عمر فاروق
۔1649ء میں Alexender Ross نے پہلی مرتبہ قرآنِ مجید کا انگریزی زبان میں مکمل ترجمہ کیا اور سنہ 2000ء (تقریباً ساڑھے تین سو سال) تک اس زبان میں قرآن کے کُل ستر (70) تراجم شائع ہوئے۔قابلِ ذکر بات ہے کہ اکیسویں صدی کے ان چند سالوں میں ہی قرآنِ مجید کے پچاس سے زائد انگریزی تراجم شائع ہوئے ہیں۔بظاہر تو یہ خوشی کی بات ہے کہ اس تیزی کے ساتھ کلامِ الٰہی انگریزی زبان میں منتقل کیا جارہا ہے مگر جو بھی مسلمان اپنے سینے میں دلِ دردمند رکھتا ہو اور پوری انسانیت تک خُدا کے اس آخری ہدایت بخش پیغام کو اپنی اصل شکل میں پہنچانے کا خواہاں ہو ، اسے اس حقیقت کا انکشاف بے چین کردے گا کہ ان تراجم کی ایک بڑی تعداد میں دراصل قرآنِ مجید کی واضح آیات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے ،جو ہدایت کے بجائے بندگانِ خدا کی گمراہی کا سبب بن سکتے ہیں اور بن بھی رہے ہیں۔اسی طرح مستشرقین (Orientalists) نے رسولِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو اپنے تعصب کا نشانہ بنایا ہے اور انگریزی ادب کے کئی مشاہیر اہلِ قلم نے بھی دین ِ اسلام ،مسلمانوں اور پیغمبرِ اسلام ؐ کی شان میں ہرزہ سرائی کی ہے۔
حال ہی میں پروفیسر عبدالرحیم قِدوائی صاحب کی تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب بعنوان’’ اسلام :اہلِ مغرب کی نظر میں ‘‘ منظرِ عام پر آئی۔موصوف مفسرِ قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی صاحب ؒ کے نواسے ہیں اور انہیں انگریزی زبان و ادب پر دو بڑی جامعات سے دکتوریت (Doctorate ) کی ڈگری مکمل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔وہ خود بھی مترجمِ قرآن ہیں اور انہوں نے ایک سو سے زائد انگریزی تراجمِ قرآن کا مطالعہ کرکے ان کا علمی محاکمہ بھی کیا ہے۔مستشرقین کا لٹریچر ان کی دلچسپی کا اہم مضمون ہے۔زیرِ نظر کتاب کو ادارہ تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ نے شائع کیا ہے اور یہ مصنف کے کُل بیس مضامین پر مشتمل ہے۔اس کتاب کے آخر میں زریاب فلاحی صاحب کی جانب سے تحریر کردہ مصنف موصوف کی ایک انگریزی تصنیف کی تلخیص بھی شامل کردی گئی ہے ۔رفیق احمد رئیس سلفی صاحب نے اس کتاب کو مرتب کیا ہے ۔
اس کتاب کے پہلے باب بعنوان ’’ قرآنِ مجید پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ ‘‘ میں کُل گیارہ مضامین شامل ہیں۔پہلے مضمون میں فاضل مصنف نے اکیسویں صدی میں کئے جانے والے قرآن کے کئی تراجم کا جائزہ لیا ہے اور یہ بات ثابت کی ہے کہ یہ مترجمین اپنے ان تراجم میں قرآنِ مجید کو بے اصل اور بائبل کا چربہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔پروفسیرصاحب نے اس میںAlan Jones، A.J Drooge ،G.S Reynold، Jane Mc Auliffe ،Sandow Birk
وغیرہ کی طرف سے کئے گئے تراجم کا علمی محاکمہ کیا ہے اور ان کی غلطیاں واضح کی ہیں۔
