میر امتیاز آفرین
معروف کشمیری شاعر اور مترجم اسد اللہ اسد دو درجن کے قریب کتابیں چھوڑ کر انتقال کر گئے۔ موصوف ضلع بڈگام کے بورواہ گاؤں میں ایک نچلے متوسط طبقے کے زرعی گھرانے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے چھوٹی عمر سے ہی شاعری میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ اگرچہ ان کے ادبی ذوق کے لیے مناسب ماحول میسر نہیں تھا لیکن انھوں نے تمام مشکلات کے باوجود اس میدان میں طبع آزمائی کی اور کئی موضوعات پر کچھ اہم تخلیقات مرتب کر کے اپنا لوہا منوایا۔
اسد نے ایک سادہ اور عام انسان کی طرح زندگی گزاری اور بطور شاعر اور مترجم ان کی خدمات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ وہ اپنی فنی حدود سے بخوبی واقف تھے اور ادبی منظرنامے پر اپنے انمٹ نشانات ثبت کرنے کے لئے انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کشمیری زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ اسد کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا اور انہوں نے اسکول و کالج کے دور میں فارسی زبان و ادب پر دسترس حاصل کرلی تھی۔
فارسی زبان و ادب کے ساتھ ان کی محبت نے ان کے ذہنی افق کو وسیع کیا۔ سعدی، رومی، جامی، نظامی، فردوسی، حافظ، خسرو، غالب اور اقبال نے ان کے خیالات اور احساسات کو عروج بخشا۔ انہوں نے نہ صرف فارسی ادب سے استفادہ کیا بلکہ کشمیری اور اردو زبانوں میں بھی احسن طریقے سے اس زبان کے موضوعات کو متعارف کیا۔
انگریزی زبان کے مشہور شاعر، پی بی شیلے کے مطابق شاعری تین چیزیں تخلیق کرتی ہے، نیا علمی مواد ، قوت اور لطف۔ اسد اللہ اسد نے تینوں بنیادوں پر کام کیا اور حیران کن نتائج اخذ کئے۔ فارسی ادب سے انہوں نے نئی توانائی اور نئی جہتیں حاصل کیں اور انہیں بڑی خوبصورتی سے اپنی مادری زبان میں پرویا۔ عظیم فارسی شعراء سے تحریک لے کر انہوں نے ان کے افکار و نظریات کو اردو اور کشمیری زبانوں میں پیش کیا جس سے ان لوگوں نے کافی استفادہ کیا جو فارسی زبان سے نابلد ہیں۔
انہوں نے غالب، خسرو، اقبال حتیٰ کہ شیخ العالم شیخ نورالدین ؒ کے سدا بہار کلام کو اردو، کشمیری اور فارسی زبانوں میں پرویا۔اگرچہ ناقدین نے اسد اللہ اسد کے منظوم تراجم میں کچھ فنی اور لسانی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کی ہے مگر اس بات کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے کہ انہوں نے کتنا مشکل اور کٹھن کام اپنے ذمہ لیا تھا۔ ایک زبان کے ادبی فن پاروں کو بندشوں کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کرنا انتہائی کٹھن کام ہوتا ہے اور یقیناً ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی کاوشوں کو وہ مقام دیا جائے جن کی وہ حقدار ہیں۔
’’تحفہ علمدار کشمیرؒ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے کلام حضرت شیخ العالمؒ کا فارسی میں منظوم ترجمہ کیا جو ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے حضرت شیخؒ کے تقریباً 400 ابیات کا ترجمہ کیا ہے اور اس طرح سے انہوں نے کلام شیخ کو ایران اور دیگر ممالک میں متعارف کرانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ 528 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2019 میں ملٹی کلر آرٹ پیپر پر شائع ہوئی جس کے ایک طرف شیخ العالمؒ کا کشمیری کلام اور دوسری طرف اس کا فارسی ترجمہ درج ہے۔ آخر میں اسد اللہ اسد نے مشکل الفاظ کی ایک کارآمد فرہنگ بھی دی ہے جو شیخ العالمؒ کی شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت مفید ہے۔ ان کی چند مشہور کتابیں ہیں:نقشِ فریادی (اردو شعری مجموعہ) ، سوز جگر (فارسی غزلیات)، دوکھ تہ داغ (کشمیری غزلیات) ، غزلیات امیر خسرو (منظوم کشمیری ترجمہ)، جاپ جی صاحب (گرو نانک کے کلام کا منظوم کشمیری ترجمہ)، پس چہ باید کرد (منظوم کشمیری ترجمہ )، تحفہ علمدار کشمیر وغیرہ۔
اسد اللہ اسد نے کلامِ غنی کشمیری اور بالِ جبریل کا بھی کشمیری زبان میں منظوم ترجمہ کردیا ہے جو ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔کشمیر میں فارسی زبان کے زوال کے حوالے سے اسد اللہ اسد بہت فکر مند رہتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ بطور قوم فارسی زبان کے زوال سے ہم ایک گرانقدر علمی و فکری سرمایہ سے محروم ہوگئے ہیں۔ کشمیر کے ادبی افق پر ایک لمبے عرصے تک فارسی زبان نے راج کیا اور آج بھی اپنی ثقافتی بنیادوں کو تلاش کرنے کے لیے ہمیں فارسی زبان کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار انہوں نے کہا: ’’ہمارے بھرپور ثقافتی اور ادبی ورثے کا ایک خزانہ اصل میں فارسی میں لکھا گیا ہے، لیکن اس زبان کو نہ سیکھنے اور اسے ترک کرنے سے ہم اپنے آپ کو اپنے بھرپور ثقافتی اور ادبی ورثے سے دور کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے ایک بار جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگوئجز کو ایک کتاب ترجمہ کرکے پیش کی تاکہ اس کاوش کو کچھ پذیرائی مل سکے مگر انہیں ان کی طرف سے کچھ خاص توجہ نہ ملی تو انہوں نے دوبارہ کبھی اکیڈمی کے دروازے پر کبھی دستک نہ دینے کا فیصلہ کیا اور لکھتے گئے اور اپنے ذاتی اخراجات سے کتابوں کو شائع کرتے گئے۔ حکومتی سرپرستی اور تعاون سے وہ زبردست کام کر سکتے تھے مگر اداروں کی عدم توجہی سے انہیں مایوسی ہوئی ۔ ان کے سر سکھوں کی مقدس کتاب جپجی صاحب کا کشمیری زبان میں ترجمہ کرنے کا سہرا بھی ہے۔ اس کاوش کو ادبی اور مذہبی حلقوں میں کافی سراہا گیا اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے قارئین نے اس کام کے لئے اسد اللہ اسد کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
اسد اللہ اسد ایک شریف النفس اور ملنسار انسان تھے۔ وہ ایک مسحور کن شخصیت کے مالک تھے۔ وفات سے ایک سال قبل 2023ء میں میری ان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اچھی طرح ہماری مہمان نوازی کی۔ اپنی جدوجہدِ زندگی کے کئی واقعات سنائے اور زندگی میں روحانی اقدار کی ناگزیرت پر خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے صحت کے حوالے سے کئی مشکلات کا تذکرہ کیا مگر ساتھ شکر گزاری اور اطمینانِ قلبی کا بھی اظہار کیا۔ اکتوبر 2024 کو انتقال کرگئے اور اپنے پیچھے ایک گرانقدر تحریری سرمایہ چھوڑ گئے۔ کشمیری، فارسی اور اردو ادب میں ان کی نمایاں خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بقولِ غالب
یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
[email protected]