آئی اے ایس آفیسر شاہ فیصل نے نوکری کو خیر باد کہہ دیا اور سیاست میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ آج تک شاہ فیصل کا قسمت نے بہت ساتھ دیا ہے۔ اُنہیں میڈیکل سیٹ مل گئی اور وہ ایم بی بی ایس کرکے ڈاکٹر ہوگئے۔ پھر اُنہوں نے سیول سروسز میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور یہاں بھی قسمت نے کوئی بخیلی نہیں دکھائی اور یوں وہ پورے ملک میں پہلے نمبر پر آگئے۔کتنے ہی لوگ ہر سال سول سروسز کا امتحان پاس کرتے رہتے ہیں لیکن شاہ فیصل کی کامیابی نے اُنہیں کم سے کم اپنی ریاست کا ایک ہیرو بنا دیا۔ نقاد بھلے کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ شاہ فیصل کی اس کامیابی نے ریاست میں، با الخصوص کشمیر وادی میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جہاں والدین اپنے بچوں میں شاہ فیصل کو تلاشنے لگے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ کشمیریوں نے دو دہائیوں سے زائید عرصے کے بعد کوئی اچھی خبر سنی تھی۔ جس سرزمین پر روز مرنے مارنے کی خبریں ہی اخباروں کے پہلے صفحے پر چھپتی ہوں، وہاں شاہ فیصل کی کامیابی کی خبر کو ایک ’خوشگوار تبدیلی‘ کے طور دیکھا گیا اور سراہا گیا۔ والدین بچوں کو شاہ فیصل کی مثالیں دینے لگے اور نوجوان بھی اُن میں ایک آئیڈیل کو تلاشنے لگے۔ فیصل کے بعد اب تک بھلے ہی کسی کشمیری نے سیول سروسز میں پہلی پوزیشن حاصل نہ کی ہو لیکن بہت سارے لڑکوں اور لڑکیوں نے یہ امتحان پاس کرکے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔
شاہ فیصل کا نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کسی بھی طرح چونکا دینے والا نہیں تھا۔ پچھلے کئی مہینوں سے یہ افواہیں ہر سُو گشت کر رہیں تھی کہ فیصل نوکری چھوڑ کے نیشنل کانفرنس میں شامل ہو جائیں گے اور پارٹی کی طرف سے بارہمولہ۔کپواڑہ نشست کے لئے الیکشن لڑیں گے۔ کشمیر میں بسااوقات خبر افواہ ثابت ہوتی ہے اور افواہ خبر۔ یہی فیصل کے حوالے سے بھی ہوا۔ افواہ کا پہلا حصہ صحیح ثابت ہوا، انہوں نے نوکری چھوڑ دی۔ افواہ کے دوسرے حصے، یعنی نیشنل کا نفرنس میں شمولیت کے حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن افواہ کا تیسرا حصہ بھی سچ ثابت ہوا کیونکہ فیصل نے انتخابات میں حصہ لینے کے امکان سے انکار نہیں کیا۔
شاہ فیصل کا نوکری چھوڑنے کا اور سیاست میں آنے کا فیصلہ اُن کا اپنا ہے۔ فیصلہ صحیح ہے یا غلط ہے، ہم میں سے کسی کو جج بننے کی ضرورت نہیں۔لیکن ایک بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ فیصل نے جو فیصلہ لیا اُس کے لئے ہمت چاہیے۔یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ریاست میں بیروزگاری کا وہ عالم ہے کہ لوگ کلاس فورتھ نوکری کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔ ایسے میں ایک بہت ہی روشن مستقبل والی نوکری کو خیر باد کہنے لئے کلیجہ چاہئے اور فیصل نے یہ ثابت کردیا کہ اُن میں کچھ بات ہے، دم ہے۔
دوسری بات، ریاست جموں کشمیر میں سیاست میں آنے کا فیصلہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ جموں و کشمیر میں فقط دو طرح کی سیاست ہے، ہند نواز اور ہند مخالف (ہند مخالف میں پاکستان نواز اور خود مختاری کے حامی دونوں شامل ہیں)۔ اور دونوں طرح کی سیاست کرنے والے کبھی بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کر سکتے۔جہاں ایک طرف سرکار اپنے مخالفین کو زیر کرنے کیلئے کوئی بھی حربہ آزمانے سے نہیں چُوکتی وہیں عسکریت پسند بھی اپنے مخالفین کو سزا دینے میں خاصے سخی ہیں۔ 1990 سے لے کر آج تک کشمیر نے بہت ساری سیاسی ہلاکتیں دیکھی ہیں۔ مین اسٹریم والے بھی قتل کئے گئے اور علیحدگی پسند بھی۔ مذہبی تنظیمیں چلانے والے بھی قتل کئے گئے اور کیمونسٹ بھی، شدت پسند بھی قتل کئے گئے اور سیکولر بھی۔ کشمیر میں پچھلی دو دیائیوں سے زائد عرصے میں اگر کوئی طاقت واقعی سیکولر رہی ہے تو وہ ہے موت۔
کشمیر میں جاری موت کا رقص دیکھ کے جیمز شرلے کی مشہور زمانہ نظم Death the Leveller کا خیال ایک دم سے دماغ میں آجاتا ہے۔ اپنی اس نظم میں جیمز شرلے کہتے ہیں کہ زمانے کے اُتار چڑائو میں اگر کوئی فاتح ہے تو وہ ہے موت۔ ’کچھ لوگ جنگ کے میدان میں سروں کی فصلیں کاٹ کر اپنے سروں پر تاج جمانے کا تصور کرتے ہیں، اس احساس سے عاری کہ کل کو یہی تاج والے سر اسی موت کے قدموں میں گردوغبار میں لتھڑے پڑے ہوں گے۔ لیکن لوگ پھر بھی ایک دوسرے کو مارتے جارہے ہیں احمق حیوانوں کی طرح‘۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر مساوات کا صحیح فلسفہ سمجھنا ہو تو موت کو سمجھنا چاہیے۔ موت ایک سا سلوک کرتی ہے فاتح کے ساتھ بھی اور مفتوح کے ساتھ بھی۔
