اسلامو فوبیا(Isalamophobia)اسلام دشمن قوتوں کی بیمارذہنیت اور نفسیاتی عارضے کی توضیح کر نے والی اصطلاح ہے ۔ اس قابل علاج بیماری میں مبتلا ہونے والا ذہنی طور مریض ، اخلاقی طور بزدل ، نفسیاتی طور انتقام پسند ، جذباتی طور درندہ صفت ، نظریاتی طور متعصب اور جنونی ہوتا ہے۔ وکی پیڈیا میں ’’اسلا مو فوبیا‘‘ اصطلاح کے یہ معانی درج ہیں:’’اسلامو فوبیا(اسلام سے خائف ) یعنی اسلام سے دشمنی۔اس کو انگریزی میں (Islamophobia) کہتے ہیں یا اسلام سے خوف زدہ ۔یہ نسبتاً ایک جدید لفظ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے مفہوم میں بے جا طرف داری ،نسلی امتیازاور لڑائی کی آگ بھڑکانا بھی شامل ہے ۔بہت سارے ماہرین اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ مسلمانوں یا پھر ان کی شدت پسندی کے خلاف ایک جارحانہ جوابی حکمت عملی ہے ۔اس اصطلاح کا استعمال 1976ء کے آغاز سے ہوالیکن اسی اور نوے کی دہائیوںمیں اس کا استعمال بہت کم رہا۔۱۱ ؍ستمبر کو ورلڈٹریڈ سنٹر پر تحقیق طلب دہشت گردانہ حملے کے بعد اس لفظ کا استعمال کثرت سے مسلمانوں کے خلاف کیا گیا۔ ’’اسلامو فوبیا‘‘ کی بناپر مغرب خصوصاًامریکہ ،اسرائیل اور روس نہتے کلمہ خوانوں پر وقتاًفوقتاً بھوکھے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔پہلے روس نے افغانستان پر فوج کشی سے اپنی مکارانہ بہادری کا مظاہر کرتے ہوئے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی، شاداب بستیوں کو ویران کر دیا ، انسانوں کو زندہ درگور کیا ، منبر و محراب کو زمین بوس کر دیا، پھر جب روسی قابضین اور ان کے مقامی چیلے چانٹوں کی مزاحمت میں افغان مجاہدین نے سرفروشانہ کا میابی حاصل کی تو سوؤیت روس شکست کھا کر افغانستان سے دُم دبا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ افسوس کہ امریکہ نے روسی انخلاء کے بعد کابل میں نہتے مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ اپنی توپ وتلوار کے سر لیا۔اس نے حیوانیت کی حد کر کے افغانستان کو بم اور بارودسے تاراج کر دیا ،قبرستانوں کے قبرستان آباد کر دئے، اپنے مقامی دُم چھلوں اور پٹھوؤں کو حکومتی مناصب کی رشوت دے کر خر یدلیا مگر تاریخ کے چکر میں واشنگٹن کابل میںروس جیسا حشر دیکھتے ہوئے طالبان سے راہِ فرار پانے کے لئے ان کے پیر پکڑرہاہے ۔ افغانستان میںامریکی کارستانیوں کے پیچھے بھی امریکی اسلاموفوبیا کافرما رہا۔ بنابریں امریکہ نے weapons of mass destructionکا جھوٹ تراش کر عراق میں لاکھوں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کھایا۔ وجہ یہی تھی کہ مابعد سرد جنگ ا ب دنیا کے سپر پاور کواسلام اپنے لئے درد سر محسوس ہوا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام کو دبانے اور مسلمانوںکو کچلنے کے لئے امر یکہ نے یہ جو صلیبی غنڈوں کو ناٹو کے نام سے جمع کر کے فلسطین اور شام کو خون میں نہلایا ہوا ہے،اس کے پس پشت بھی اسلاموفوبیا کاخوف ہی دخیل ہے ۔ آج جب انتہا پسندٹرمپ کی قیادت میں امر یکہ کبھی فلسطین میں اپنا سفارت خانہ مقبوضہ یروشلم منتقل کر رہاہے ، کبھی گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کا ’’جائزہ ‘‘حصہ قراردے رہا ہے ، کبھی مسلم دنیا میں واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو بہلا رہاہے اور کبھی اسے دھمکا رہاہے، کبھی مسلم ممالک کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینے کی گیڈر بھبکیاں دے رہاہے، اسلاموفوبیا کا مرض شرق وغرب میں وبائی صورت اختیار کر چکاہے، جس کی ایک تازہ مثال نیوزی لینڈ میں پیش آمدحالیہ درد انگیز واقعہ ہے ۔ 