انسان نہ صرف روح کا نام ہے نہ فقط جسم کابلکہ دونوں کے مجموعے کو انسان کہا جاتا ہے، اسی لئے نوعِ انسانی کا عالمگیر اور ابدی دین وہی ہو سکتا ہے جو روح اور جسم دونوں کے تقاضوں کو پورا کرے، جو دونوں کی نشو نما و بالیدگی کا ضامن ہو۔ دونوں میں باہمی کشمکش اور محاز آرائی کو ختم کرنے اور ان میں ایسی ہم آہنگی پیدا کردے کہ دونوں ایک ہی راہ پر ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں رہیں۔مذہب کے نام پر جو نظامہائے حیات اس وقت موجود ہیں وہ مادی نظامہائے فکر سے مات کھا چکے ہیں اور اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضانہیں کر سکتے کہ وہ بے را ہ روی کو چھوڑ دیں، ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اس مذہب کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے رکھیں اسکے بعد جو جی میں آئے کریں، شراب پئیں، جوا کھیلیں،شبینہ کلبوں میں دادِ عیش دیں، ننگے ناچ ناچیں، سودی کاروبار کریں، جس طرح جی میں آئے غرباء ، مساکین و دیگر ضرورت مندوں کا خون چوستے رہیں، مذہب کوئی مزاحمت نہیں کرے گا۔ دوسری طرف موجودہ دور کے مادی نظام کے نزدیک انسان کے انسانی و جذباتی پہلووں کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور سرمایہ داری و اشتراکیت کے دو پاٹوں میں سار ی انسانیت پِستی چلی جا رہی ہے اور دم توڑ رہی ہے۔
اس ہنگامہ دارو گیر میں کہیں امید کی کرن نظر آتی ہے، تووہ سرورِ کائنات فخر موجودات احمدمجتبیٰ محمد الرسول اللہ ؐ کا لایا ہوا دین ِ فطرت ہے جسے ہم دین ِ اسلام کے نام سے پہچانتے ہیں، دیگر مذاہب کے برعکس اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کے جسمانی و روحانی دونوں پہلووں کو نظر میں رکھتا ہے۔ چونکہ اسلام دین ِ فطرت ہے لہٰذا یہ صرف انسان کے روحانی پہلوکو ہی (address) نہیں کرتا بلکہ انسان کی معاشرتی، تہذیبی،معاشی، سیاسی، عمرانی، اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک مکمل نظامِ حیات فراہم کرتا ہے۔جسے سمجھنے اور نافذ کرنے کی ضرورت شاید جتنی پہلے تھی، آج کے دورِ انحطاط میں اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
اسلام نوعِ انسان کو ترکِ معاش و ترکِ حرکت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ حلال طریقے سے جا بجا کسبِ مال، اکتسابِ دولت اور حصولِ منفعت کی ترغیب دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض و ا بتغو من فضل اللہ (الجمعہ: ۱۰)
یعنی پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کیا کرو۔
حضورؐ کا ارشاد ہے: ’طلب الحلال واجب علٰی کل مسلم‘ یعنی رزقِ حلال تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ حرام معاش سے بچنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایک اور مقام پر آقا ؐنے فرمایا: جس کے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ چلا جائے اس کی چالیس روز کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشو نما کے لئے زمین و آسمان سے اسکی ضروریاتِ زندگی، خوراک، پوشاک اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایک معقول انتظام کیا ہے اور اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسل ِ انسانی کے دشمن شیطانی عناصر، خدا کے پیدا کئے ہوئے وسائلِ رزق پر غاصبانہ تسلط کئے ہوئے ہیں۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سر چشموں پر قابض ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائیش میسر ہو۔ اللہ کی رزق سے وہ بھی متمع ہوں اور عزت و وقار سے زندہ رہیں۔
قرآنی نظامِ ربوبیت چونکہ ہر ضرورت مند کی ضرورت کا کفیل ہے لہٰذا جو مالدار لوگ اس نظام کے قیام میں رکاوٹ ڈالیں وہ ایک طرف اللہ کے دشمن ہیں اور دوسری طرف عام انسان کے بد خواہ۔ وہ اللہ کی نعمتوں پر قابض رہنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سماج کے نچلے طبقوں کی عزت، آبرو، آزادی یہاں تک کہ انکی زندگی اور موت بھی انکے ہاتھوں میں گروی ہو۔
ہر ملک میں خواہ وہ معاشی طور پر ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو، ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے، جو بعض ناگزیر وجوہات کے باعث افلاس و تنگ دستی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کفالت کی زمہ داری اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ حیثیت لوگوں پر ڈالی ہے۔اللہ نے جہاں اپنے بندوں کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہاں حاجت مند کی اعانت کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور اس سے اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج اور توازْن پیدا ہو گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں صرف رسومِ عبادت کو بجا لانا ہی نیکی نہیں بلکہ صدق دل سے ایمان لانا اور اللہ کی محبت کی خاطر رشتہ داروں،یتیموں، مسکینوں اور حاجت مندوں میں مال تقسیم کرنا حقیقی نیکی ہے۔ اسلام کے نیکی کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ ارشاد فرماتاہے:لیس البر ان تولّوقبل المشرق و المغرب ولکن البر من اٰمن باللہ…الخ (البقرہ:۱۷۷)
