دور نبوتؐ ہی سے احیائے اسلام کو متنوع چلینجزکا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے پہلے عرب میں مشرکانہ عقائد اور جہالت بڑے چلینج کے طور پر موجود تھے ،ا ن کا مقابلہ کرکے اللہ کے رسولؐ نے ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ خلفائے راشدین کے دور میں مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ چند سرداروں نے نبوت کا جھوٹا دعو یٰ بھی کیا تھا جن کا ابوبکر صدیق ؓ نے یہ مشہور جملہ ’’اینقص الدین وانا حیی(میرے جیتے جی دین میں کمی ہو)‘‘ کہہ کر اس فتنے کا قلع قمع کیا۔بنو امیہ کے دور میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ (681 – 720)نے ملوکیت کے نظام کو ختم کرکے پھر سے خلافت میں تبدیل کیا۔ عباسی دور میں خلقِ قرآن کے فتنے نے سر اُٹھایا اور امام احمد بن حنبل (780-855)نے انتہائی صبر و عزیمت کے ساتھ اس آزمائش کا مقابلہ کرکے امت کو اس فتنہ سے نکالا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب عالم اسلام میں یونانی فکر و فلسفہ، احیائے اسلام کے لیے چیلنج کے طور پر سامنے آیا تو اس کے مقابلے کے لیے امام ابن تیمیہ(1263-1328) نے ’’الرد علی المنطقیین‘‘ اور امام غزالی(1058 1111) نے تھافۃ الفلاسفہ کے ذریعہ باطل فکر وفلسفہ اور تصوف کے تار بکھیر دئے ۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب ہندوستان میں اکبر کے دین الٰہی نے کفر و شرک اور الحاد کو جنم دیا، یہ بھی ایک بڑا چیلینج تھا۔ اس دجل و الحاد کی بیخ کنی حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ایسے انداز میںکی کہ دوبارہ ابھرنے کا نام نہ لیا۔ مجدد الف ثانیؒ (1562 – 1624)کے بعد شاہ ولی اللہ دہلویؒ(1703-1762) نے اسرار شریعت کے رموز کو اجاگر کرکے امت مسلمہ میں بیدار ی کی ایک نئی روح پھونک دی۔ ایک دور وہ بھی تھا جب جزیرۃ العرب میں محمد بن عبدالوہابؒ(1703-1792)اور محمد علی السنوسیؒ (1787-1859)نے امت مسلمہ میں بیرونی اور اندرونی سازشوں اور چیلینجوںسے امت مسلمہ کو با خبر کرکے احیاء دین کا کام جاری رکھااور افریقہ (نائیجیریا)میں عثمان دان فادیوؒ((1754- 1817 نے نشاۃ ثانیہ کا کار خیر انجام دیا ۔
بیسویں صدی میں احیاء دین کے تعلق سے عرب دنیا میں محمد عبدہؒ،امام حسن البناءؒ (1906- 1948) اور سید قطبؒ(1906 – 1966) امت مسلمہ کو خواب خرگوش سے بیدار کر کے اس میںایک نئی روـح پھونک دی ، الجزائر میں مالک بن نبی ؒ(1905-1973) نے الظاہرۃ القرانیۃ، وجھۃ العام الاسلامی، الفکرۃ الافریقیۃالآسیویۃ، شروط النھضۃ جیسی موقر کتابیں لکھ کر مغربی فکر اور استعمار کے ـخلاف نوجوانوں کو بیدار کرنے میںاہم رول ادا کیا ہے ۔ بوسنیا ہرز گوینا میں علی عزت بیگویچ ؒ (1926-2003) نہ صرف استعمار کے خلاف جہاد کیا بلکہ مغربی فکر و تہذیب کا بھی ڈٹ مقابلہ کیا ، فلسطین میں عبدللہ عزامؒ(1961-1989) اورشیخ احمد یٰسینؒ(1937- 2004( کے خلاف نبرد آزما ء ہوئے بلکہ اہل فلسطین میں اسلامی بیداری کے لئے نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا ، انڈونیشیا میں ڈاکٹر محمد ناصر نے باطل عزائم اور ا ان کی سازشوں کو مسمار کرنے میں قابل فخر کارنامہ انجام دیا ۔ ترکی میں بدیع الزمان سعید نورسیؒ( 1873 – 1960 ) امت کی اخلاقی ، روحانی اور فکری رہنمائی کی،مغرب میں ڈاکٹر حمیداللہؒ ( 1908-2002)نے انتہائی جامع اور مدلل انداز میں متعارف کرایا ۔ انھوں نے اہل مغرب کو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور سیرت نبی آخر الزماں ﷺسے متعارف کرانے کے لئے بے شمار مقالات اور متعدد کتابیں لکھیں ۔ ایران میں استاذ محمد باقر الصدرؒ(1935- 1980) اور ڈاکٹر علی شریعتیؒ(1933- 1977) اسلامی انقلاب کے لئے راہیں ہموار کیں اور بر صغیر میں علامہ اقبالؒ(1877- 1938) اور سید مودودیؒ (1903-1979)نے نہ صرف باطل افکار و نظریات،لادینیت اور مادہ پرستی کو تنقید کا ہدف بنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان نفوس قدسیہ نے اپنے مخصوص حالات اور زمانے کے تقاضوں کے تحت وقت کے درپیش چیلینجوں کا مقابلہ کر کے اسلامی بیداری اور احیاء دین جیسا کارِ خیر انجام دیا۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں مغرب کا ہمہ گیر تسلط قائم ہوگیا جو سیاسی بھی ہے اور معاشرتی بھی،اقتصادی بھی ہے اور تہذیبی وفکری بھی ہے اور تعلیمی بھی۔