’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے حوالے سے اگر گفتگو کی جائے تو یہ ایک وسیع اور توجہ طلب موضوع ہے۔لیکن یہاں وقت کی عدم دستیابی کے پیش نظر محض اس کے کچھ اہم گوشوں پر روشنی ڈالی جائے گی۔زمانہ جاہلیت کی بات کی جائے تو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عورت کو ایک حقیر مخلوق سمجھا جاتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ کم سن لڑکیوں کو زندہ درغور کرنا عام سی نات بن گئی تھی ۔لڑکیاں طوائف خانوں کی زینت ہوا کرتی تھیں اور شوہر اپنی بیوی سے غلاموں جیسا سلوک کرتے تھے۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عورت باضابطہ طور بازارؤں میں خرید و فروخت کی جاتی تھی۔
ظہور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی جو زمانہ جاہلیت سے بہت مختلف تھی۔یونان ،مصر ، عراق ، ہندستان ، چین ، غرض ہر قوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔لوگ اسے اپنے عیش و عشرت کی غرض سے خرید و فروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیا جاتا تھا۔عورت کو جتنی عزت ، رتبہ اور مقام اسلام میں حاصل ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ کی بیشمار احادیث میں بھی عورت کی عزت و تکریم کا حکم ملتا ہے۔اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد و عورت دونوں کی سونچ اور ذہنیت کو بدلا۔انسان کے دل و دماغ میں عورت کا جو مقام و مرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔قرآن ارشاد فرماتا ہیں:اللہ نے تمہیں ایک (ہی) جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے ہی اس کا جوڑا پیدا کیا۔(النساء :1)
یہاں اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے کہ عورت اور مرد بحیثیت انسان ایک ہی منصف پر فائز ہیں،مطلب یہ کہ عورت سے غیر انسانی برتاؤ کی مکمل نفی ہوگئی۔وہ انسان ہے اور ہر مرد کی طرح اس کے جذبات ہیں،احساسات ہیں۔اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد اور عورت کے لئے اس کو لازمی قرار دیا ۔اگر چہ موجودہ دنیا یہ کہہ کر اسلام کو بدنام کرتی ہے کہ اسلام نے عورت کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھنا چاہا لیکن یہ سرا سردشمنان اسلام کی سازش ہے بلکہ اسلام نے عورت کو علم حاصل کرنے کا برابر حق دیا ہے ۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی۔حضرت ابو سعد خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی،ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی)حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔(ابو داؤد)
بعض مذہبوں کے پیش نظر وراثت میں عورت کا حق نہیں ہوتا۔لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک کیا جارہا تھا ۔معاشرے میںانھیں کوئی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھامگراللہ تعالیٰ کا عورت پر یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے نبی حضورﷺ کو دنیا میں بھیجا جنہوں نے عورت کو معاشرے میں وہ عزت دلائی جس کی وہ حقدار تھی۔قرآن میں حکم دیا گیاہے کہ:اور عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو،اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیداکر دے ۔(النساء:۱۹)
اسی طرح قرآن میں عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر فرض کیا گیا ہے۔بلکہ سورۃ النساء میں بیشتر عورتوں کے حقوق بلکہ یوں کہیں کہ یہ سورہ با لخصوص عورتوں کے حقوق کو ہی پیش کرتی ہے۔اسی طرح وراثت میں حصہ اور حق مہر ادا کرنا ایک عورت کو وہ مقام عطا کرتا ہے جو شاید کسی بھی مذہب نے نہیں دیا ہوگا۔
اگر قرآن اور احادیث کی روشنی اور سیرت نبیﷺ کی طرف نظر دوڈائی جائے تو ایسے بارہا مقامات ملیں گے جہاں پر عورتوں کے حق میں بہت سے اشارے ملتے ہیں ۔بہت سی مثالیں موجود ہیں لیکن یہاں ان سب مثالوں کو پیش کرنا ممکن نہیں۔الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی عورت کو اپنی پہچان ، اپنا کھویا ہوا وقار اور اپنی وقت کے درندہ صفت انسانوں سے لوٹی ہوئی عزت واپس ملی تھی لیکن افسوس آج کی عورت بے پردگی اور بے حیائی کو آزادی کا نام دے رہی ہے۔ اگر کچھ دہائی پیچھے کی طرف نظر دوڈائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب سے بے پردگی اور بے حیائی کا بازار گرم ہوا یہ عورت جس کو ایک اعلیٰ مقام ملا تھا ،جس کے پیروں تلے جن رکھا گیا تھا ،آج ایک بار پھر اپنے وجود کو غلامی کے شکنجوں میں کستی نظر آتی ہے۔آج جو عورت پردے سے آزادی کی مانگ کر رہی ہے اصل میں وہ حیوان صفت انسانوں کی عیاشی کا سامان تیار کر رہی ہے۔واحد اور واحد اسلام کی تعلیمات ہی ایک عورت کو اعلیٰ مقام عطا کر سکتا ہے اور اسلام سے باہر عورت کا خود کا آزاد محسوس کرنا یقیناسراب حیات ہے۔
برقی پتہ۔[email protected]