یعنی نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پراور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پراور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پر ہیز گار ہیں۔
سورہ مدثر میں اس موضوع کو ایک انوکھے پیرائے میں پیش کیا گیا ہے کہ اہل ِ جنّت اہل ِ جہنم سے پو چھیں گے کہ انہیں کون سا جرم دوزخ میں لے گیا وہ جواب دیں گے: قالو لم نک من المصلین ولم نطعم المسکین یعنی ہم اس جرم کی پاداش میں دوزخ کا ایندھن بنا دئے گئے کہ ہم اپنے پروردگار کی جناب میں سجدہ نہیں کرتے تھے اور مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ گویا قرآن کی نظر میں نماز ادا نہ کرنا اور کسی غریب کی ضروریاتِ زندگی کو پورا نہ کرنا دونوں یکساں نوعیت کے گناہ ہیں۔
اسلام نے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اخلاق و قانون دونوں سے کام لیا ہے۔قانون سازی کرکے زکوٰۃکی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقررہ و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحبِ ثروت لوگوں سے لے کرضرورت مندوں کی کفالت کا بند و بست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل کر دیا ہے۔چونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:الذّین ان مکننٰھم فی الارض اقامو االصلوٰۃ و اٰتو االزکوٰۃ و امرو با لمعروف و نھو عن المنکرط (الحج:۴۱)
ترجمہ: (یہ اہل ِ حق) وہ لو گ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام)قائم کریں اور زکوٰۃکی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور(پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور(لوگوں کو) برائی سے ر وک دیں۔نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا ہے: توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم یعنی زکوٰۃان کے امیروں سے لی جائے اور اْن کے غریبوں پر لوٹا دی جائے۔دوسری طرف اسلام نے اخلاق سے کام لے کر جابجا محروم طبقات کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نفلی صدقات کی بھی ترغیب دی ہے:ارشاد فرمایا:ویسعلونک ماذا ینفقون قل العفو (البقرہ:۲۱۹) ترجمہ:اور(یا رسول اللہؐ) یہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا (راہِ خدا) میں خرچ کریں، آپ فرما دیجئے جو کچھ بھی ضرورت سے بچ جائے۔ ایک اور مقام پر فرمایا:و فی اموالھم حق للسائل والمحروم (الذاریات:۱۹) یعنی اور انکے مالوں میں حق ہے مانگنے والے کا اور محروم (سب حاجت مندوں) کا۔
’مالداروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے‘کہہ کر بتا دیا کہ ضرورت مند کو لینے میں شرم نہیں کرنی چاہئے اور مالدار کو دینے میں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ سائل پر کوئی احسان کر رہا ہے۔وہ اپنا حق لے رہا ہے اور یہ اپنا فرض نبھا رہا ہے۔
رسولِ رحمت ؐکا ارشاد ہے: کادا الفقر ان یکون کفرا (رواہ البیھقی) قریب ہے کہ غریبی کفر ہو جائے، یعنی غریبی انسان کو اس قدر توڑ کر رکھ دے گی کہ انسان اپنا پیٹ پالنے کے لئے کفر جیسا سنگین گناہ بھی اختیار کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔مغرب کے معاشی نظام نے ایک چھوٹے سے طبقے کی رونق تو دوبالا کردی ہے مگر بھوک کی عالمگیر مصیبت کو ختم کرنا کبھی اس کے پیش نظر نہیں رہا کیونکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق ہر شخص کی دولت صرف اسی کے لئے ہے اور جو پیچھے رہ جائے اس کے لئے کوئی راہ نہیں۔اس نظام کے مطابق کشمکش حیات میں زندہ رہنے کا حق اسی کو ہے جو اس دوڈ میں دوسروں سے آگے نکل جائے۔ظاہر ہے اس قسم کے نظام سے غربت کو ختم کرنا ناممکن ہے۔اس کے برعکس اسلام کا معاشی نظام فرد کی کفالت پر مبنی ہے اور اس کے ذریعے غرباء و ناداروں کو فوری طور پر اول محرومی کا الاؤنس مل جاتا ہے جس سے اس کی بنیادی ضرورتوں کی فوراً کفالت ہوجاتی ہے۔
ارکانِ اسلام میں زکوٰۃ نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن ہے۔قراٰن میں ۸۲ مقامات پر زکوٰۃ ادا کرنے کا تاکیدی حکم آیا ہے اور ۳۲ مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر یکجا کیا گیا ہے جس سے اسلام میں زکوٰۃکی اہمیت اور مقام کا انداز ہ کیا جا سکتا ہے۔جس طرح نماز حقوق اللہ کی ادائیگی کی سب سے اہم کڑی ہے اسی طرح حقوق العباد میں یہی حیثیت زکوٰۃکو حاصل ہے۔
