گوکہ 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں ابھی خاصہ وقت ہے لیکن تمام سیاسی جماعتیں ایسی سرگرمی بتارہی ہیں جیسے انتخابات چند ہفتہ بعد ہی ہونے والے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم جماعتیں اور مسلم قائدین اس طرح خاموش ہیں کہ جیسے انہیں ان انتخابات سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یوں تو یہ انتخابات سارے ملک کے ہر طبقہ اور علاقہ کیلئے بے انتہاء اہم ہیں لیکن یہ مسلمانوں کیلئے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ 2019ء میں بی جے پی دوبارہ اقتدار پر آجاتی ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے نہایت نقصاندہ ہوگا۔ آرایس ایس کا غیر مکمل ایجنڈہ بی جے پی کامیابی حاصل کرکے مکمل کرے گی۔ آر ایس ایس کا ایجنڈہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے۔
ملک میں یوں تو مسلم جماعتیں اور مسلم قائدین گنتی کے ہیں جو چند قائدین ملک گیر شہرت رکھتے ہیں ان کا دائرئہ عمل ان کی ریاست ہے۔ جیسے سماج وادی پارٹی کے اعظم خاں کا دائرۂ اثر و کار یوپی تک محدود ہے، مذہبی جماعتوں کے قائدین پر اب بھی سیکولزم کا بھوت سوار ہے بلکہ بعض قائدین تو کانگریس کے سوا کسی کا نام ہی نہیں لیتے جبکہ سیکولر جماعتوں خاص طور پر کانگریس نے مسلمانوں کو گزشتہ 70 سال میں کچھ نہیں دیا ہے۔ ملک میں اس وقت صرف مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی شہرت اور دائرے کار ملک کے مختلف حصوں میں پھیلا ہوا ہے لیکن حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اویسی وہ سرگرمی اور تیزی نہیں بتارہے ہیں جو وقت کا تقاضہ ہے۔ بی جے پی کو ہرانے کے لئے مختلف سیاسی جماعتیں متحد ہوکر محاذبنارہی ہیں لیکن کسی بڑے مجوزہ محاذ یا قائد کے ساتھ اسداویسی کا نام نہیں آتا ہے۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر رراؤ بھی غیربی جے پی، غیر کانگریسی محاذ بنانے کی فکر میں ہیں۔ چندرشیکھر کے ساتھ مجلس اتحادالمسلمین اوراسدالدین اویسی کا نام ضرور آتا ہے لیکن خود چندرشیکھر راؤ کو ملک گیر شہرت اور حمایت حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی اِن کا محاذ ابھی پوری طرح سے قائم ہوسکا ہے۔ اس وقت ضرورت اِس بات کی ہے کہ اسد الدین اویسی اپنے طور پر ملک کے تمام اہم قائدین کے ساتھ مذاکرات شروع کریں اور دیگر جماعتوں سے مسلمانوں کی حمایت و تائید کی شرائط طئے کریں لیکن تاحال اویسی کی کسی بڑے قومی یا علاقائی قائد سے اِس قسم کی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ مجلس اور اسد اویسی کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس نے جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعہ انہیں آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایجنڈ مشہور کررکھا ہے اور اِن کے بارے میں زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ ہوتا ہے کہ اسد سیکولر اور مسلم ووٹ تقسیم کرانے کے لئے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں لیکن اِس قسم کے دعوؤں کوابھی تک ثابت کیا گیا اور نہ ہی کوئی مضبوط دلیل اس سلسلہ میں پیش کی گئی اگر اسد اویسی کسی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں تو ان پر مسلم اور سیکولر ووٹ تقسیم کرانے کا الزام بلاتاخیر عائد کردیا جاتا ہے لیکن جب یہی کام کانگریس یا کوئی اور علاقائی جماعت کرتی ہے تو اس کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھاتا ہے۔ حال ہی میں گورکھپور، پھولپور کے انتخابی حلقوں میں سماج وادی پارٹی اور بی جے پی میں سخت مقابلہ ہوا تھا حدتویہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کی حریف بی ایس پی تائید کررہی تھی لیکن اِن دونوں پارلیمانی حلقوں میں کانگریس نے اپنے امیدوار کھڑے کئے اور وہ چند ہزار ووٹ جو ایس پی کو مل سکتے تھے کانگریس نے تقسیم کروادئیے۔ ان دونوں حلقوں میں کانگریس کو مقابلہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اِن حلقوں میں کانگریس کا مقابلہ کرنا ناقابل فہم ہے لیکن ووٹ کاٹنے کا الزام کانگریس پر نہیں لگتا ہے اور ان ہی حلقوں میں اگر ایم آئی ایم کا امیدوار مقابلہ کرتا ہے تو اس پر ووٹ کاٹنے کا اور بی جے پی کی مدد کا الزام عائد ہوجاتا۔ سیکولرجماعتوں کی یہی دو عملی مجلس کے لئے اہم رکاوٹ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلہ میں اسدالدین اویسی شہر حیدرآباد میں اپنی رسمی مصروفیات کو ترک کرکے ملک بھر کا طوفانی دورہ کریں اور سیکولر اور غیرسیکولر جماعتوں کے اہم قائدین سے ملاقات کرکے ایم آئی ایم کا موقف واضح کریں اور ملک کے مختلف شہروں میں پریس کانفرنسوں کے ذریعہ ایم آئی ایم پر لگنے والے الزامات کی سختی سے تردید کریں اور اِن الزامات کا پس منظر بھی عوام اور صحافت اور مقامی سیاستدانوں پر وا شگاف الفاظ میں واضح کریں۔ یوںتو اسد الدین اویسی نے متعدد بار مختلف مواقعوں پر اس الزام کی تردید بھی کی ہے لیکن جتنی شدت سے ان کے مخالفین الزام لگاتے ہیں اسد اویسی کی تردید اس کے مقابلہ میں کمزور تھی۔ ماناجاتا ہے کہ ملک کے اہم قائدین شردپوار، راہول گاندھی، لالوپرساد یادو اور دیگر اہم قائدین اسد الدین اویسی سے ملنے کے خواہاں نہیں ہیں اور اِن کو ساتھ لے کر چلنے کے اس واسطے روادار نہیں ہیں کہ اسد الدین اویسی بی جے پی کے مدد گار ہیں اور اِن کی وجہ سے سیکولر اور مسلم ووٹ کٹ جاتا ہے اور بی جے پی کا فائدہ ہوتا ہے۔ اِس الزام کی تردید کے لئے اسد الدین اویسی کو نہ صرف ماحول بنانا ہوگا بلکہ اس کی سختی سے تردید کرنے کے لئے ہر جماعت کے اہم قائدین سے ہر حال میں ملاقات کرنی ہوگی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اسدا لدین اویسی سے ملاقات کرنے سے ہر بڑا قائد انکار ہی کردے۔ اسد الدین اویسی کو اس بات کی مختلف ذرائع سے تشہیر کرنا چاہئے کہ اگر وہ مسلم اور سیکولر ووٹ کی تقسیم کے خواہاں ہیں تو سیکولر محاذوں اور جماعتوں کا ساتھ دینے کے لئے کیوں ہر طرح آمادہ ہیں؟ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں اسد الدین اور مجلس کا خاصہ اثر ہے اور یہ اثر سیکولر جماعتوں کے کام بھی آسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے سیکولر جماعتوں اور قائدین کو بھی اسد الدین اویسی کے چند مطالبات اور شرائط قبول کرنا ہوگا اور اسد الدین اویسی کو بھی اپنی فہرست مطالبات مختصر کرنی ہوگی اور اپنے شرائط کو زیادہ سخت نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر کسی ریاست میں 20 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم اکثریت ہے اور مسلم ووٹ نتیجہ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں وہاں پر ایم آئی ایم 20کے20 حلقوں پر دعویٰ نہیں کرسکتی ۔ اسے اس ریاست میں اپنے قدم جمانے کیلئے صرف چند نشستوں پر اکتفاء کرنا ہوگا اور دوسری جماعتوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرکے اِن سے کم سے کم مراعات کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ تب ہی اسد الدین اویسی سیکولر حلقوں میں اپنا مقام بناسکتے ہیں کیونکہ ہر نئی جماعت کو اپنی حیثیت منوانے کیلئے کچھ نہ کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکر اِس جماعت کو دوسری جماعتیں بھی ماننے لگتی ہیں۔ مجلس اتحادالمسلمین بے شک حیدرآباد میں بیحد مقبول ہے لیکن ممبئی، کولکتہ، دہلی اور لکھنؤ وغیرہ میں صورتحال مختلف ہے۔ جن اہم قائدین کو مسلمانوں کی عمومی مدد حاصل ہے ان سے اسد اویسی کو ملاقات کرنی چاہئے۔ قیاس کیاجاتا ہے کہ کجریوال، مایاوتی، ممتابنرجی اور اکھلیش یادو وغیرہ سے اسد کی تاحال کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ملاقاتوں کے سلسلہ کو آگے بڑھانا اور مختلف قائدین سے رابطہ پیدا کرنا ایم آئی ایم کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اگر اِن قائدین سے ملاقات نہ بھی ہو تو اس سے کم از کم یہ واضح ہوجائے گا کہ ایم آئی ایم اور اسد الدین اویسی سیکولر قائدین سے روابط رکھنے کے خواہاں ہیں اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایجنٹ کہلانے والے قائد سیکولر قائدین کے ساتھ مل کر انتخابی معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں اور اِس طرح ایم آئی ایم اور اسد کے ساتھ جو بے بنیاد الزام جڑا ہوا ہے وہ بے اثر اور ناقابل قبول ہوسکتاہے۔
مختصر یہ کہ اسد الدین اویسی کو حیدرآباد شہر میں فلاحی اور اصلاحی کاموں کی جگہ ملک بھر کے مختلف علاقوں میں اہم سیاسی قائدین سے ملاقات کرنا روابط پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور ان کے بنائے ہوئے محاذ میں یاکم از کم کسی بڑی جماعت کا ساتھ دینے کا بھروسہ دلانا چاہئے۔ جیسے بنگال میں اگر اسد ، ممتابنرجی کا ساتھ دیں تو اس سے ممتابنرجی کے مقابلہ میں ایم آئی ایم کا زیادہ فائدہ ہوگا اور جہاں دوسری مسلم جماعتوں کا اثر ہے جیسے کیرالا میں مسلم لیگ ، آسام میں مولانا اجمل کا محاذ ان ریاستوں سے اسد کا دور رہنا عقل مندی کا تقاضہ ہے۔ اسی طرح کرناٹک میں کانگریس سے مذاکرات ضروری ہیں اگر اپنے منصوبہ کے مطابق کرناٹک یا کسی اور ریاست میں ایم آئی ایم مقابلہ کرتی ہے تو اس طرح اپنے مخالفین کے الزام کو مضبوط کرے گی اور ایم آئی ایم کو اس الزام سے بری ہونا انتہائی ضروری ہے اور یہی کام اسد الدین اویسی کو فوری شروع کردینا چاہئے۔
…………………………………
Ph: 07997694060
Email: [email protected]