15؍مارچ کو عام دنوں کی طرح جب نیوزی لینڈ میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی ہورہی تھی، کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں ایک سفید فام عیسائی دہشت گرد28؍سالہ برنٹن ٹیرنٹ نے درندگی کا سیاہ کارنامہ انجام دیا۔ اس جنونی قاتل نے نماز میں محو 50؍مسلمانوں کوبڑی ہی بے دردری کے ساتھ یکے بعد دیگرے شہید کر دیا۔اس سفاک دہشت گرد نے صلیبی جنگ اوراسلامو فوبیا کی نفسیات کے زیر اثر اس قتل عام کی لائیو ویڈیو فیس بک پر فلما کر دنیا کو اپنے جرم کا عینی گواہ بنایا۔ اس فلم سے دنیا نے سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ عیسائی درندے نے ایک منظم حیوانی سوچ کے تحت بچوں بچیوں کو یتیم کر ڈالا، بہنوں کے سہاگ چھین لئے، بزرگوں کو تڑپا تڑپا کر قتل کیا۔شہدائے نیوزی لینڈ کے پاک خون سے مسجد النور کے درو دیوار لالہ زار ہو گئے ، مصلوں اور قرآن کے نسخوں پرخون کی تہیں بچھ گئیں ، جب کہ نمازی اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔
آج تک یہی دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر اس طرح کے سفاکانہ مظالم ڈھائے جائیں تواکثر وبیشتر دنیا کی آنکھیں بے نور ، دل سنگ، ذہن مفلوج اور زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ عیسائی اور یہودی دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کو ’’نادانستہ غلطی ، دماغی خلل ، نفسیاتی مرض کا شاخسانہ ‘‘ کہہ کر ان کی دہشت پسندی کی پردہ پوشی کر لیتی ہے ۔ نیوزی لینڈ نے عیسائیوں اور یہیودیوں کے اس آزمودہ جھوٹ کی قلعی کھول دی اور ا س بار مغرب پورا ننگاہو ا۔ اب اس کے معذرت خواہوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا کوئی’’ نفسیاتی مریض‘‘ اپنی بندوق پر ماضی میں لڑی گئیں صلیبی جنگوں کی تاریخ لکھ کر ، اپنے سر پر کیمرہ لگا کر، اپنی گاڑی میں صلیبی جنگوں کے ترانے سن کر درجنوں بے گناہ انسانوں کا قتل عام یونہی جنون کے عالم میںکر سکتا ہے یا اس کے پیچھے کوئی منظم سوچ کارفر ما ہوسکتی ہے ؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ا غیارکی نظر میں صدیوں پہلے بھی کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے اور آج بھی اسلام، بلادِاسلامیہ اور مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں اور صہیونیوں کی جانب سے عالمی سازشیں مسلسل رچائی جا رہی ہیں۔ یہ ایک مستقل جنگی آویزش ہے جس کے تحت مسلمان کو معاشی ،سیاسی اور تہذیبی سطح پر غلام در غلام بنا نے کا اوچھا سلسلہ جا ری ہے ۔ اسی پس منظر میں اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر دنیا میں متواتر بدنام کیا جارہاہے، مسلمانوں کو عالمی امن کے لئے ایک اٹم بم کے طور پیش کیا جا رہاہے، مسلمانوں کے تہذیب وتمدن اور عقائد و افکار کا تمسخرہ اُڑایاجارہاہے، طرح طرح کے مفروضوں سے مسلمانوں کے خلاف انسانیت کش واقعات رونما کروائے جارہے ہیں۔ فریب کاریوں کی اس بھدی کہانی کے مرکزی کردار عیسائی اوریہودی ہیں مگران کے شانہ بشانہ وہ بے ضمیر چمچے بھی دونوں کے اعانت کار ہیںجو مذہبی جنون کو ووٹ بنک سیاست میں بدل دینے کا مکارانہ فن بخوبی جانتے ہیں ۔ یہود یوں کی قائم کردہ صدیوں پرانی خفیہ تحریک فری میسن (Freemason) یا ماسونیت کی دہشت پسند تحریک پیش پیش ہے۔ فری میسن فتنے کے حوالے سے کشمیر کے ایک نوجوان مصنف مجتبیٰ فاروق اس تنظیم کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’فری میسن ایک خفیہ عالمی تحریک ہے اور یہ یہودیوں کی شرپسند تحریک ہے اس کا مقصد عالمی سیاست پر یہودیوں کا کنٹرول کرنا ہے اس کا قیام کے بعد اٹھارویں صدی میں برطاینہ میں 1717ء میں اس کے بارے میںلوگ با خبر ہوئے، اس تحریک کا دائرہ کار حکمران ،بیروکریٹس ،امراء ،مذہبی رہنما و شخصیات اور بڑے بڑے تاجر وں پر محیط ہے ،اس تحریک نے انہی اعلیٰ طبقات کو توجہ کا مرکز بنایا اور انہی پر یہ تحریک کام کر رہی ہے یہ خفیہ تنظیم منفرد انداز میں کام کر رہی ہے، جس کو سمجھنا بے حد مشکل ہے ۔دنیا بھر میں اس کے کارکنان ہیں اور صرف امریکہ میں اس کے ممبروں کی تعداد اسی لاکھ کے قریب ہے ۔خیراتی اداروں کے ذریعے سے یہ اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہی ہے، اس تحریک کے پاس کھربوں ڈالر کے فنڈس ہیں، اس کا ہر کام یہودیوں کے مفاد میں ہوتا ہے، اس سے سب سے زیادہ فائیدہ اسرائیل کو ملتا ہے۔ عالم اسلام میں یہ خفیہ تحریک زبردست سازشیں کر رہی ہے۔ اس کا ہر بڑے ادارے میں اثر ورسوخ قائم ہے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہUNOکے دس اہم اداروں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فری میسن کے کارکنان قابض ہیں اور امریکہ کے سب سے بڑے اداروں میں سے 54پر فری میسن ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔کرائسٹ چرر چ کا حملہ آور برطاینہ کا یہودی شخص ہے اس کے خاندان کو 1948ء کے جنگ کے بعد فلسطین سے نکال دیا گیا اور آسٹریلیا میں سکونت پزیر ہوئے ۔ اس دوران حملہ آور نے اسرائیل کا کئی مرتبہ دورہ کیا اور فوراًفری میسن کے رُکن بن گئے ۔‘‘
تاریخ عالم میںیہودیوں کی فتنہ پردازیاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ چنانچہ مسجد النور کی طرح۲۵؍ فروری ۱۹۹۴ء کو مسجد الخلیل ہبرون فلسطین میںصیام کی نماز فجر اداکر رہے تھے کہ گولڈاسٹین نامی ایک یہودی فوجی ڈاکٹر اندرجا گھسااور موقع پر ہی سر بسجدہ ۵۰؍ سے۷۰؍ مسلمانوں کو شہید کرڈالا اور ۲۵۰؍ نمازیوں کو زخم زخم کیا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے خلاف دنیا بھر میں صیہونیوں کے غم و غصہ کی لہر دوڑگئی، اسرائیل نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر دہشت گردی کے ا س وا قعے کی مذمت کی مگر قاتل کودہشت گرد تسلیم نہیں کیابلکہ نفسیاتی مریض کہہ کر پکارا ۔ قتل ِعام کی اس واردات کے بعد صدائے احتجاج بلندکر تے ہوئے شہدائے مسجد الخلیل سے زیادہ فلسطینی مظا ہرین اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ مسجد الخلیل کے المیے کے بارے میں اسرائیلی فوج پیشگی طور مطلع تھی مگر ا س نے کوئی مدافعانہ اقدام نہ کیا۔اسی طرح نیوزی لینڈ حملہ کوئی حادثاتی حملہ نہیں ہوسکتابلکہ یہ دنیائے یورپ میں مسلمانوں کو مار بھگانے کی ایک سوچی سمجھی چال ہے ۔ بات یہ ہے کہ لاکھ مخالفتوں کے باوجود اسلام مغرب میں تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اسلام کے اس ایڈوانس مارچ کو روکنے کے لئے دُنیا بھر میں بہت سی تحریکات کام کر رہی ہیں ۔گزشتہ دنوں 2017ء کی ایک رپورٹ زیر عنوان’’ آسٹریلیا میں اسلام بیچا گیا؟‘‘سے یہ بات آشکارا ہوئی کہ 2017ء میں اسٹریلیا بھرمیں اسلام کے خلاف پورے ایک سال تک منفی پروپگنڈا کیا گیا۔ آسٹریلیاکے پانچ بڑے اخبارات میں ا س سال اسلامی دہشت گردی ،اسلامی شدت پسندی اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے و الے عنوانات سے تین ہزار مضامین شائع کئے گئے۔اوسطاً ہر روز اس سال آسٹریلیائی عوام نے آٹھ اسلام مخالف مضا مین پڑھے جن میں صرف یہ تاثر اُبھارا گیا کہ مسلمان بنیادی طور پر دہشت گرد ہیں ۔ ان میں سے 152؍ مضامین اخبارات کے سرورق پر شائع کئے گئے تاکہ سب کی نظر میں آجائیں ۔اسٹریلیا میںمسلمانوں کے خلاف نفرت کی آندھی چلانے کی ایک اورمثال ملاحظہ ہو ۔ Essential Report pollکے مطابق 2015ء میں 49%آسٹریلوی عوام نے مسلم امیگریشن پر پابندی لگا دینے کا ساتھ دیا۔رپورٹ کے اخیر میںایک اہم بات یہ کہی گئی کہ 2015ء میںگریفٹ یونیورسٹی (Griffith university)کی سروے کے مطابق اسٹریلیاکی 70فیصد عوام مسلمانوں اور اسلام کے متعلق یا تو تھوڑا بہت یا کچھ بھی نہیں جانتی ۔یوں عام خام لوگوں کے اذہان میںمغرب کے نسل پرست عناصر اور اسلام مخالف تحریکات نفرت کے بیج بو کراسلا م کی ایک گھنائونی تصویر منقش کر ر ہے ہیں ۔ مغربی اخبار گارجین 20(Guardian)؍جون 2016ء اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کر تاہے :’’ امریکہ میں ایسے 74؍منظم گروپ لوگوں میں مسلمانوں کا خو ف پیدا کرتے ہیں اور مسلمانوں سے نفرت کے جذبات کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ انسان دشمنانہ کام کر نے کے لئے ان پریشر گروپوں کو 206ملین ڈالر اداکئے گئے ہیں ‘‘۔ایسی پیچیدہ صورت حال میں مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ دنیا کے سامنے اسلام کو اپنے اصل شکل میں پیش کرتے لیکن ستم ظریفی ہے کہ مسلمان آپس میں مسلکی سرپھٹول سے فرصت ہی نہیں پاتے ۔ جب امت ِواحدہ گروہوں اور جماعتوں میں بٹی ہو، اچھے مسلمان اور بُرے مسلمان کے ناموں سے یاد کی جارہی ہو، ڈیڑھ انچ کی مسجد تعمیر کر نے میں خوش وخرم ہو ،تکفیر بازی اور مقلد و غیر مقلد کے پانی پت میںاُلجھی ہو ، تو مغرب کی ریشہ دوانیوں کا توڑ کر ے گاکون ؟ جس طرح یہ ایک المیہ ہے اورا سی طرح یہ امر بھی چشم کشا ہے کہ کرائسٹ چرچ کے حملہ آور درندے نے گولیاںچلاتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ کون کس مسلک کا بندہ ہے ، کون نماز میں ہاتھ کہاںباندھتا ہے ، کون آمین جہراً کہتا ہے اور کون سراً ۔ اس کے سامنے ایک واحد نکتہ یہ تھا کہ سب نمازی کلمہ گو ہیں ، نبیٔ مہربانﷺ کے اُمتی ہیں ، ایک قبلہ کے پابند ہیں، ایک ہی کلام اللہ ماننے والے ہیں، اس لئے عیسائی دہشت گرد کی بے رحم گولیاں ہر ایک مسلمان کا سینہ بلا کسی تفریق وتمیز چھلنی کر تے گئیں ۔
بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ کرائسٹ چرچ کا دہشت گرد انہ حملہ نائن الیون کے پس منظرمیں مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جانے والی نفرت کا جارحانہ تسلسل ہے۔چونکہ امریکہ نے بغیر کسی ثبوت وشواہد کے نائن الیون کے سانحے کو فوراًسے بیش تر مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا، ا س لئے عیسائی دنیا سرکا ری اور اجتماعی سطح پر بلا تامل مسلمانوں کے درپئے آزار دیکھی گئی ہے ۔ آج جب یہ عام روایت بنی ہے کہ دنیا میںعالی دماغ کہلا نے والا ہرصدر، وزیراعظم، بادشاہ ، لیڈر، دانش ور دہشت گرد وں کی مذمت کر کے انگلی کٹاکے شہیدوں کی صف میں کھڑا ہو مگر شاہان ِ مغرب سمیت یہ لوگ اس بارہ میںselective ہوتے ہیں۔دہشت گردوں کو بجاطور صلوٰتیں سنائی جائیں ، متاثرین کی ڈھارس بند ھائی جائے ، مر نے والوںکی یاد میں شمعیں روشن کی جائیں ، ان کے تابوتوں اَرتھیوں پرگل باریاں کی جائیں ، عالمی لیڈر ٹرئیرازم مخالف تقاریر اور بیانات کی بھرمار کریں ،تو کیا وجہ ہے کہ کرائسٹ چرچ دہشت گردانہ حملہ میں اس طرح کی کوئی حرکت وجنبش کہیں نظر نہ آئی؟ کیا سبب ہے کہ سوائے ایک نیوزی لینڈوزیراعظم جسیندا آرڈرن کہیں کوئی عالمی لیڈر سامنے نظر نہ آیا ؟ ظاہر ہے یہ سیاہ کاری اُس سفید فام دہشت گرد نے انجام دی تھی جو صلیبی شہمار ، ٹرمپ کاfollower اور اسرائیل کا چہیتا ہے ۔اس لئے اس پر دنیا خاموش رہی ، شمعیں روشن نہ ہوئیں ، احتجاج نہ ہوئے ، مذمتی بیانات تک میں لکنت پائی گئی اور بڑی ڈھٹائی سے سفید فام عیسائی دہشت گرد کو نفسیاتی بیمار کہہ کر اس کے سنگین جرم کی شدت نصف سے زیادہ کم کی گئی ۔ 57؍آزاد مسلم مملکتوںکے حکمرانوں کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگی بجز اس کے کہ حرمین شریفین میں شہدائے مساجد کاجنازۂ غائبانہ اداکیا گیا اور اوآئی سی نے روایت لکیر پیٹتے ہوئے ایک عدد اجلاس بلایا اور بس۔ حملے کے فوراً بعد وزیر اعظیم آرڈرن کا رول تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے اس المیے پر سیاست کر نے کے بجائے بڑے خلوص اور اپنائیت کے ساتھ شہداء کے لواحقین کے ساتھ دلی اظہارِ تعزیت کی اور خونی قاتل کو دہشت گرد پکارنے میں کوئی رُو رعایت نہ کی ۔ پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میںا ن کا یہ کہناکہ میں اس دہشت گرد کا نام نہیں لوں گی بلکہ میں اس پاکستانی شہری نعیم رشید شہیدکا نام لوں گی جس نے دوسروں کو بچانے کے لئے سفاک دہشت گرد کی بندوق پکڑنے کی کوشش میں اپنی جان گنوا دی ۔ نیوزی لینڈ کے شہریوں نے مساجد کے باہر حفاظت کی نیت سے پہرے دے کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ نیوزی لینڈ کے سوگوار عوام غم زدہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں ۔ ۱۵؍ مارچ کے بعد ۲۲؍مارچ کی نماز جمعہ کے دن وزیراعظم صاحبہ اور ہزاروں عیسائیو ںنے مسجدالنور کے احاطے میں جمع ہوکر مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ، یہاں تک کہ جمعہ کا خطبہ اور اذان براہ راست نیوزی لینڈ کے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کیا گیا۔وہ لمحہ انتہائی رقت آمیز تھا جب وزیر اعظم جیسنڈرا نے حدیث رسولؐ پیش کر کے مسلمانوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی ۔ ا س ناقابلِ فراموش سانحہ نے جہاں انسانیت کادل چھلنی کر دیا ،وہیں وزیراعظم نیوزی لینڈ کی صورت میں یہ اُمید بھی جگائی کہ اندھیرنگری کے باوجود عالمی سطح پر حق وصداقت کا سورج طلوع ہونے میں نہ تعصب ، نہ تنفر ، نہ توپ ،نہ تفنگ رُکاوٹ بن سکتی ہے ۔