مغرب کے اس ہمہ جہت تسلط سے عالم اسلام کے ہر کونے میں نہ صرف منفی اثرات ڈالے بلکہ بے شمار مسائل بھی پیدا کئے ،اس کے ساتھ ساتھ اس نے یا تو اسلام کو مسخ کرنے کی کوششیں کیں یا اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے اور اسلام کے پیغام رحمت کو گدلاکرنے کی بے شمار کوششیں کیں اور اس کے علاوہ اہل اسلام اور اس کے علمبرداروں پر آئے دن نت نئے الزامات اور لیبل چسپا ںکرکے ہراساںکرنے کی کوششیں بھی جاری و ساری ہیں۔استعماری قوتیں ہر جگہ نت نئے حربوں اور سازشوں کے ساتھ عالم اسلام میں پنجے گاڑ رہی ہیں۔ انھوں نے ہر ملک میں مداخلت کرنا اپنا فرض عین سمجھ رکھا ہے اور اس کے بغیر انہیں چین نہیں آتا ہے ۔
امت مسلمہ کو اس لحاط سے بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے اس کے علاوہ امت کو اندرونی مسائل اور چلینجوں سے واقف رہنا بھی ازحد ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ احیاء اسلام کے مشترکہ کاز کو آگے بڑھانے کے لئے ترجیحات کو بھی طے کرنا ہوگا۔دور جدید میں فروعی بحثوں کو موضوع گفتگو بنانا،اختلافی مسائل کو اولین ترجیح دینا درس و تدریس کے روایتی نظام سے چمٹے رہنا،تقریروں اور کچھ کتابوں کی صورت میں اپنے آپ کو دینی سرگرمیوں سے وابستہ رکھنا،فتوے دینا،خطابت و امامت و مدارس چلانا،دینی جلسے کروانا،جنازے اور نکاح پڑھانا یہ سارے کام اپنی جگہ اہم ہیں، مادہ پرستانہ اور باطل افکار کا نظریہ اور فلسفوں کا ادراک کرنا اور ان کا فکری اور علمی انداز سے جواب دینا اور توڑ کرنا احیاء اسلام کے علم برداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ صرف مدلل اور منطقی انداز سے باطل نظریات کا رد کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ان افکار و نظریات کا دین اسلام کی صورت میں متبادل پیش کرنا بھی انتہائی اہم اور ضروری ہے۔
گزشتہ زمانہ کی طرح عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ کو نت نئے چیلینجز درپیش ہیں جو فکری اور تہذیبی نوعیت کے بھی ہیں اور اقتصادی اور معاشرتی نوعیت کے بھی۔یہ فکری مسائل ہماری دینی فکر اور اس کے پورے Discourseپر غالب آنے کی زبردست کوششیں کر رہے ہیں۔ عصر حاضر میں ہمیںپیش آمدہ چیلینجوں کے تقاضوں کے مطابق انتہائی جرأت و اعتماد کے ساتھ ساتھ علمی،استدلالی، سنجیدگی اور منصوبہ بندی کرنے کے علاوہ قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے نئی راہیں نکالنی ہوں گی ،ایسی راہیں جو تقلید،نقل اور جذباتیت سے محفوط اور سطحیت سے بلند تر ہوں ،نیز جہاں بانی اور جہاں بینی جیسے عظیم مشن کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ امت مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے تجدید و احیائے دین کی منزل کی طرف جو کہ اس امت کا نصب العین بھی ہیں ،کو راستہ دکھانا ہوگا ،اغیارکے بتائے ہوئے راستوں سے خبر دار رہنا ہوگا کیوں کہ ان کے دکھائے ہوئے راستوں نے نوع انسانیت کو ہمیشہ سے گمراہی میں دکھیلا ۔بقول محمد اسد’ؒ’احیائے اسلام کے لئے ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنا چاہیں ،ہمیں بس پرانے بھولے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے، بیرونی تہذیبں ہمیں نیا تحریک دے سکتی ہے لیکن کوئی غیر اسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی خواہ اس کا ماخذ مغرب ہو یا مشرق‘‘ ۔ ان کے مطابق اس وقت امت مسلمہ جن مسائل اور الجھنوں میں گھری ہوئی ہے، ان سے نکلنے کا راستہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمیں قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور کی طرف رہنمائی کے لئے رجوع نہیں کرنا چاہیے ،اللہ کی کتاب اور سنت رسول ﷺ کے سوا کوئی بھی چیز قابل اعتماد نہیں ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ عصر حاضر کے غلط نظریات اور تہذیبوں کے میدانِ کارزار میں اجتہادی قوت و بصیرت کے ساتھ نت نئے چیلینجوں کا سامنا کرکے انتہائی شعور و بصیرت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا ۔اگران فکری چیلینجوں کو بہترین صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ ایڈرس نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ امت مسلمہ اپنی اصل حیثیت کھودے گی اور یہ بے وقعت ہو کر رہ جائے گی۔