محمد فداء المصطفیٰ قادری
انسان خطا و نسیان کا پیکر ہے۔ یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے، جہاں انسان قدم قدم پر لغزش کا شکار ہوتا ہے، کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ طور پر وہ ایسے اعمال کر بیٹھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کا لطف و کرم ایسا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بندوں کو توبہ و استغفار کی دعوت دیتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ استغفار، یعنی گناہوں سے معافی مانگنا، اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا مجرب عمل ہے جو بندے کے لیے رحمت، برکت، مغفرت، کامیابی اور سکونِ قلب کا باعث بنتا ہے۔ جو شخص صدقِ دل سے اللہ کے حضور جھک کر معافی مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے بلکہ اس کی زندگی میں خیر و برکت بھی عطا کرتا ہے۔استغفار کا اصل مفہوم گناہوں کا اعتراف، ان پر ندامت اور اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، جو معصوم تھے، دن میں ستر سے سو مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے تو ہم گناہ گاروں کو اس عمل کی کس قدر ضرورت ہے۔
استغفار کے عملی طریقے:
۱۔ دل کی گہرائیوں سے توبہ:محض زبان سے نہیں بلکہ پورے دل سے شرمندگی کا اظہار اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم۔
۲۔ نمازِ توبہ:دو رکعت نفل پڑھ کر خالص اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنا۔
۳۔ سچے دل سے دعائیں کرنا:نبی کریمؐ کی سکھائی ہوئی دعائیں پڑھنا، جیسے’’ اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِي لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ۔‘‘
۴۔ استغفار کو عادت بنانا:ہر حال میں، دن اور رات میں بار بار اللہ سے مغفرت طلب کرنا۔
۵۔ نیک اعمال کی کثرت: گناہوں کی تلافی کے لیے خیرات، نوافل اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اضافہ کرنا۔
استغفار کی اہمیت کو قرآن و حدیث میں بارہا بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، جو معصوم عن الخطا تھے، دن میں ستر سے سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے۔ اگر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے استغفار فرماتے تھے تو ہمیں بھی اس کی عادت اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو امید اور حوصلہ دیا ہے کہ وہ کبھی بھی اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: “لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا” (سورۃ الزمر: 53)۔
ترجمہ:’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہ بخشنے والا ہے۔‘‘ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی گناہ اتنا بڑا نہیں کہ اللہ کی رحمت اس کا احاطہ نہ کرسکے۔ اگر انسان شرک سے بھی صدقِ دل کے ساتھ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف فرمادیتا ہے۔
استغفار نہ صرف آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے بلکہ دنیاوی زندگی میں بھی اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر پریشانی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرماتا ہے، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو، اور اس کے غموں کو خوشیوں میں بدل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام ؑ، صحابہ کرامؓ اور اولیائے کرامؒ ہمیشہ استغفار کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناتے تھے۔
حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کو نصیحت کی: “فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ”۔ (سورۃ نوح: 10-12)، (ترجمہ): ’’پس میں نے کہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے بارش برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد سے نوازے گا۔‘‘ یہ واضح پیغام ہے کہ استغفار مادی و روحانی ترقی کا ذریعہ ہے۔ جو شخص استغفار کی عادت اپناتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت، پریشانیوں سے نجات اور زندگی میں آسانیاں عطا فرماتا ہے۔
انسان جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کرے تو یہ دھبہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ مسلسل گناہ کرنے کے بعد احساسِ ندامت سے محروم ہوجاتے ہیں اور گناہوں کو معمولی سمجھنے لگتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کر لے اور استغفار کرے تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے، اور اگر وہ گناہ کرتا رہے تو وہ نقطے بڑھتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ حدیث ہمیں استغفار کی اہمیت بتاتی ہے کہ یہ ہمارے دل کو صاف کرنے اور نورانیت بحال کرنے کا بہترین عمل ہے۔
آج امتِ مسلمہ جن مصائب، آفات، مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے استغفار کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے گناہوں نے ہمیں آزمائشوں میں ڈال دیا ہے۔ اگر ہم اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کریں، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے ہم پر کھول دے گا۔ “وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ”۔ (سورۃ الانفال:33) ترجمہ: ’’اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے۔‘‘ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ جب کوئی قوم اللہ سے استغفار کرتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر نازل ہونے والے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم ہر لمحہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتے رہیں تاکہ ہمارے مسائل حل ہوں، رحمتیں نازل ہوں، اور امت مسلمہ کو فتنوں سے نجات ملے۔
استغفار محض زبانی الفاظ ادا کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل کی گہرائیوں سے ندامت، عاجزی اور گناہوں پر پشیمانی کا مظہر ہے۔ ایک مومن جب سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ اللہ کے مزید قریب ہوجاتا ہے۔استغفار ایک ایسا نور ہے جو دلوں کو منور کرتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے، رحمت کو عام کرتا ہے، اور بندے کو اللہ سے قریب کرتا ہے۔ اگر ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، اپنی پریشانیوں اور مشکلات کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں استغفار کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی توبہ کرنے، استغفار کو اپنی عادت بنانے اور اپنی رحمت و مغفرت سے نوازنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(رابطہ۔ 9037099731)
[email protected]