یو این آئی
تل ابیب//اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے گشت والے ‘بفر زون’ میں موسم سرما گزارنے کے لیے تیار رہے ۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ اتوار کو اسرائیلی فوج نے شام کے صدر بشار الاسد کا اقتدار ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد اسٹریٹجک اہمیت کی حامل سطح مرتفع کے غیر فوجی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔اسرائیل کے اس اقدام کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی، تاہم اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکا نے جمعرات کو کہا تھا کہ یہ اسرائیل کے دفاع کے حق کے ‘عین مطابق’ ہے ۔عالمی امن فوج (یو این ڈی او ایف) نے جمعہ کے روز ایک بیان میں اسرائیل کو مطلع کیا کہ وہ 1974 کے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے ، جس میں شام اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے دوران بفر زون تشکیل دیا گیا تھا۔بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے شامی فوجی تنصیبات پر سیکڑوں حملے کیے ہیں، جن میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں سے لے کر فضائی دفاع تک ہر چیز کو نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ انہیں باغیوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکا جاسکے ۔اسرائیل کی جانب سے بفر زون میں فوج کی یہ تعیناتی ایسے وقت میں کی گئی ہے جب اسرائیلی افواج، جنوبی لبنان سے انخلا کر رہی ہیں اور غزہ پر حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اسرائیلی وزیر دفاع کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ شام کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر ہرمون پہاڑ کی چوٹی پر اپنی موجودگی برقرار رکھنا انتہائی اہم اور سکیورٹی اہمیت کا حامل ہے ، مشکل موسمی حالات کے باوجود اپنے جنگجوؤں (اسرائیلی فوجیوں) کو وہاں رہنے کے قابل بنانے کی غرض سے تیاری یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے ۔اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے اپنے دفاع کے لیے بفر زون پر قبضہ کیا ہے ۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے گزشتہ روز کہا کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے اسرائیل کی سرحد پر ایک ‘خلا’ پیدا ہو گیا ہے ، یہ تعیناتی اس وقت تک عارضی ہے جب تک کہ 1974 کے معاہدے پر کاربند ایک فورس قائم نہیں کی جاتی اور ہماری سرحد پر سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جاتی۔اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران شام سے گولان کی پہاڑیوں کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا تھا، اس نے 1973 کی جنگ کے دوران اس علاقے پر قبضے کو توسیع دی اور 1981 میں صرف امریکا کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سے اس علاقے کو ضم کر لیا تھا۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے گزشتہ روز اسرائیل کی جانب سے بفر زون پر قبضے کی مذمت کی تھی، انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے ایک بیان میں کہا کہ ‘شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حالیہ اور وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے ’۔بیان میں کہا گیا تھا کہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو خاص طور پر شام میں متعدد مقامات پر اسرائیل کے سیکڑوں فضائی حملوں پر تشویش ہے ۔اسٹیفن ڈوجارک نے کہا کہ انتونیو گوتریس نے ‘علیحدہ علاقے ’ میں غیر قانونی موجودگی کے خاتمے ، گولان میں جنگ بندی اور امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی اقدام سے گریز کرنے پر زور دیا۔عالمی امن فوج کی جانب سے ایک بیان میں جمعہ کے روز کہا گیا کہ ‘اس کی افواج اپنے مقامات پر موجود ہیں’ اور اپنی لازمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہمارے فوجی بفر زون اور اس سے آگے ‘دفاعی مشن’ انجام دے رہے ہیں جبکہ جنگ بندی کی لائن پر رکاوٹ کو بھی ‘مضبوط’ کر رہے ہیں۔
آسٹریا کی شامی پناہ گزینوں کو بڑی رقم کی پیشکش
ویانا/یو این آئی/ شام میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد آسٹریا حکومت نے ملک میں پناہ گزیں شامیوں کو ایک ہزار یورو کے ساتھ وطن واپسی کی پیشکش کی ہے ۔اس حوالے سے آسٹریا کے چانسلر کارل نیہامر نے گزشتہ روز بشارالاسد حکومت کی معزولی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں سیکورٹی کی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جائے تاکہ شامی پناہ گزینوں کی پرامن واپسی ممکن ہوسکے ۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ شام کس سمت میں جا رہا ہے اس سے پہلے کسی کو زبردستی ملک سے بے دخل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ تاہم آسٹریا حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پناہ گزینوں رضاکارانہ وطن واپسی پر توجہ مرکوز کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی مزید شامی پناہ گزینوں کی درخواستوں کی کارروائی کو روک دیا گیا ہے جیسا کہ اس سے قبل 12 سے زائد یورپی ممالک نے بھی یہی طریقہ اپنایا ہے ۔واضح رہے کہ آسٹریا میں سب سے بڑی تعداد میں پناہ کی درخواست دینے والوں میں شامی پناہ گزین شامل ہیں، لیکن اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ “آسٹریا شامی شہریوں کو ایک ہزار یورو کا ‘ریٹرن بونس’ فراہم کرے گا جو پناہ گزین اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان یہ دیکھنا یہ ہے کہ کتنے شامی شہری آسٹریا حکومت کی اس پیشکش کو قبول کریں گے ۔ قومی ایئر لائن آسٹریان ایئرلائنز نے مشرق وسطیٰ کے لیے پروازیں سیکورٹی خدشات کی وجہ سے معطل کردی ہیں اور مذکورہ بونس کی رقم ممکنہ طور پر سفری اخراجات بھی مکمل طور پر پورا نہیں کرسکے گی۔واضح رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے خانہ جنگی کا شکار رہنے والے ملکِ شام سے ہجرت پر مجبور 60 لاکھ شامی اس وقت پناہ گزینوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق 2011 میں بشارالاسد کے خلاف مہم کے وقت شام کی آبادی تقریباً 21 ملین تھی جس میں سے اب تک لاکھوں لوگ مارے گئے اور تقریباً 13 ملین لوگ مہاجرین بنے ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2024 تک کم از کم 7.4 ملین شامی باشندے ملک میں بے گھر ہیں جب کہ شامی مہاجرین کی زیادہ تعدادیورپی ممالک میں ہے ، ترکیہ میں 31 لاکھ 12 ہزار 683 شامی مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