اسرائیلیریاست اپنے آغاز سے ہی ایک یہودی ریاست تھی جس پہ سال رواں 2018ء میں پچھلے دنوں جولائی9 1تاریخ کو اسرئیل کی پارلیماں نے رسمی طورپہ ایک یہودی ریاست ہونے کا لیبل از سر نو چسپاں کیا۔ اِس لیبل کو بنیادی قانون کا درجہ دیا گیا ہے بہ الفاظ دیگر اسرائیل کی پہچان اب بنیادی طور پہ ایک یہودی ریاست کی حیثیت سے ہوگی۔اسرائیل کی شناخت بہ حیثیت ایک یہودی ریاست ظلم و جبر پہ مبنی ایک بھیانک حقیقت ہے۔ یہودی ریاست کا لیبل چسپاں کر کے اسرائیل اپنی نسل پرستی کی پالیسی کو رسمیت بخشنا چاہتا ہے گر چہ یہ یہودی ریاست اپنی جمہوری پہچان کو بنائے رکھنا چاہتی ہے، البتہ نسل پرستی اور جمہوریت میں کوئی بھی مطابقت نہیں۔یہودی ریاست کے لیبل کے ساتھ ساتھ بنیادی قانوں میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ حق خود ارادیت صرف و صرف یہودیوں کے لئے محفوظ رہے گا جس کا مطلب عیاں ہے کہ جو عرب یہودی ریاست میں رہتے ہیں وہ حق خود ارادیت سے محروم رہیں گے۔ اسرائیل کی 9ملین آبادی میں21 فیصدی عرب ہیں۔یہاں سوال اُبھرتا ہے کہ جس ریاست کے21 فیصدی باشندے حق خود ارادیت سے محروم ہوں وہ ایک جمہوری ریاست ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟ جس ریاست میں صرف اکثریتی فرقے کو حق خود ارادیت حاصل ہو وہ یقیناََ جمہوری ریاست ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی خاص کر ایک ایسی صورت حال میں جہاں یہ اکثریت ظلم و جبر کے بل بوتے پہ وجود میں آئی ہو۔اس حقیقت کو سمجھنے اور پرکھنے کیلئے ہمیں صہیونی تحریک کے خد و خال اور فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی تاریخ کو جانچنا ہو گا۔
صہیونی تحریک کا قیام 19ویں صدی کے اختتامی سالوں میں انجام پذیر ہوا۔اِس تحریک کی ابتدا 1896 ء میں ایک کتاب کی تحریر سے ہوئی جس کے مصنف تھیوڑر ہرزل تھے ۔اِس کتاب کا متن 20ویں صدی میں ایک یہودی ریاست کے قیام پہ مبنی تھا۔ اِس ریاست کا حدود اربعہ کم و بیش کنعاں کے مقدس مقام سے منسلک تھا جو کم و بیش فلسطین سے مطابقت رکھتا ہے۔ صہیونی تحریک کے وجود میں آنے کی کئی وجوہات تھیں جن میں ایک تو یہودیوں کی مقدس کتابوں میں آج گئے کم و بیش 3500سال پہلے اسرائیلی ریاست کا ذکر ہے جو حضرات طالوت،داؤد و سلیمان کے دور میں قائم ہوئی ثانیاََ یورپ میں یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب اُن سے منافرت تھی ۔یہ منافرت گر چہ یورپ میں عموماََ پائی جاتی تھی لیکن مرکزی اور مشرقی یورپ میں یہ منافرت یورپ کے دیگر مقامات سے بیشتر تھی۔اِس منافرت کا وہی سبب تھا جو ہر زماں و مکاں میں یہودیوں کے خلاف دوسرے اقوام یا دوسری امتوں کی منافرت کا سبب بنا۔ یہودیوں کی اقتصادی اجارہ داری ،بے پناہ لالچ و حرص نہ صرف ایک تاریخی حقیقت ہے بلکہ یہ اِس حد تک ایک مانی ہوئی بات ہے جہاں مقدس کتابوں کے علاوہ ہمیں ادبیات میں بھی اِس کا سراغ ملتا ہے۔ تھیوڑر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک نے ایک ثقافتی رنگت لی جس کا خصوصی پہلو یہ رہا کہ مجوزہ اسرائیلی ریاست نہ صرف یہودیوں کی ریاست ہو بلکہ یہ ایک یہودی ریاست کہلائی جانی چاہیے۔اِس تحریک ثانوی کا داعی احد حام تھا جس کا خواب 21ویں صدی میں پچھلے دنوں شرمندہ تعبیر ہوا جب اسرائیل پہ یہودی ریاست ہونے کا لیبل چسپاں ہوا۔
