ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد
اسرائیل گز شتہ اکیس ماہ سے غزہ میں اپنی ننگی جا رحیت کا بدترین مظاہر ہ کر تے ہوئے اب اس قدر بے لگام ہو گیا کہ وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے پوری دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔ گز شتہ جمعہ (13؍ جون ) کی صبح اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کر تے ہوئے ایران پر بلا اشتعال حملہ کر دیا۔اُس کے اس جارحانہ اقدام سے پورے مشرق وسطی میں حالات دھماکو ہو گئے ہیں۔ ایران نے بھی جوابی کاروائی کر تے ہوئے 13؍ اور 14جون کی درمیانی شب اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے اسرائیل کو خوف و ہراس کی ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا کہ اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔ اب یہ دونوں ملکوں کی جنگ خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ تادم تحریر اسرائیل اور ایران کے درمیان گھمسان کا رن جاری ہے اور اس بات کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں، آنے والوں دنوں میں اس جنگ کا دائرہ اور بڑھ جائے گا۔ اسرائیلی بربریت کے نتیجہ میں ایران کا کافی نقصان ہوا ہے۔ اس کے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈر اسرائیلی حملوں سے جان بحق ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کی بھی اموات ہوئی ہیں اور فوجی تنصیبات کو بھی اسرائیل نے نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ایران نے اسرائیل کے خلاف جس مزاحمت کا ثبوت دیا ہے وہ بھی غیر معمولی ہے۔ پہلی مرتبہ اسرائیل کو اپنی شکست کا احساس ہونے لگا ہے۔ تل ابیب اور اسرائیل کے دیگر شہروں پر ایرانی میزائل کے حملوں سے اسرائیلی مملکت دہل گئی۔ شہری آبادی کو چھوڑ کر اسرائیلی عوام بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی۔ ایران نے اسرائیل کی اس جارحیت کا جس کرارے انداز میں جواب دیا، اس سے امریکہ اور دیگر ممالک کو یہ پیغام گیا کہ اب اسرائیل کی خیر نہیں۔ اکتوبر 2023سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اوردنیا کا کوئی ملک اس کے خلاف زبان کھولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایران پہلے دن سے فلسطین کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے، اس نے دنیا کے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فلسطینیوں کی مدد کو اولین ترجیح دی۔ اس ناکردہ جرم کی پاداش میں ایران پر معاشی پابندیاں بھی عائد کردی گئی،لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف پرڈٹا رہا۔ اس لئے کہ ایران کے ہوتے ہوئے اسرائیل پورے فلسطین کو اپنے قبضہ میں نہیں لے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل نے زبردستی جنگ چھیڑدی۔اسرائیل نے ایران کو مشتعل کرنے کے حربے اس سے پہلے بھی استعمال کئے ہیں۔گزشتہ سال جولائی میں حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوںتہران میں شہادت کے بعد ہی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے حالات پید اہوگئے تھے۔ لیکن ایران نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے امن کو متاثر ہونے سے بچالیا۔ اس مرتبہ بھی جارحیت کا آغاز اسرائیل کی جانب سے ہوا۔ اسرائیل نے حالیہ حملوں کو ’’رائزنگ لائن ‘‘کا نام دیتے ہوئے اچانک ایران پر حملہ کرتے ہوئے ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت کو ختم کر دیااور ایران کے جوہری پلانٹ کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی۔ ان جارحانہ حملوں کے خلاف ایران نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کی پوری طاقت اور صلاحیت دکھا دی ہے۔
