تاریخ گواہ ہے کہ اپنے آپ کو خود مسلمانوں نے جتنا نقصان پہنچایا اتنا نقصان مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی مسلمانوں کو نہیں پہنچایا ہوگا۔ شاہی دور ہو یا جمہوری طور ہو ہر دور مسلمان عمائدین کو نقصان پہنچانے، ان کو بدنام کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ سو، دیڑھ سو سال تک نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ پہلی جنگی آزادی کی ناکامی کے بعد جو بھی مسلمان مسلمانوں کی بہی خواہ بن کے اُٹھا اس کے راستے میں مشکلات کھڑی کی گئیں۔ اس کے خلاف فتوے تک لگائے گئے۔ ان میں قابل ذکر سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، علامہ اقبال، محمد علی جناح وغیرہ شامل ہیں۔ آزادی کے بعد چند سال پہلے تک پورے ہند کے مسلمانوں کی بے باک اور جرأتم مندانہ قیادت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے مجلس اتحادالمسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمان مسلم سیاست کے قومی اُفق پر نمودار ہوئے اور ایسا لگنے لگا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کو ایک قائد مل گیا ہے لیکن مجلس اتحادالمسلمین اور اویسی خاندان کی مخالفت میں غیرمسلموں سے زیادہ مسلمان آگے آئے اور وہ سارے قوم پرست جو مسلمانوں کی علیحدہ جماعت اور علیحدہ مسلم قائد کے سخت خلاف تھے وہ اسد الدین اویسی کے خلاف صف آرأ ہوگئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر اسد الدین اویسی کی قیادت کو ملک گیر قبولیت اور احترام حاصل ہوگیا تو ان کی قیادت کے چراغ بجھ جائیں گے جیساکہ حیدرآباد دکن میں مجلس کے قائدین اور ارکان اسمبلی کانگریس اور دوسری جماعتوں کے وزرأ سے زیادہ مقبول نظر آتے ہیں۔ اسی لئے قوم پرست عناصر نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ ان کی جگہ مسلم جماعت کے قائدین لے لیں۔ مجلس اور اویسی خاندان کی قیادت کی مخالفت کی یہی وجہ ہے۔
نہ صرف اسد الدین اویسی بلکہ ان کے والد اور دادا کو بھی قوم پرست مسلمانوں کی مخالفت کا حیدرآباد میں ہی سخت سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب یہی کچھ اسد الدین اویسی کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اسد اویسی کے والد سالارملت سلطان صلاح الدین اویسی نے مجلس اتحادالمسلمین کو حیدرآباد تک ہی محدود رکھاتھا لیکن جب اسد الدین اویسی نے صدارت کی انہوں نے تلنگانہ کے باہر بہار، مہاراشٹرا اور یوپی وغیرہ میں مجلس کو متعارف کروایا۔ مجلس کے دو قائدین رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے اور مختلف ریاستوں کی بلدیات میں بھی مجلس کے نمائندے نظر آنے لگے۔ یہ سب کچھ مخالف مجلس اور اویسی اصحاب کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس لئے انہوں نے اویسی کے خلاف اپنی مہم تیز کردی۔ ان پر طرح طرح کے ناقابل یقین اور من گھڑت الزامات عائد کئے گئے۔ حتیٰ کہ ان کو بی جے پی کا مددگار، ایجنٹ اور سیکولر اور مسلم ووٹ کاٹنے والا قائد قرار دیا گیا۔ حالانکہ کوئی الزام نہ ثابت ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی دلیل سامنے آئی کہ اویسی صاحب پر شک کیا جائے۔ شمالی ہند کی دو مسلم جماعتیں جن کو صرف ایک جماعت کا قائد ہونے اور الیکشن لڑنے کا شوق تھا وہ تو اویسی صاحب کے بدترین مخالف ہوگئے اور ہرقسم کے بے ہودہ پروپگنڈے میں مصروف ہوگئے۔
مانا جاتا ہے کہ بی جے پی وہ جماعت ہے جو اویسی صاحب سے بہت ڈرتی ہے کیونکہ اویسی مسلمانوں میں جرأت مندی کی روح پھونک سکتے ہیں اور بی جے پی اور کانگریس کی مخالف مسلم سازشوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔ بی جے پی کے اس الزام کو کانگریس اور خاص طورپر قوم پرست مسلمانوں نے مزید شہرت دی لیکن عام مسلمانوں نے اویسی صاحب پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
اویسی کے مخالفین نے اویسی کے خلاف سازشوں کا اور انہیں بدنام کرنے کی منصوبہ بندی جاری رکھی اور انہیں اس کا موقع اس وقت ہاتھ آیا جب اویسی صاحب کی دو صاحبزادیوں کی رسم منگنی ادا کی گئی۔ اس سلسلہ میں اویسی صاحب پر نہ صرف بے جا اصراف اور فضول خرچی کے الزامات کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے دونوں صاحبزادیوں سے مساوی سلوک نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک لڑکا نوابی خاندان کا ہو اور دوسرا متوسط طبقہ کا ہو تو اَمارات کا فرق تقریب میں بھی فرق پیدا کرتا ہے۔ نوابی خاندان کے صاحبزادے منگنی کی رسم کیلئے (105)کشتیوں میں ملبوسات اور زیورات لائے تھے۔