ایک یہودی ریاست کے قیام کی دلیل جو صہیونی تحریک کا نصب العین رہا ہے وہ جیسا کی پہلے ذکر ہوا یہودیوں کی وہ ریاست تھی جو حضرات طالوت،داؤد و سلیمان کے دور میں قائم ہوئی۔آج گئے کم و بیش 3500سال پہلے یہودی فلسطین میں بسنے لگے جسے اسرائیل نامیدہ گیا جو کہ مذہبی دائرے میں حضرت یعقوب ؑ کا اسم ثانوی ہے ۔اسرائیل میںیہودی ،جنہیں لسانی نظریے سے عبرانی کہا جاتا ہے ،مصر میں خروج کے بعد بسنے لگے۔مصر میں وہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں کنعاں سے منتقل ہوئے تھے۔نقل مکانی و مہاجرت کی وجہ کنعاں میں قحط زدگی کی حالت تھی۔مصر میں سکونت کی اجازت اُنہیں حضرت یوسف ؑ کی وساطت سے ملی جو ایک تاریخی حادثے سے مصر کے حاکم بنے تھے جبکہ وہ خود بھی کنعاں کے رہنے والے تھے۔حضرت یوسف ؑ کیسے حاکم مصر بنے وہ قران کریم میں صورہ یوسف ؑ میں عیاں ہے لہذا قارئین محترم کیلئے واقعات و حادثات کا ایک لمبا سلسلہ واضح ہے ۔مصر میں عبرانیوں کاقیام کم و بیش چہار سو سالوں پہ محیط رہا ۔اُن کی آبادی بڑھنے لگی اور فرعونوں کے دور حکومت میں مصریوں میں یہ احساس بڑھنے لگا کہ کہیں عبرانی تعداد میں اُن سے زیادہ نہ ہو جائیں ۔فرعونوں کے مظالم بڑھنے لگے جن میں بیگار بھی شامل تھی۔ حضرت موسی ؑ حکم خداوندی سے اُن کو فرعونوں کے مظالم سے آزادی دلوانے کا سبب بنے اور صحرائی سینا کو عبور کر کے یہودی اسرائیل میں سکونت پذیر ہوئے۔
اسرائیل میں آباد ہونے کے بعد عبرانیوں کو ایک بادشاہ کی کمی محسوس ہوئی چناچہ حضرت طالوت بادشاہ مقرر ہوئے ۔اُنکے بعد حضرت داؤد ؑ ؑنے ایک تو شاہی مقام سنبھالا اور پیغمبر ی کا درجہ بھی اُنہیں حاصل ہوا۔ حضرت داؤدکے دور تک اسرئیل کی حکومت شمالی علاقوں تک محدود تھی اور اِسے شمالی اسرائیلی سلطنت کہا جاتا ہے۔اُنکے دور میں فلسطین کے جنوبی علاقے بھی اِس سلطنت میں شامل ہوئے اور اِسے متحدہ اسرائیلی سلطنت نامیدہ گیا اور یہ سلطنت حضرت داؤد ؑ سے حضرت سلیمان ؑ کو منتقل ہوئی۔یہ ہے وہ پس منظر جس کی شہادت اہل الکتاب کی مقدس کتابوں میں ملتی ہے گر چہ واقعات مختلف انداز لئے منعکس ہوئے ہیں ۔اِسی پس منظر کو لئے قوم یہود اسرائیل کو اپنا وطن منوانے کی تگ و دو میں پچھلی دو صدیوں سے لگی ہوئی ہے لیکن بگذشت زماں فلسطین میں تاریخ نے کئی اوراق پلٹے اور جو صورت حال ہزاروں سال پہلے حضرت داؤد ؑ سے حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں عیاں تھی اُس میں ایک واضح تغیر آگیا ہے ۔اِن تاریخی تغیرات کے دائرے میں پرکھا جائے تو یہودی دعوے کی کلی کھل جاتی ہے ۔ بگذشت زماں یہودی سماج میں فرقہ بندی نے اِس قوم کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا یہاں تک کہ دور سلیمانی سے لے کے بعث حضرت یسوع مسیح ؑتک کم و بیش 1500سال میں یہ قوم کئی آفتوں سے گذری ۔کبھی ہیکل سلیمانی کی عظیم معبد گاہ قدرتی حادثات کا شکار ہوئی اور کبھی قوم یہود رومیوں اور ایرانیوں کی عظیم جنگوں کا شکار بنے یہاں تک کہ بعث حضرت یسوع مسیح ؑ کے زمانے میں قوم یہود رومیوں کی غلامی میں اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہی تھے اور یہودیوں کی فرقہ واریت اُنہیں پستیوں کی انتہا کی جانب لے جا رہی تھی ۔
