کسی ملک کے حالات کا تعین اس کے سربراہ کی لیاقت اور قابلیت سے کیا جاتا ہے۔وہ ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے اور اس کا منشاء کیا ہے اس کے دو چار اقدامات ہی سے پتہ چل جاتا ہے۔ان اقدامات کا نتیجہ تو فوری طور پر سامنے نہیں آتا لیکن آہستہ آہستہ ہی سہی اس کے اثرات رونما ہونے لگتے ہیں ۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب نتیجے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے لیکن جب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور پچھتانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پوری قوم اس اقدام کا شکار ہو چکی ہوتی ہے۔جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اکثر حالات میں سربراہ عوام کی خواہشات کے خلاف کام کرتے ہیںاور ایسا وہ قانونی طور پر کرتے ہیں ۔اپنے ہر اقدام کو وہ جائز ٹھہراتے ہیں ۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح امریکہ میں آج تک ڈونالڈ ٹرمپ کو قبول نہیں کیا جا سکا ہے اور آئے دن ایسی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ کہیں ان کا مواخذہ نہ ہو جائے۔اگرچہ وہ ایک منتخب صدر ہیں لیکن اپنے کارناموں سے وہ بیشتر اوقات مذاق کا موضوع بنتے ہیں اور انہیں ’’غیر واضح ‘‘شمار کیا جاتا ہے۔کچھ بھی بیان دے دیتے ہیں ،انہیں لگتا ہے کہ وہ امریکا کے مفاد میں ایسا کر رہے ہیں لیکن بادی النظر میں نہ وہ امریکہ کے مفاد میں ہوتا ہے اور نہ ہی مد مقابل کے۔دراصل دونوں کے لئے ہی ہلاکت خیزہوتا ہے۔اس قبیل کے لوگوں کا منشا ء بھی یہی ہوتا ہے کہ سامنے والے کو’’ برباد کرو ‘‘ ۔انہیں پتہ نہیں کہ اس پروسیس میں یہ خود بھی برباد ہو رہے ہیں ۔
ہندوستان میں بھی کم و بیش یہی حال ہے۔یہ ایک بڑی جمہوریت ہے،دنیا میں سب سے بڑی۔۔۔۔۔لیکن گزشتہ ۳؍سال میں یہاں کئی ایسے کام انجام دئے گئے ہیں جو کم از کم جمہوریت کو زیب نہیں دیتے۔۔۔۔۔اور جمہوریت کی تعریف پر تو پورے نہیں اترتے۔ فی الحال ٹیکس کے نام پر یہ جو جی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں آیا ہے اور جس کے لئے پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال کومنتخب کیاگیا، یہ بھی ایک مذاق سے کم نہیں کیونکہ ملک کی دو تہائی آبادی اس سے متفق نہیں ہے اور حکومت ہے کہ جشن منا رہی ہے۔اور تو اور اس کی پہلے سے کوئی تیاری نہیں ہے۔آج بھی ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیوں کو جہاں تہاں کھڑا کئے ہوئے ہیں اوربے چاروں کا کاروبار بند پڑگیا ہے۔ اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی مطلع صاف نہیں ہے۔چونکہ مودی کا ہر کام’’ تاریخی ‘‘ہوتا ہے ،اس سے نیچے کا کام یہ کرتے ہی نہیں ہیں ،اس لئے تاریخ مرتب کرنے یہ اسرائیل چلے گئے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح سے نوٹ بندی کرتے ہی جاپان کے دورے پر نکل گئے تھے۔سچ پوچھئے تو انہیںاپنے عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ٹرک والے لائن میں مہینوں کھڑے رہیں ،اے ٹی ایم اور بنکوں میں لائن لگا تے ہوئے سینکڑوں افراد مر جائیں ،اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ملک ملک کا دورہ ضروری ہے۔یہاں چین سکم کے اندر گھس آیا ہے ،مانسرور یاترا بند کر دی ہے اور وہ بھی ۸؍سو برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے لیکن وزیر اعظم اسرائیل کے’’ تاریخی دورے‘‘ میں مصروف ہیں ۔اخبار اور ٹی وی والے ایسی ایسی تصویریں دے رہے ہیں اور ان کے ’’باڈی لنگویج‘ ‘کا اس سطح پر تعریف کر رہے ہیں کہ دیکھ اور پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں ہم کسی اداکار سے تو مخاطب نہیں ہیں!
