریزی،بربریت ،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت گری اور تانہ شاہی کا بازار گرم ہوگا۔اندھے پن کے اس روغ کی وجہ سے حق اور ناحق کے درمیان تمیز ختم ہو جائے گی یوں چنگیزیت کا راج ہوگا اور پھر دنیا انسانوں کے لیے جیتے جی نرکھ بن جائے گی۔ لہذا ، بنیادی طور پر ، امن اور درسِ مساوات ایک ایسی پیش رفت ہے جو انسانیت کو جارحیت اور ظلم سے پاک کرتی ہے اور انہیں سایۂ رحمت میں لاتی ہے۔ قرآن مجید میں ، صلح کے ذریعہ اختلاف ِ رائے کو ختم کرنے اور مزید تنازعات ، لڑائیوں ، الجھنوں اور اختلافات کو شروع نہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ، لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ متوازن طرز عمل اختیار کریں اور صلح کی تلاش کریں (قرآن ،۴۹: ۹ا۔۱۰)۔ اسلام ایک متحد معاشرے کی سفارش کرتا ہے ، اور اس کے قیام کے لیے نہ صرف نجی سطح پر وکالت کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح کی سفارش بھی کرتا ہے۔
آخر پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسلام تمام تعلقات (معاشرتی ،نجی،قومی اور بین الاقوامی )کے لئے امن اور مفاہمت کو بنیادی حیثیت دیتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ ، جنت ، جو پرہیزگاروں کے لئے اجر ہے ، اطمینان کا مقا م ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں میں سے ایک سلام ہے ، جس کا مطلب امن ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ، مسلمانوں نے نظامِ امن و سکون قائم کرنے کی ہر دور میں سعی و جہد کی ہے جس کی نظیر دنیا نے پہلی مرتبہ خود نبی محترمؐ اور خلفاء راشدین کے دور میں دیکھی۔اسلام طاقت اور فوجی اقدامات کو بالائے طاق رکھ کر امن کا خواہشمند ہے ،البتہ جب قیام امن کے سارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں تو پھر ترجیحاتی بنیادوں پر اس کو آخری مہرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کا عمومی نقطۂ نظر قیام امن رہا ہے کیونکہ اسلام نام ہی ہے پیار،امن ،شفقت اورمحبت کا ہے ۔
رابطہ۔ 9596050307
[email protected]