یہاں پر اس بات کا اعتراف غلط نہ ہوگا اپنی لڑکیوں کی منگنی سے قبل اویسی نے تمام رسومات انتہائی سادگی سے ادا کرنے کا اور تقریبات کو سادگی سے منانے کا اعلان نہیں کیا۔ اس سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کی ایک صاحبزادی کی منگنی حیدرآباد کی ایک مشہور شخصیت اور انتہائی دولت مند نواب شاہ عالم خاں کے پوتے سے ہوئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نوابی خاندان کے ذمہ داروں سے اسد الدین اویسی نے خواہش کی ہو کہ تمام تقریبات سادگی سے منائی جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بارے میں وہ خاموش رہے ہوں لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ اسدالدین اویسی نے اپنے ہونے والے سمدھیانے والوں سے سادگی برتنے کی خواہش کی ہو اور نوابی خاندان کے افراد نے اسے قابل اعتناء نہ سمجھا ہوا ۔ (عام طور پر نوابین اور صاحبانِ ثروت شادیوں کے مواقع پر سادگی برتنے کی درخواستوں کو قبول نہیں کرتے ہیں) تاہم یہاں سادگی پر عمل کرنے کے سلسلہ میں اویسی صاحب پر گرفت کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ نوابی خاندان کے نوشہ نے اپنی ساری شان و شوکت اور دولت مندی کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کو سادگی کی تلقین کرنے والے اویسی صاحب کی شبیہ خاصی متاثر ہوئی ہے کیونکہ سوشیل میڈیا پر مخالف اویسی عناصر نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
انگریزی کے ایک غیر معروف اخبار نے منگنی کی تقاریب کے بارے میں انتہائی مبالغہ آمیز خبریں شائع کیں جو سوشل میڈیا پر مخالف اویسی عناصر نے وائرل کیں اور ایسا لگنے لگا کہ اویسی نے بہت بڑا جرم کردیا ہے جب کہ حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ انگریزی اخبار نے ایک طرف مبالغہ آمیزی کی حدکردی تو دوسری طرف ’’ٹِرک فوٹو گرافی‘‘ سے بھرپور کام لیا اور معمولی قسم کی سفید رکابیوں اور دوسرے برتنوں کو سونے چاندی کا بنادیا گیا اور مہمانوں کی تعداد اور کھانوں کے اقسام کے بارے میں من گھڑت باتیں لکھی جانے لگیں۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر تقاریب کا احوال لکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تقریب میں مدعو ہی نہیں تھا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اویسی خاندان کی خواتین کی تصاویر کو (بلااجازت و اطلاع) سوشل میڈیا پر پیش کی گئیں جب کہ اویسی خاندان کی کسی لڑکی یا خاتون کو تقریباً60 سال سے کسی بھی پبلک مقام پر نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی اہم سے اہم موقع پر اس خاندان کی کسی خاتون کی تصویر شائع کی گئی۔ تصاویر لینے والوں اور شائع کرنے والوں نے ایک زبردست اخلاقی جرم کاا رتکاب کیا ہے۔ یہی اویسی کے خلاف معاندانہ رویہ کا ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں مہمانوں کی تعداد بہ مشکل 500 تا 700 رہی ہوگی۔ اس تقریب میں سیاسی قائدین ، بشمول مجلس اور مجلس کے علاوہ کسی بھی جماعت کے ارکان اسمبلی یا وزرأ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ حدتو یہ کہ علماء اور مشائخ کے ایک بہت بڑے گروپ سے اویسی خاندان کے قریبی روابط ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا۔ اویسی نے اپنی ذاتی تعلقات کی وجہ سے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر راؤ اور ان کی اہلیہ ، صاحبزادے اور بہو اور صاحبزادی کو مدعو کیا تھا۔ ورنہ کے سی آر کا کوئی وزیر تک مدعو نہیں کیا گیا۔ کوشش کی گئی تھی تقریب کو ایک خاندانی معاملہ رکھا جائے، اس لئے پریس کو بھی تقریب سے دور رکھا گیا تھا۔ ایک دو قریبی صحافی ہی اس تقریب میں مدعو تھے لیکن تقریب کے بارے میں رپورٹنگ وہ لوگ کررہے ہیں جو تقریب میں شریک ہی نہیں تھے۔
اویسی سے متعلق ان تقاریب کی خبروں پر کوئی توجہ نہ دی جائے۔ اویسی صاحب سے بے شک فروگذاشت ہوئی لیکن وہ قابل گرفت تو ہے لیکن ایسی نہیں ہے کہ اویسی صاحب کی شبیہ اس سے بگڑ جائے۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]