دوسرے مضمون میں موصوف نے کورپس قرآنیکم اکیڈمی( Corpus Coranicum Academy ) ،برلن کے قرآنیات پر مبنی انتہائی وسیع منصوبے کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ان کے مطابق اس پروجیکٹ کا اصل مقصد یہ ہے کہ قرآنیات سے متعلق جملہ سرمایۂ علم کی جمع اور تدوین کی جائے اور قرآن کے عہد کے تمام متعلقہ دستاویزات کا احاطہ کیا جائے تاکہ قرانِ مجید کو ان معاصر شہادتوں سے ماخوذ اور مستعار ثابت کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ مصحف کے اولین نسخوں کو Carbon Dating ( کسی شے کا زمانہ متعین کرنے کا سائنسی طریقۂ کار ) سے بھی گزارا جاتا ہے۔فاضل مصنف کا ماننا ہے کہ ’’گو تفسیری حواشی مختلف فضلاء کے قلم سے ہیں مگر ان میں قدرِ مشترک متنِ قرآنِ مجید کا استخفاف اور شکوک و شبہات کی تخم ریزی ہے۔‘‘ ( صفحہ :۴۴)اس کے بعد انہوں نے ان کی گمراہ کن تفسیری آراء کا علمی رد بھی کیا ہے ۔
تیسرے مضمون میں مصنف نے ثابت کیا ہے کہ کس طرح مستشرقین قرآن کے اعجازی پہلوؤں کی ترجمانی کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔چوتھے مضمون میں فاضل مصنف نے قُم اسلامی یونیورسٹی اسلامی جمہوریہ ایران کے مرکز برائے ترجمۂ قرآن کی طرف سے مرتب کردہ مطالعاتِ قرآنِ مجید کو محیط ایک جامع کتابیات Bibliography of Quranic Studies in European Languages ” کا تعارف کرایا ہے اور قرآنیات کے باب میں اسے ایک وقیع اضافہ قرار دیا ہے۔پانچویں مضمون میں مصنف نے جدید مستشرقین کے مطالعاتِ تفسیر کے رجحانات اور تعبیرات کا جائزہ لیا ہے۔وہ بڑی دردمندی کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :’’ہم سب کے لئے تشویش کی بات ہے کہ مسلم علماء اور قارئین اس زہرِ ہلاہل اور اس کے تباہ کن اثرات سے قطعاً لاعلم رہتے ہیں ۔انگریزی اور یورپی زبانوں اور استشراق کی علمی روایت سے ناواقفیت ان کے آڑے آتی ہے البتہ جُزوی ،فروعی اور مسلکی اختلافات کے بارے میں یہی علماء نہایت باخبر ،جواب اور جواب الجواب ،تردید اور تنقیص پر ہمہ قوت مستعد رہتے ہیں۔کیا عصری علوم سے بے توجہی عنداللہ مواخذہ کا موجب نہ ہوگی ؟ یہ خیال ہی روح فرسا ہے ۔‘‘( صفحہ ۸۷)
چھٹے مضمون میں انہوں نے سات برطانوی مستشرقین کے تراجم کا اجمالاً جائزہ کیا ہے۔جن میںAlexander Ross ،George Sale،J M Rodwelln، Richard Bell،Alan Jones ،N J Dawoor
اور A.J Droje کے تراجم شامل ہیں۔ساتویں مضمون میں انہوں نے چند اور تراجم کا جائزہ لیا ہے۔آٹھویں مضمون میں انہوں نے قرآنِ مجید کے بارے میں مستشرقین( Orientalists) کا علمی سطح پر تعاقب کرنے والے دو مسلمان علماء : محمد مصطفی الاعظمی اور پروفیسر محمد مہر علی کے کام کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ دوسرے لوگوں نے بھی اس فتنے کی تردید کی ہے مگر مذکورہ بالا دو شخصیتوں کی تصانیف اس باب میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہیں۔اس تبصرے کے قارئین کے ذہن میں اب تک مستشرقین کی منفی تصویر ہی آئی ہوگی مگر پروفیسر صاحب ’’ولا یجرمنکم شناٰن قومٍ علی ان لا تعدلو ،اعدلو ھو اقرب للتقوی‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نویں مضمون میں ایک امریکی مستشرق Thomas Cleary کے ترجمۂ قرآن کو سراہتے ہیں۔ان کے مطابق مترجم نے اپنی کتاب میں جابجا قرآنِ مجید اور بدھ مذہبی صحائف کے مشترک نِکات منظرِ عام پر لائے ہیں جو کہ مصنف کے مطابق قرآنِ مجید کے باب میں ایک گراں بہا اضافہ ہے۔
