رئیس یاسین
زندگی خوشی اور غم کا حسین امتزاج ہے۔ بعض لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ غم ہی اٹھائے پھرتے ہیں ۔یہ قدرت کی طرف سے بغرضِ امتحان وہ حکیمانہ تقسیم ہے، جسے انسان چیلنج نہیں کرسکتا۔زندگی میں اللہ تعالیٰ کسی کو غم دے کر آزماتا ہے تو کسی کو خوشی دے کر آزماتا ہے۔البتہ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب کوئی خوشی قومی و ملی سطح پر اجتماعی طور منائی جاتی ہے۔ جیسے عید الفطر اور عید الاضحی کے موقعے پر ۔ ظہور اسلام کے بعد اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو خوشی منانے کیلئے سال میں دو دن عطا فرمائے۔ عید الفطر وعید الاضحیٰ جن میں سے عید الفطر کی خوشیاں آج ہمارے در پر دستک دے رہی ہیں، اور 57 کے قریب اسلامی ممالک پر مشتمل پوری ملت اسلامیہ اور دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان خوشی مناتے ہیں۔اسلام میںجہاںیہ دن خوشی کا اظہار کرنے کا دن ہے وہیں اسلام اِس خوشی کو منانے کا طریقہ بھی وضع کرتاہے۔ جیسے نہانا دھونا، پاکیزگی اختیار کرنا، حسبِ توفیق نیا لباس اور جوتے پہننا، خوشبو لگانا، نماز عید ادا کرنا، آپس میں تحفے تحائف دینا، ملنا ملانا، فطرانہ ادا کرنا اور دعوت و طعام کرنا ، تکبیرات کہنا، میٹھی چیز مثلاً کھجور کھانا وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ آج ان ساری چیزوں میں نمود و نمائش، اسراف اور دیگر شیطانی کاموں کا بھی کافی دخول ہوچکا ہے لیکن ہم یہاں اس بحث میں اُلجھے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔ بلاشبہ مالی طور پر آسودہ طبقات کے لیے عید واقعی ایک خوشی کا موقع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے مصیبت زد ہ اور بنیادی ضرورتوں سے محروم مسلمانوں کیلئے عید بھی کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہوتی ہے کیونکہ انہیں عید کی خوشیاں منانے کیلئے مطلوبہ وسائل میسر نہیں ہوتے جو کہ ہونے چاہئے تھے، جبکہ اُن کے معصوم بچے یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لائق بھی نہیں ہوتےہیں ۔ در حقیقت یہ امتحان نہ صرف تنگدست اور غریب کے لئے ہوتا ہے بلکہ یہ امتحان ایک مال دار طبقہ کے لیے بھی ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک احکام ِ خداوندی اور فرمانِ رسول اللہ ؐ کی پیروی اور پاسداری کررہا ہے۔بغور دیکھا جائے توسوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ عیدین کے موقعوں پرکیا ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر اُن لوگوں کا خیال رکھتے ہیں، جن کے گھروں میں روزانہ دو وقت کی روٹی پکانے کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔غور کیجئے کہ جہاں بیمار بچہ یا بوڑھا باپ علاج معالجے، میڈیکل ٹیسٹ و ادویات کے کی عدم دستیابی کے باعث موت کےمنتظر ہو تے ہیں،جہاں کئی لوگ اپنے بے گناہ عزیز قیدی کی رہائی کے لئے وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں،جہاںغریب گھرانوں کی جوان بیٹیاں جہیز کے نہ ہونے کے باعث بوڑھی ہو رہی ہوں،جہاںبیواؤں اور اُن کے یتیم بچوں کا اللہ کے سوا کوئی سہارا نہ ہو،وہاں وہ کیسے نئے لباس، جوتے، خوشبو، چوڑیاں، کھلونے، خرید سکتے ہیں؟وہ کیسے میل جول، دعوت و طعام، تحفے تحائف کا تکلف کرسکتے ہیں؟وہ کیسے دل کی گہرائیوں سے خوشیاں حاصل کرسکتے ہیں؟کیا ملت اسلامیہ کی یہ آفاقی خوشی بھی اِن لوگوں کے آنگن کا رخ نہیں کرسکتی؟ ایک طرف جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال و جائیداو موجود ہے،وہ عید کے دن اسراف اور فضول خرچی میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو دوسری طرف اس کا رشتہ دار، ہمسایہ غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اُس کے لئے یہ عید کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی۔