یہ سب کچھ صرف اور صرف ایک وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ کس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کونفسیاتی طور پر شکست و ریخت سے دوچار کیا جائے۔اگر ہم یہاں شکست لکھتے ہیں تواس سے پہلے ’’جیت‘ ‘کا ہونا بھی ضروری ہے۔کیا ۷۰؍برسوں میں اس ملک کے مسلمان کبھی اس کیفیت سے ہمکنار ہوئے ؟کسی طرح کی ’’جیت‘ ‘جیسی چیز کبھی رونما ہوئی ؟ شاید نہیں ،لیکن ان ۳؍برسوں میں اس شکست کی کیفیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور وزیر اعظم مودی نے اسٹروک پر اسٹروک کھیلا ہے جس سے اس ملک کے مسلمان ذہنی طور پر مردہ ہوتے جائیں ۔اسرائیل کا یہ دورہ ایک ’’ماسٹر اسٹروک ‘‘سے کم نہیں۔آزادی کے بعد ۷۰؍ برسوں میں ملک کے کسی بھی وزیر اعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔کیوں نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ میڈیا نہیں بتلاتا کیونکہ نہیں بتلانے میں مودی ،بی جے پی اور آرایس کے مفاد وابستہ ہیں اور ہندوستانی میڈیا کا سارا زور ان مفاد کا تحفظ ہے۔اسی لئے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ مودی کا یہ دورہ’’ تاریخی ‘‘ہے۔دراصل یہ مودی اور مودی کی حکومت کی کامیابی نہیں بلکہ یہ تو اسرائیل اور اسرائیلی حکومت کے سربراہ نیتن یاہو کی کامیابی ہے اور مودی کا یہ دورہ اُن کے لئے تاریخی ہے۔وہ کب سے راہ دیکھ رہے تھے اور ۷۰؍ برسوں کے بعد ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ہندوستانی مسلمانوں کا ہندوستان میں حیثیت کیا ہے؟کسی اہم موضوع پر ان کو کوئی رائے دینے کا حق ہے؟ان کی کوئی بات یا کوئی مشورہ حکومت کے نزدیک قابل ِاعتنا ء ہے؟ ان کا وجود کوئی حقیقت بھی رکھتا ہے؟اگر نہیں، تو پھرکیا ہے؟ہندوستان کی اسرائیل سے دوستی ہندوستانی مسلمانوں کو ہضم نہیں ہو سکتی کیونکہ تمام مسلمان اسرائیل کو غاصب وجابر مانتے ہیں۔اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضہ کئے ہوئے ہے اور مسلمانوں کا قبلۂ اول پر بھی وہ قابض ہے۔ فلسطینیوں کومسلسل عذاب میں مبتلا کئے رہتا ہے۔ بندوق ،بارود اور مسلسل جنگ سے آگے یا پیچھے اس کی کوئی سوچ ہی نہیں۔
فلسطینی دنیا کی نظر میں ایک مظلوم قوم کے طور پر دیکھے جاتے ہیں اور یہی سبب تھا کہ ہندوستانی حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کی جذبات کی قدر کرتے ہوئے اسرائیل سے اُس طرح کے تعلقات استوار نہیں کئے جیسا کہ فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا اور یہ مودی دورسے پہلے تک چلتا رہا۔یہ اور بات ہے کہ ۱۹۹۲ ء میں سابق کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے تل ابیب میں ہندوستانی سفارت خانہ کھلوائے لیکن مقصد صرف تجارت کو بڑھاوا دینا تھا جس کی تعمیل اُس وقت کے وزیر خزانہ اورسابق کانگریسی وزیر اعظم منموہن سنگھ کر رہے تھے۔
اگرچہ مئی میں فلسطین کے صدر محمود عباس دہلی آئے تھے اور وزیر اعظم سے ان کی ملاقات بھی ہوئی تھی لیکن ’’اُن کے آنے اور اِن کے جانے‘ میں میں کافی فرق ہے۔اگر مودی جناب تیل ابیب کے ساتھ ہی راملہ بھی چلے جاتے تو کیا بگڑتا۔۔۔۔۔۔؟۔ لیکن انہیں وہی کرنا ہے جس سے انصاف پسند طبقوں بالخصوص مسلمانوں کے جذبات کو زک پہنچے۔فلسطین کے پاس تو بیچنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔اصول و ضوابط اور مظلومیت تو بیچے نہیں جاتے، البتہ ہتھیاراور لڑاکو جہاز ضرور بیچے جاتے ہیں اور اسرائیل اس منڈی کا چمپئن ہے۔پتہ چلا ہے کہ ہندوستان اپنا ۴۰؍فیصد جنگی سامان اسرائیل سے خریدتا ہے۔اس لئے اسرائیل کا اپنی مطلب براری کے لئے ہندوستانی وزیر اعظم کے لئے سرخ قالین بچھانا کوئی تعجب کی بات نہیں،البتہ اس پر ہمارے اندھے بہرے بکاؤ میڈیا والوں کا نقارہ بجاناضروربچگانہ فعل ضرور ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ یہودی یعنی اسرائیلی اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں اور آں حضرت (ص )کے زمانے سے ہی مسلمانوں کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ۔وہ ہر ایسا کام ہی کرتے ہیں جو اسلام کے بر عکس ہو۔اگرچہ اپنی ’’ذہانت ‘‘پر انہیں ناز ہے لیکن ان کی ذہانت تمام تر تخریبی سازشوں میں ضائع ہورہی ہے۔اس خداداد صلاحیت سے وہ ہمیشہ تخریبی کام لیتے رہے ہیں۔تخریب کاری وہ کرتے ہیں اور پھر ’’دہشت گردی ‘‘کے قلع قمع کرنے کا منصوبہ بھی وہی پیش کرتے ہیں ۔اتفاق سے ہندوستان بھی دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کے فریب میں آگیا ہے اور ہر جگہ مودی جی دہشت گردی ختم کرنے کی ہی بات کرتے ہیں جب کہ خود ہندوستان میں تین برس سے گئو رکشکو ں کے بھیس میں بد ترین دہشت گرد کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اپنا گھر درست کیا جائے پھر کسی کی اصلاح کی جائے لیکن یہودی، ایک ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں تو یہاںجمہوریت کی بات کرتے ہوئے ’’ہندو راشٹر‘‘ کے قیام پر عمل جاری ہے۔اس لئے دونوں کی دوستی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا یہی جواز بھی ہے خواہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک آنکھ بھی کیوں نہ بھائے!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883