اسلام میںبچو ں کے حقو ق کا بڑا خیال رکھا گیا ہے ،پیدا ہوں تو و الد ین پران کی بہترین پر و ر ش کرنا، صحیح تعلیم و تربیت دینا ، محبت بھر ا بر تا و ٔ کرنا فرض ہوتاہے۔ حضر ت میر سید علی ہمد انی رحمتہ اللہ علیہ ’’ ذ خیر ۃ الملو ک‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’ ابو ہر یر ہ ر ضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص نے رسول اللہ ؐکی خد مت میں حا ضر ہو کر عر ض کی یا ر سو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نیکی کس کے سا تھ کر وں ؟ آ پ ؐنے فر ما یا کہ ما ں اور با پ کے سا تھ۔ اس نے عر ض کی یا رسو ل اللہ ؐمیر ے ما ں با پ تو فو ت ہو چکے ہیں ، پھر آ پ ؐنے فرمایا اپنے فر ز ند و ں کے سا تھ، جیسا کہ ما ں با پ کا حق تیر ے ذ مہ ہے و یسا ہی با ل بچو ں کا حق تیر ے ذ مے ہے ‘‘۔ حضرت شاہ ہمدانؒ آگے فرماتے ہیں ’’ اے عز یز ! او لا د ، ما ں با پ کے پا س اللہ کی اما نت ہے۔ قیامت کے دن ان کے حقو ق کا ما ں با پ پرمطالبہ ہو گا۔ اس اما نت کا و جو د شیشے کی طر ح ہے جو بھلائیوں اور بر ائیوں کو قبو ل کر نے وا لا ہے اور اس اما نت کا حقیقی جو ہر جد ھر چا ہو جھک سکتا ہے۔اگر ماں با پ اور استا د نیک و صا لح ہیں تو بچو ں میں بھی وہ نشا نا ت نما یا ں ہوں گے اور علم و تقو یٰ پر ان کی عا د ت پختہ ہو گی بلکہ وہ دو نو ں جہانوں میں بر گز ید ہ ہو جا ئیں گے اور ما ں ، با پ و استا د ثو ا ب میں حصہ دا ر ہو ںگے۔ اگر ما ں ، با پ و استا د ہی فاسق و جا ہل اور غا فل ہو ں تو ان کے آ ثا ر بچو ں کی طبیعت میں قا ئم ہو جا ئیں گے جو دو نو ں جہا ں کی بد بختی کا با عث ہو ں گے،جن کا نتیجہ ظلم اور بد کا ر ی ، فتنہ و فسا د اور عْجب و تکبر ہو گا۔ ما ں ، باپ اور اُستا د ، ان بد کا ر یو ں کے حصہ دا ر ہو تے ہیں‘‘ ۔ امیر حسن سنجری ’’فو ائد الفو ا د ‘‘ میں کہتے ہیں کہ حضرت نظا م الدین اولیا ءؒ نے پندو نصیحت کی ایک مجلس میںفرمایا: ’’ ر سو ل اللہ ؐ بچو ں سے بڑ ی محبت کیا کر تے تھے اور ان کے ساتھ نر می و مہر با نی سے پیش آ یا کر تے تھے۔ پھر یہ حکا یت بیا ن فر ما ئی کہ ایک مر تبہ ر سو ل اللہ ؐ نے اما م حسن ؓ کو دیکھا کہ بچو ں میں کھیل ر ہے ہیں۔ اپنا ایک دست مبارک تھڈ ی تلے اور ایک سر پر ر کھ کر بو سہ د یا اور ایک مر تبہ رسو ل اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین ر ضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خوشی کی خا طر اونٹ کی سی آ و از بھی نکا لی۔