عصر حاضر کی تاریخ میں سفید فام یورپی یہودیوںکی فلسطین میں آمد سے پہلے یہاں مسلمین،عیسائی اور ایشیائی یہودی امن و آشتی سے رہ رہے تھے لیکن صہینیوں کی تسلط آمیز روش نے پچھلی صدی سے امن و آشتی کے اِ س گہوارے پہ شبخوں مارا۔فلسطین کی موجودہ حالت صہینیوں کی تاج برطانیہ کے ساتھ گہری سازش کا نتیجہ ہے جس میںترکی کی عثمانی خلافت کے وزیر طلعت اور شریف حسین آف مکہ بھی ملوث رہے۔یہ سازش جنگ جہانی اول کے دوراں رچی گئی جب برطانیہ کے جنرل ایلن بی (Allenby) نے فلسطین کو فتح کیا۔ ایلن بی نے کہا تھاکہ آج صلیبی جنگوں کی تکمیل ہوئی۔اِس فتح کے بعد وزیر طلعت کی وساطت سے برطانیہ کو فلسطین کا منڈیٹ حاصل ہوا اورتاج برطانیہ کو فلسطین پہ دسترس حاصل ہوئی۔خلافت عثمانیہ کے مد مقابل مغرب کی استبدادی قوتوں نے عربی قوم پرستی کو تقویت بخشی ۔اعراب کی الگ صفیں قائم کرنے میں برطانیہ کے جاسوسوں نے کلیدی رول ادا کیا۔اِن میں لارنس آف عربیہ پیش پیش رہے اور اُنکے کارناموں کو مغرب میں اتنی تشہیر ملی کہ اُن کے بارے میں گوناگوں تحریریں رقم ہونے کے علاوہ اُن پہ فلمیں بھی بنائی گئیں۔
فلسطین کے منڈیٹ کے حصول کے بعد 1917ء میں نومبر کی دو تاریخ کو برطانوی سیکرٹری آف سٹیٹ آرتھر جیمس بالفور کی جانب سے ایک مکتوب برطانوی یہودیوں کے رہبر والٹر راتھ چائلڈ کے نام ارسال ہوا جو در اصل انگلیڈ اور آئر لینڈ کی صہیونی کونسل کیلئے برطانوی سرکار کی جانب سے یہ اعلانیہ لئے ہوئے تھا کہ برطانوی سرکار فلسطین میں یہودیوں کیلئے ایک نیشنل ہوم یعنی ایک ریاستی اقامت گاہ کی تشکیل کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور برطانوی سرکار اپنی بہترین صلاحیتیں اِسے ممکن بنانے کیلئے برؤے کار لائے گی ۔وزن شعر کیلئے برطانوی مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جائیگا جس سے غیر یہودی آبادی کے شہری و مذہبی حقوق سلب اوردوسرے ممالک میں یہودیوں کا سیاسی تشخص و حقوق متاثر ہوں۔یہ اعلانیہ جسے ایام بعدی میں بالفور ڈیکلریشن کا عنواں دیا گیا یورپی سفید فام یہودیوں کیلئے کی فلسطین میں باز آباد کاری کیلئے ایک ایسا پروانہ ثابت ہوا جس سے بالفور اعلامیہ کی یقین دہانی کے برعکس غیر یہودی آبادی کے شہری و مذہبی حقوق سلب ہو گئے۔ 1947/48ء تک یہودی ریاست کا قیام یقینی بنایا گیا اور 1967ء کی جنگ کے بعد حضرت داؤد ؑ کے زمانے کی متحدہ اسرائیلی ریاست وجود میں آئی جس میں یروشلم کے علاوہ رود اردن کا مغربی کنارہ شامل ہوا یا وہ علاقہ جو مغربی کنارے پہ آباد ہے ۔اِس کے علاوہ غازہ کی پٹی پر بھی اسرائیل قابض ہوا۔ مغربی کنارے پہ فلسطینی انتظامیہ کے اختیارات ایک میونسپلٹی کے اختیارات تک محدود ہیں جبکہ مغربی کنارہ ہو یا غازہ کی پٹی سیکورٹی کاملاََ اسرائیل کی دسترس میں ہے چاہے وہ زمینی راہرو ہو ،فضائی یا سمندری یہ علاقے مکمل اسرائیلی ناکہ بندی میں گذر بسر کر رہے ہیں۔