زکوٰۃکے معنی پاکیزگی اور صفائی کے ہیں، اپنے مال سے بخوشی خدا کا حق نکالنے سے مال بھی پاک ہو جاتا ہے اور آدمی کا اپنا نفس بھی خود غرضی، دنیا پرستی اور مادہ پرستی سے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتا ہے: خذ من اموالھم مصدقۃ تطھّر ھم و تزکیھم بھا۔ یعنی (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ان ( مومنوں ) کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے کر ان کے ظاہر و باطن کو پاک صاف کیجئے۔ (التوبہ:103)
زکوٰۃکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرتِ ابو بکرؓکے دورِ خلافت میں جب بعض قبائل نے بیت المال میں زکوٰۃ جمع کرنے سے انکار کردیا تو آپؓ نے ان سے تب تک جنگ کرنے کا فیصلہ کیا جب تک وہ اسی طرح زکوٰۃ ادا نہیں کرتے جس طرح دورِ نبویؐ میں ادا کیا کرتے تھے۔حالانکہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے اور اسلا م کا اقرار بھی کرتے تھے۔آپؓنے فرمایا: اللہ کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ فرق کریں گے، میں ضروران کے خلاف جہاد کروں گا، پھر تمام صحابہ کرام نے اس نظرئے کو قبول کیا اوراس پر سب کا اجماع ہو گیا۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ اسلام میں ساری نیکیوں کی حیثیت نماز اور زکوٰۃ کو حاصل ہے۔ دوسری نیکیاں انہیں دو بڑی نیکیوں کے تحت ہیں۔غور کیجئے تو ایک آدمی کے اللہ کا پیارا بندہ بننے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک اِس چیز کی کہ وہ اپنے رب سے ٹھیک ٹھیک جڑ جائے اور دوسری چیز یہ کہ خلق(یعنی لوگوں) کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیاد پر قائم ہو جائے۔نماز انسان کو اپنے رب سے صحیح طور پر جوڑ دیتی ہے اور زکوٰۃ و انفاق سے خلق سے اس کا تعلق صحیح بنیاد پر استوار ہو جاتا ہے۔ایک شخص اپنے رب کے حقوق ادا کرتا ہے اور خلق کے حقوق پہچانتا ہے تو وہ تمام نیکیوں کی چابی پا لیتا ہے۔ان ہی د و عبادات کی مدد سے وہ دوسری ساری نیکیوں کے دروازے بھی کھول لیتا ہے اور دیگر اعمال کو اختیار کرلینا اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔
زکوٰۃ اسلام کے اقتصادی نظام (System Economic ) میں ریڑھ کی ہڈی (backbone)کی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرزِ زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جایں اور رزقِ حلال کے دروازے کھلتے چلے جایں۔اس لئے اسلام نے ہر صاحب ِ مال پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد (2.5فیصد)کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر بیت المال میں جمع کرادے تاکہ وہ اس سے معاشرے کے پس ماندہ اور محتاج افراد کی ضروریات پوری کرنے پر صرف کر سکے۔اس شرح سے اگر سب مالدار اپنے سال بھر کے اندوختہ مال سے اپنااپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں (Inequalities)بھی از خود دور ہوتی رہیں گی۔دورِ حاضر کے سرخیل ماہرِ اقتصادیات (economists top ) نے تسلیم کیا ہے کہ اگر اسلام کا نظامِ زکوٰۃعملاً نافذ کیا جائے تو جلد ہی دنیائے اسلام سے افلاس و غربت کا خاتمہ ہو جائے۔علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:"اسلام نے مسئلہ غربت کا جو حل پیش کیا ہے اور جس طرح ضرورت مندوں اور کمزوروں کی کفالت کا نظام قائم کیا اس
کی آسمانی مذاہب میں یا وضعی قوانین میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور اسلام نے اس سلسلے میں جو نظام تربیت و راہنمائی دیا ہے اور جو قوانین و تنظیمات (institutions ) فراہم کئے ہیں اور جو ان قوانین کے نفاذ اور تطبیق (applications ) کے جو قواعد بتائے ہیں ان کی دنیا کے مذاہب و قوانین میں کوئی مثال نہیں ملتی۔" (فقہ الزکوٰۃ)
یہ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کا ہی فیضان تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن عند العزیز ؓکے دور حکومت میں زکوٰۃ ادا کرنے والے تو ملتے تھے مگر زکوٰۃ لینے والے مشکل سے ملتے تھے اس قدر غربت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔لہٰذا اگر آج بھی زکوٰۃکا نظام تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں نافذ کیا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ مسلم سماج سے غریبی و لاچاری کا خاتمہ ہو جائے اور وہ مصطفوی و معاشی انقلاب پھر سے بھرپا ہوجائے جس سے ہر فرد و بشر کو امن و سکون کی زندگی میسر ہوجائے۔آج اس مقدس ماہ مبارک میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کی رضا حاصل کرتے ہوئے غرباء ، فقراء و مساکین کی بھرپور امداد کریں تاکہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد معاشی بدحالی سے نجات پاسکے۔