دسویں مضمون میں فاضل مصنف دو نئے انگریزی تراجمِ قرآن (از ۱ ڈاکٹری مصطفی خطاب ۲ ) ڈیوڈ ہنگر اور صفی کسکس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس مضمون میں موصوف مزید لکھتے ہیں کہ 1930 ء تک کسی بھی مسلمان فاضل کا انگریزی ترجمۂ قرآن موجود نہ تھا اور اب جو تراجم موجود تھے، ان میں زیادہ تر ایسے ہیں کہ جو پیغامِ الٰہی سے زیادہ اپنے مکتب ِ فکر کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔مصنف جن انگریزی تراجم یا تفاسیر کو غیر عربی خواں طبقے لے لئے آبِ حیات کے مثل قرار دیتے ہیں، ان میں مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ،مولانا عبدالماجد دریابادیؒ ،مولانا محمود الحسن ؒ ،مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ،مولانا احمد رضا خان ؒ،مفتی حسین الیاس،تقی الدین ہلالی ،محسن خان اور صحیح انٹرنیشنل کے دعوتی انگریزی تراجم یا تفاسیر شامل ہیں۔گیارہویں مضمون میں موصوف نے جنوبی افریقہ کے جج جان مرفی کے قبولِ اسلام پر مسرّت کا اظہار کیا ہے۔اس کے بعد کتاب کے دوسرے باب میں ’’ سیرتِ طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ ‘‘کے عنوان کے تحت انہوں نے پانچ مضامین جمع کئے ہیں ۔اس باب میں انہوں نے کئی ایک مغربی قلم کاروں کی تصانیف کا اجمالاً تعارف کرایا ہے کہ کس طرح انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر کیچڑ اُچھالنے کی سعیِ مذموم کی ہے خاص طور پر انہوں نے
St John Nicetes، Embrico Dante، Thomas Caryle ، Gibbon ،Arnold Toynbee Shakespeare ، Byron ،W.M Watt ،John Aadir Chaucer ،Karen Armstrong
وغیرہ کی تحریرات پر تبصرہ کیا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان میں سے کچھ مصنفین نے رسول اللہؐ کا بہت ہی بہترین پیرائے میں اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے۔
تیسرے اور آخری باب بعنوان ’’ انگریزی ادب پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ ‘‘میں انہوں نے اپنے پانچ مضامین شامل کئے ہیں۔ان میں وہ انگریزی زبان میں استعماری فکر کی روایت کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مضمون میں انہوں نے قوموں کے عروج و زوال کے سلسلے میں چند مغربی مفکرین بالخصوص
Edward Gibbon Francis Fukumaya، Arnold Toynbee اور Oswald Spengler کی آراء بیان کی ہیں ۔
اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ اس کتاب کے تعارف پر مبنی ایک مضمون قارئین کی نذر کیا جائے تاکہ آپ میں سے ہر دلِ دردمند اور ذہنِ ارجمند رکھنے والے فرد کو اس بات کا احساس ہو کہ آخر دورِ جدید میں اسلام کے ہم سے کیا مطالبات ہیں اور دعوتِ دین کے سلسلے میں ہمیں کن میدانوں میں ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ؟ہمارا من حیث الامت المیہ یہ ہے کہ ہم نے از خود اپنی ہی خواہشات کے مطابق اسلام کے تقاضے متعین کئے ہیں اور ہم یہ جاننے کی بالکل بھی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ اسلام اصل میں ہم سے کیا چاہتا ہے ؟بقول محمد ابن ِمحمد ابن ِ محمد المعروف مولانا جلال الدین رومی ؒ کہ:
ہر کسے از ظنِ خود شُد یارِ من وز دورنِ من نہ جُست اسرارِ من
یعنی ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا دوست بنا اور میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو کسی نے نہیں کی !