جہاں جنگ جہانی دوم سے پہلے اسرائیل تاج برطانیہ کی سر پرستی میں پلتا رہا وہی اِس جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے مغرب کے اس اولاد ناخلف کو گود لیا اور تب سے عالمی قراردادوں او اقرار ناموں کی خلاف ورزی کرتا ہوا اسرائیل من مانی کاروائیوں میں مشغول ہے۔اِن اقرار ناموں میں کہا جا سکتا ہے جدید ترین اوسلو کا اقرار نامہ ہے جو کہ 1993ء میں طرفین کے عہد وپیمان سے طے ہوا۔ اِس اقرار نامے میںاسرائیل اور فلسطین کی تنظیم آزدی کے مابین دو ریاستوں کے قیام پہ اتفاق ہوا لیکن یہ اقرار نامہ بھی اسرائیل کی پے در پے زیادتیوں کا شکار ہوا۔ چناںچہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر اسرئیلی بستیوں کی بڑھتی ہوئی تعمیر عالمی ضمیر کیلئے ایک مسلسل چلینج بنتا جا رہی ہے لیکن اسرائیل اپنی من مانی کاروائیوں سے باز نہیں آتا اور تو اور عالمی رائے عامہ کے بر خلاف اسرائیل نے یروشلم کو اپنا دارلخلافہ بنایا جس کی تائید عالمی چودھری امریکہ نے اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر کے کی ۔امریکہ کے در پروردہ چند ممالک کے بغیر اکثر و بیشتر ممالک نے اِس یک طرفہ اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اپنے سفارت خانوں کو پروشلم منتقل کرنے کی نفی بھی کی۔
یروشلم کو دارلخلافہ منوانے کا اقدام ابھی عالمی مذمت کا حدف بنا ہوا تھا کہ اسرائیل نے اپنی یہودی شناخت کو رسمیت بخشتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق پہ ایک اور شب خوں مارا ۔فلسطین میں یہودی اکثریت کا ظاہر ہونا ایک تو ظلم و جبر کی ایک دلخراش داستان ہے ۔ثانیاََ آج بھی اسرائیل میں سکونت پذیر عرب کی تعداد کم و بیش دو ملین ہونے کے علاوہ مغربی کنارے کے دو ملین عرب اور غزہ کے دو ملین اعراب کی مجموعی تعداد کم و بیش اسرائیل کے کے چھ ملیون یہودیوں کے برابر ہے ۔ عالمی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر فلسطین کی کل اراضی پہ ایک ہی ریاست کا وجود قائم ہو تو یہودیوں اور عرب کی مجموعی تعداد کم و بیش برابر رہے گی لیکن اسرائیل نہ ہی واحد ریاستی نظریہ کا قائل ہے جہاں اُسے عرب کے ساتھ آبادی کے تناسب کو مد نظر رکھ کے سیاسی طاقت کی تقسیم کا مسلہ در پیش رہے گا نہ ہی وہ دو ریاستوں کے قیام کے امکاں کو عملی ہونے دے رہا ہے جہاں اُس کا عذر اسرائیل کی سیکورٹی کے امکانی خطرات ہیں ،لہٰذا نہ ہی وہ مغربی کنارے پہ فلسطینی انتظامیہ کو بلدیاتی اختیارات سے بیشتر طاقت کے حصول کا قائل ہے ،نہ ہی غز ہ کے عربوں کو کھلی سانس لینے دے رہا ہے۔
اسرائیل کی اِن زیادتیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آج ایک بار پھر یہ کالم رقم کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر کا یہ قول یاد آ رہا ہے کہ دنیا کو ہمیشہ ہی یہودی سوال کا سامنا رہے گا بہ الفاظ دیگر یہودی ہمیشہ ہی اقوام عالم کیلئے درد سر بنے رہیں گے۔تاریخ کے ہر دور میں یہ حقیقت عیاں رہی ہے، قوم یہود نہ ہی خود آرام سے رہتی ہے نہ ہی دوسروں کو آرام سے جینے دیتی ہے۔آج بھی کچھ ایسا ہی سماں اسرائیل نامی ریاست کے وجود سے بندھا ہوا ہے۔
Feedback on:[email protected]