اسرائیل کے جنگی جنون کی وجہ سے حالات بڑی تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس تصادم سے پوری دنیا میں جنگ کے بادل چھا جائیں گے۔ امریکہ نے ابتدا میں دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل کے ایران پر حملہ سے اس کا کوئی لینا دینا نہیںہے۔ لیکن اس کی منافقت اس وقت ظاہر ہوگئی جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایرانیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ تہران چھوڑ دیں۔ ٹرمپ نے ایران سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری اختیار کرلے، گویاامریکی صدر نے اپنے اس بیان کے ذریعہ اسرائیل کی ہمت بڑھادی ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ پہلے دن سے اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپاتا رہا ہے۔ فلسطین میں گز شتہ 77سال سے اسرائیل کا جو ناجائز قبضہ ہے وہ دراصل امریکہ کی پشت پناہی کاہی نتیجہ ہے اور آج بھی اسرائیل کی جارحیت اور غنڈہ گردی کو امریکہ کی پوری تائید حاصل ہے۔ حالیہ عرصہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی گئی قراداد کو امریکہ نے پھر ایک مرتبہ ویٹو کر دیا۔ اسرائیل کے حوالے سے امریکہ ایران کا بھی دشمن بناہوا ہے۔ ایران میں آئے ہوئے 1979کے انقلاب کے بعد سے امریکہ ایران کو تہس نہس کرنے کے لئے کئی سازشیں کر تا رہا۔ انقلاب ایران کے بعد امریکہ نے ایرانیوں پر ایران۔ عراق جنگ مسلط کر دی۔ اس آٹھ سالہ جنگ میں دونوں مسلم ملک تباہ و برباد ہوگئے۔ جس صدام حسین کو ایران کے خلاف بھڑکا یا گیا تھام اُسی کو پھر امریکہ نے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ اس دوران عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لئے کئی حربے امریکہ اختیار کر تا رہا۔ جب کہ ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لئے جوہری ہتھیار اپنے پاس رکھے۔ امریکہ، برطانیہ ، روس اور دیگر ممالک نیوکلیر ہتھیار رکھ سکتے ہیں تو ایران کو اس حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عالمی دباؤ کے ذریعہ ایران کو اس کے اس جائز حق سے محروم کرنے کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت سے باز نہیں آئے گی تو ایران اس کے خلاف نیوکلیائی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ اسی خوف یا سراسر جھوٹ کے پیش نظر امریکی صدر نے اسرائیل اور ایران کو مذاکرات کی طرف پلٹنے کی دعوت دی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئے۔ ایران کو مجبور کیا جا رہا ہے وہ نیوکلیر ڈیل پر دستخط کر دے۔ ایران اگر امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کے دباؤ میں آکر یہ غلطی کرتا ہے تو پھروہ دراصل اپنے قتل نامے پر دستخط کرنے کے مترادف ہوگا۔ ان بڑی طاقتوں نے بہت سارے ایشائی و افریقی ممالک کو یہی جھانسا دے کر تباہ کر دیا کہ وہ نیو کلیر ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائیں، ہنگامی حالات میں نیو کلیائی ممالک ان کی حفاظت کریں گے۔ دنیا نے دیکھا کہ بعد میں ان ممالک کو کیسے پریشان کیا گیا۔ ایران اپنے جوہری پروگرام کو ختم نہیں کرے گا، بالخصوص ان حالات میں جب کہ اسرائیل نے ایران پر جنگ تھوپ دی ہے۔ ایران کی جوہری پروگرام سے عدم دستبرداری امریکہ اور اسرائیل کو چین کی نیند سونے نہیں دے گی۔ ان کو یہ خوف کہ ایران کسی بھی وقت نیوکلیر ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات بھی جاری تھے لیکن اسرائیل کے ایران پر اچانک حملہ کے بعد اس میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے امریکہ ایران پر دباؤ ڈال رہا کہ وہ نیو کلیر ہتھیاروں کو ختم کردے ۔ جب کہ اسرائیل کی جارحیت سے پوری دنیا جنگ کے دہانے پر ہے۔ دیگر مغربی ممالک بھی ایران کے جوہری پروگرام کے مخالف ہیں۔ اس کے پیچھے بھی یہی راز ہے کہ یہ ممالک مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے خونین پنجے گاڑے رکھنا چاہتے ہیں اور راست یا بالواسطہ اس کی مدد کرتے ہوئے عربوں کو مغرب کے رحم و کرم پر رہنے کے مجبور کرنا ان کا مقصد ہے۔ ایران کا جوہری ہتھیاروں سے لیس رہنا نہ صرف ایران کی سلامتی کے لئے ضروری ہے بلکہ پورے مسلم ممالک کی خودمختاری اور ان کے تحفظ کے لئے لازمی ہے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے جنگ اس ماحول میں بھی واضح کر دیا کہ ’’جوہری توانائی کے حصول کے لئے مغربی ممالک کی منظوری کا ہم انتظار نہیں کریں گے۔ مغرب کو کس نے حق دیا کہ وہ ایرانی جوہری پروگرام کو رول بیک کرنے کا مطالبہ کرے‘‘۔صدر ایران کے اس بیان نے مغربی ممالک کو اور زیادہ چونکا دیا ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ہوئے حملوں کے بعد ایران کے حوصلے پست ہوگئے ہیں اور وہ مغربی ممالک کی ہر شرط کو قبول کرلے گا۔ ایران کے اس اٹل موقف کے بعد امریکہ کی کارستانیاں اور بڑھ جائیں گی ۔ صدر ٹرمپ آپے سے باہر ہوجائیں گے اور اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی جائے گی کہ وہ اپنے فضائی حملوں کو اور تیز کردے۔ لیکن اس ہولناک جنگ کی چنگاریوں سے امریکہ بھی نہیں بچ پائے گا۔ اسرائیل کے ایران پر حملہ کے بعد دنیا کی اقتصادی صورت حال جو بدلی ہے اس کا اندازہ سب سے زیادہ ڈونالڈ ٹرمپ کوہی ہے۔ وہ سیاستدان سے زیادہ تاجرانہ ذہنیت کے حامل ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ایران۔ اسرائیل جنگ طویل ہوجائے گی تو عالمی معیشت کا کیا حال ہوگا۔ ایران اگر دریائے ہرمز کی گزرگاہ کو بند کردے گا تو پھر تیل کی درآمد بند ہونے کے نتیجہ میں پوری دنیا کس معاشی بحران کا شکار ہو سکتی ہے اس کا اندازہ کا بھی ان کو ہونا چاہئے جو اسرائیل کی اندھی محبت کا شکار ہوکر ایران کی مدافعانہ کاروائی کو’’عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی ‘‘کا نام دے رہے ہیں۔ اسرائیل 8؍ اکتوبر 2023سے غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔اب تک 60ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 20ہزار سے زائد معصوم بچے ہیں ۔ اسرائیل کی یہ کارستانی کیا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے۔ اب تک اقوام متحدہ کئی قرادادیں اسرائیل کے خلاف منظور کرچکا ہے۔ لیکن اسرائیل ایک پر بھی عمل کرنے تیار نہیں ہے۔ جو طاقتیں آج فلسطینیوں اور ایران کو حالات کے بگاڑنے کا ذ مہ دار قرار دیتی ہیں وہ اس وقت اپنی آنکھیں کیوں موند لیتی ہیں جب اسرائیل ایک خونخوار جانور بن کر انسانی آبادیوں پر بم برساتا ہے۔ آج بھی وہ پوری دنیا کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل امن اور سلامتی کا دشمن ہے۔ امریکہ کی دوغلی پالیسی کے خلاف چین نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران۔ اسرائیل تنازعہ میں امریکہ ’’آگ پر تیل چھڑکنے ‘‘کا کام کررہا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان پر کہ ایرانی عوام فوری طور پر تہران خالی کردے ، چین کے اعلیٰ ترجمان نے اسے صورت حال کو بھڑکانا، دھمکیان دینا اور دباؤ میں اضافہ کرنے سے تعبیر کیا ہے۔حالات کی یہ سنگینی مسلم ممالک کو بھی دعوت فکردیتی ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے خلاف جرأت مندانہ اقدامات کے لئے اب کم از کم تیار ہوجائیں۔ ایران اگر آج اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لئے میدان میں ڈٹا ہوا ہے تو دیگر مسلم ممالک کو بھی اسرائیلی جا رحیت کے خلاف متحدہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ مسلم دنیا اب بھی خواب غفلت سے نہ جاگے گی اور دوست و دشمن میں تمیز کرنے سے قاصر رہے گی تو پھر اسرائیل کے مظالم سے بچنا اس کے لئے ممکن نہ ہوگا۔
رابطہ۔9885210770 [email protected]