انسانی حقوق کا احترام انسانی تہذیب کی ایک ایسی ناگزیرضرورت ہے جس کو کسی بھی طرح نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے بغیر کوئی قوم آزاد اور پُر سکون زندگی کا تصور کرسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج دُنیا کا ہر ملک اس کی حمایت اور وکالت کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔اس حقیقت کو اگر ہم تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے سب سے پہلے انسانی حقوق کی بات کی اور اس کا علمبرداری کا بیڑہ اٹھایا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ 1948ء سے پہلے تک اقوام عالم کے یہاں انسانی حقوق کو ایک خانگی معاملہ سمجھا جاتا تھا،یعنی اپنی قوم کی حد تک تو اس کا پاس و لحاظ کیا جائے تو ٹھیک ہے ،اس سے باہر کی دنیا کے بارے میں فکر کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ۔اس لئے اگر کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ وجدل کی نوبت آجائے اور انسانی حقو ق کا پرچم کوسر نگوں کردینے کی ضرورت بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں عالمی جنگوں کے دوران بے شمار افراد جان سے مارے گئے اور ان کے انسانی حقوق کو بُری طرح پامال کر کے رکھ دیا گیا ۔ بالآخر بین الاقومی سطح پر کی جانے والی سنجیدہ کوششوں کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے 10؍دسمبر 1948ء کو انسانی حقوق کا ایک عالم گیر منشور جاری کیا جس کی رُو سے ہر فر د اور ہرملک پر یہ ضروری قرار دیا گیا کہ ہر حال میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور انسانی قدروں کا پاس و لحاظ کیا جائے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کے تعلق سے اسلام نے جو نظریہ اور نقش راہ دیا ہے وہ ایک عالمگیریت کا حامل ہے ۔ اسلام کی رُوسے کوئی بھی شخض خواہ وہ کسی بھی قوم،ملک ،رنگ ، نسل زبان یاجغرافیہ سے تعلق رکھتا ہو،اس کے حقوق کا احترام کیا جائے گا کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا کے تمام انسان ایک اللہ کا کنبہ اور ایک آدم ؑ کی اولاد ہیںاور اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ بندگان ِ خدا سے یکساں طورمحبت کی جائے ۔ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ سب سے زیادہ اُس شخض سے محبت کرتا ہے جو اُس کے کنبے سے بہترین سلوک کرتا ہے۔
اسلام نے انسانوں نے جو مختلف حقوق دئے ہیں ان میں حق ِ حیات right to Live سر فہر ست ہے ۔ اسلام کے نزدیک انسانی جان بہت محترم ہے اور وہ ہر شخض کو جینے کی پوری آزادی عطا کرتا ہے۔اگر کوئی شخض بلاوجہ کسی کی جان لیتا ہے تو اسلام اسے پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور ایسا شخض اسلام کی نظر میں سنگین جرم کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ ارشاد بانی ہے: جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا ، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا ہے اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخش دی۔
(سورہ المائدہ) ۔ اس لئے حضور ﷺ نے جمعتہ الوادع کے موقع پر فرمایا لوگو!تمہارے خون،و مال اور عزتیں ایک دوسرے قطعاََ حرام ہیں۔(بخاری)اس حقیقت کو اگر ہم اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت میں تلاش کریں تو ہمیں تحفظ جان سے متعلق ایک ایسی اعلیٰ مثال ملتی ہے کہ تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
۲۔احتجاج کا حق( Right to Protest )۔اسلام میںکوئی بھی حکمران قانون سے بالاتر ذات نہیں۔اسلام اس ابدی حقیقت کو تسلیم بھی کرتا ہے اور اس کی عملی تائید بھی کر تاہے۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر ان پر ظلم ہو یا حکمران غلط رُخ پرجا رہے ہوں تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اللہ کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے ،اِلایہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو(سورۃ النساء)۔
۳۔مذہبی آزادی کا حق( Right to Religious Conviction ) اسلام غیر مسلمین کے جذبات کا احترام کرتا ہے۔چناںچہ اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلمین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ جس مذہب یا عقیدے کو سچا سمجھتے ہوں ِاس پر قائم رہیں۔ اسلام مذہب کے معاملے میں کسی زور زبردستی کی تائید نہیں کرتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:دین کے بارے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے(سورۃ البقرہ)
4 آزادی رائے(Right to Free Expression )اسلامی ریاست اپنے شہریوں کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے مسائل کے سلسلے میں اپنی آرا ء کا آزادنہ اظہار کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام آزادی کی پُر زور وکالت کرتا ہے مگر اسی حد تک جہاں تک یہ چیز فر د یا معاشرے کے لئے پریشانی کا باعث یہ ہے۔ آزادیٔ رائے کا مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تنقید کی آڑ میں کسی کے لئے نا شائستہ الفاظ استعمال کئے جائیں۔رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہمیں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں، جب آپﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کی رائے کو اپنی ذاتی رائے پر ترجیح دی۔
۵۔حق مساوات( Right to Equality )اسلام کی نظر میں دُنیا کے تمام انسان برابر ہیں،ذات ،برادری ،رنگ و نسل یا قومیت کی بنیاد پر کوئی کسی سے بڑا نہیں ۔خدا کے نزدیک بڑائی و برتری کا معیار تقویٰ و پرہیز گاری ہے ۔ارشاد ر ربانی ہے :اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہارے قبیلے اور برادریاں بنائیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ با عزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔
یہی بات رسُول اللہﷺ نے جمعتہ الوادع کے موقع پر ارشاد فرمائی:تم سب ادم کے اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے تھے، کسی عربی کو عجمی پر کسی گورے کو کالے پر کسی کالے کو گورے پر فضلیت نہیں ہے، مگر تقویٰ و پرہیزگاری کی بنیاد پر (بخاری مسلم )
۶۔حق انصاف( Right to Justice )اسلامی ریاست کا یہ اولین مقصد ہے کہ وہ معاشرے میں عدل قائم کرے۔اسلامی قانون کے ذریعے بھیجا ہوا قانون ہے اور خدانے عدل کا حکم دیا ہے۔
قران مقدس میں ارشاد ہے: اللہ عدل کا حکم دیتا ہے اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:اور جب لوگو ں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل سے فیصلہ کرو( النساء)
لہٰذا گر کسی سے زیادتی کی ہی تو وہ اس کا بدلہ ضرور لیا جاسکتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے اور برُائی کا بدلہ ایسی جیسی بُرائی ہے( الشوریٰ)
۷۔تعلیم کا حق (Right to Education)اسلام نے حصول علم پر بہت زور دیا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اُس کا آغاز اقراء(پڑھو) سے ہوتا ہے۔علم کا اندازہ اس حدیث رُسول ﷺ سے لگایا جاسکتا ہے جو شخض حصول علم کے لئے کوئی راستہ اختیار کرے گا (یعنی سفر کرے گا)۔ اللہ اس کے لے جنت کا راستہ آسان بنا دے گا(بخاری)
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام میں انسانی حقوق کے تمام پہلوؤں کو بالتفصیل سمجھا جائے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے ۔
(موبائیل نمبر 9596887815)