غرض یہ کہ کشمیر میں سیاست کرنے کا فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں۔ یہ سر ہتھیلی پر چلنے والی بات ہے اور شاہ فیصل نے ایسا کرکے دکھایا ۔اس لئے اُن کی ہمت کی داد نہ دینا بد ترین بخیلی ہوگی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ فیصل نے سیاست میں آنے کے لئے جو تاویلات پیش کی ہیں، ان کو لے کر کئی سوال اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے استعفے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کشمیر میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور مرکزی سرکار کی طرف سے اس اس سلسلے کو روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے جارہے ہیں۔ بالکل صیحح فرمارہے ہیں شاہ فیصل لیکن ان سے سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ جب انہوں نے انڈین ایدمنسٹر یٹو سروس کے امتحان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا،اس وقت بھی تو ہلاکتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہلاکتوں کا سلسلہ تو 1990 میں شروع ہوا۔ ہاں کسی سال مہلو کین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو کسی سال کم، لیکن ہلاکتوں کا سلسلہ رُکا تو کبھی نہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کا، با الخصوص نوجوانوں کا انتخابی سیاست سے بھروسہ اُٹھ گیا ہے ۔ شاہ فیصل کہتے ہیں کہ کشمیر میں لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ انتخابی سیاست مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور پھر اعلان کرتے ہیں کہ وہ انتخابی سیاست ہی کریں گے۔ وہ کیوں ایک ایسی سیاست کا حصہ بننا چاہتے ہیں جس پر بقول ان کے لوگوں کو اعتبار نہیں رہا ہے۔ وہ اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے خواہاں ہیں تو کیوں ایسی سیاست کرنا چاہتے ہیں جو بقول اُن کے لوگوں کی نظر میں مسئلہ کشمیر کے کسی ممکنہ حل کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے؟
شاہ فیصل کہتے ہیں کہ مین اسٹریم جماعتیں کچھ اصطلاحیں ، جیسے کہ آزادی، حق خود ارادیت، رائے شماری استعمال کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ایسا کہہ کے شاہ فیصل شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب وہ عملی طور سیاست میں آئیں گے تو یہ اصطلاحیں اُن کے لئے شجر ممنوعہ نہیں ہوں گی۔ بہت بڑھیا! لیکن پو چھا جاسکتا ہے کہ لنگیٹ کے سابقہ ایم ایل اے، انجینئر رشید تو دو بار انتخابات جیت کے آگئے اور دونوں بار انہوں نے اسمبلی کے فلور پر بھی یہ اصطلاحیں استعمال کیں تو کون سا انقلاب آگیا۔ علیحدگی پسند وں نے اُن کی نمائندگی کو قبول نہیں کیا اور مین اسٹریم والے بھی اُن کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔حریت سے بات کیجئے، پاکستان سے بات کیجئے، حریت کو space دیجئے۔ یہ سب باتیں عمر عبداللہ بھی کر رہے ہیں اور محبوبہ مفتی بھی۔ لیکن جب دونوں بر سر اقتدار تھے تو دونوں نے بزرگ سیاست دان سید علی گیلانی کو اپنے ہی گھر میں نظر بند رکھا۔
علیحدگی پسند سیاست کی vocabularyکا استعمال کرکے اگر شاہ فیصل سمجھتے ہیں کہ وہ انتخابی سیاست کریں گے اور یوں کشمیر میں کوئی بدلائو لائیں گے تو اُنہیں ایک پُر خلوص مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ اصطلاحوں کے استعمال سے سیاسی مسائل حل نہیں ہوتے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ ووٹ کرتے ہیں ،وہ اس لئے نہیں کرتے کہ اُن کے ووٹ کرنے سے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا یا اس لئے کہ اُن کے ووٹ کرنے سے مسئلہ کشمیر کے حل میں رُکائوٹیں پیدا ہوں گی۔ بالکل نہیں۔ وہ ووٹ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ اُن کو لگتا ہے کہ اُن کے چُنے ہوئے نمائندے اُن کے گائوں اور محلوں کی سڑکیں ٹھیک کر سکتے ہیں، اُن کو بجلی فراہم کرسکتے ہیں، اُنہیں صاف پینے کا پانی دستیاب رکھ سکتے ہیں، اُن کے مقامی اسکولوں میں اساتذہ کو تعینات کرسکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ سب کچھ شاہ فیصل سول سروسز میں رہ کر زیادہ بہتر طور کرسکتے تھے۔
خیر سیاست میں آنے کا اُن کا اپنا فیصلہ ہے۔آج تک اُنہوں نے جہاں بھی قسمت آزمائی، کامیاب ہوئے۔ ہم دُعا کریں گے کہ اب کی بار بھی قسمت اُن کا ساتھ دے اور وہ اپنے لوگوں کے لئے نعرہ بازی سے ہٹ کرکچھ بہتر کر پائیں۔
……………………
ماخوذ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم ‘‘ سری نگر