رمضان المبارک میں اُمت مسلمہ کی طرف سے بے پناہ انفاق، صدقات و خیرات اور ادائیگی فطرانہ و زکوٰۃ کے باوجود ہمارے بے شمار مسلمان گھرانے شدید تنگدستی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے، اس کے اسباب اور حل پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اول: زکوٰۃ کی ادائیگی میں بخل سے کام لینا۔ جہاں پر قرآن میں نماز کا حکم آیا ہے وہی پر زکوٰۃ کا حکم بھی آیا ہے۔ اگر سارے صاحب نصاب لوگ زکوٰۃ ادا کریں گے تو دنیا میں کوئی انسان بھی بھوک کی وجہ سے نہیں مرسکتا۔ ہمارے یہاں زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر جمع کرنا چاہیے ارو پھر اجتماعی طور پر مستحق افراد میں خرچ ہونی چاہئے ۔ لیکن یہاں پر اکثر لوگ زکوٰۃ دیتے ہی نہیں اوراگر کچھ لوگ زکوٰۃ دیتے بھی ہیں تو اجتماعی طور پر نہیں دیتےہیں ۔یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں امراء کی ایک بڑی تعداد زکوٰۃ ادا کرنے سے کتراتی ہے اور صدقات و خیرات کرنے پر اکتفا کرتی ہے جو کہ اُن کے ذمہ زکوٰۃ سے بہت کم ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے اور اس فرض سے روگردانی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔اس لئے اپنے ذمہ واجب الادا زکوٰۃ کومستحقین کا حق سمجھ کر، اُن تک یہ حق پہونچانا اپنا فرض جان لینے کی ضرورت ہے۔
دوم: مستحقین کی تلاش: مستحقین کو تلاش کرنا صدقہ و خیرات کرنے کا حصہ ہے۔ لہٰذا پیشہ ور بھکاریوں کو رقم دینے کے بجائے اپنے متعلقین میں موجود سفید پوش مستحقین کی تلاش کریں اور رازداری کے ساتھ اُن کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر مالی اعانت کرنے کی ضرورت ہے۔
سوم: فطرانہ کی ادائیگی : فطرانہ کی ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے پہلے کردیں اور فی کس فطرانہ کی جو رقم مقرر کی گئی ہے (ستر روپے) حسبِ توفیق اُس سے زیادہ فطرانہ ادا کریں۔صدقہ الفطر میں بہت زیادہ حساسیت و احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔جن محتاجوں اور غریبوں تک میں یہ تقسیم کی جائے، خدا را اس کے تقسیم کرنے والے صرف ایک ہی فرد ہونا چاہئے ۔
ہمارے یہاں اکثر کیا ہوتا ہے کہ دس سال بیس سال کے بعد لوگ ایک دوسرے کو طعنے دیتے رہتے ہیں کہ فلاں موقع پر صدقہ الفطر دیا تھا ۔خدا را یہ اجتماعی طورپر ادا کرو اور اجتماعی طورپر تقسیم کرو ۔بس اس چیز کا دھیان رکھا جائے کہ تقسیم وہ فرد کرے، جس کو خدا کا خوف ہو ۔
چہارم: بچوں کی تربیت : صاحب ثروت اور متوسط طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو ضرو رسکھائیں کہ جو عیدی اُن کے پاس اکٹھی ہوئی ہے، اُس میں غریب مسلمان بچوں کا بھی حق ہے۔ لہٰذا انہیں ترغیب دیں کہ بچے اپنی عیدی میں سے خود کچھ رقم چیریٹی پر لگائیں۔ اِس عمل کے ذریعے بچے اوائل عمری سے ہی خوشیاں بانٹنے کے عادی ہوجائیں گے۔غرض یہ کہ قوم اس وقت مالی دشواری سے گزر رہی ہیں۔ جو لوگ کاروبار سے وابستہ ہیں، اُن کے کاروبار میں مشکلات و مسائل درپیش ہیں۔ اسی طرح قوم کی ایک بڑی تعدادبے روزگاری کی شکارہے۔ اس وقت عید سادگی سے منائی جائیں۔ غیر ضروری اسراف سے گریز کیا جائے۔ اپنے اِرد گرد اور اَگل بگل رہنے والے لوگوں پر نظر دوڑائی جائے کہ کوئی کمزور، مسکین، لاچارایسا تو نہیں ہے، جس کے پاس عید منانے کے لیے ضروریات زندگی کا سامان تک میسر نہیں ہے۔