شیخ بلال
مشہور کہاوت ہے۔ اُس شخص کو کبھی موت نہیں آتی جو علم کو زندگی بخشتا ہے۔ اُستاد کی اصل زندگی اس کے پڑھائے ہوئے علم کو زندہ رکھنے میں ہوتی ہے اور جو استاد اپنے شاگردوں میں یہ مقام حاصل کر لیتا ہے کہ اُس کے شاگر د کثیر تعداد میں علم کے چراغ کو جلائے بیٹھے ہوں اور پھر ُان کے شاگرد اور آگے اُن کے شاگرد علم کی مسند پر بیٹھ کر لوگوں کی زندگیوں میں جہالت کے اندھیرے دور کر یںاور اپنے شاگردوں کے ظاہر و باطن کو علم کی شمع سے روشن کر کے حق کی راہ پر چلا دیں، تو وہ اُستاد چاہے اس دنیا فانی کو چھوڑ ہی کیوں نہ جائے ،اپنےپھیلائے ہوئے علم کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ در حقیقت ایک عظیم استاذ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑی نعمت اور بہت بڑا احسان ہوتا ہے ۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے اساتذہ کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے اُستاد میسر آجاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کی عزت کیوں نہ کی جائے، استاد کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے۔ استاد ہی کی محنت کی وجہ سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ بغیر استاد کے انسان اس اندھے کی مانند ہے جو بغیر سہارے کے سفر میں نکل جاتا ہے۔ میں آج وادی تلیل کے ایسے ہی ایک مشفق استاد کی عظمت کو سلام پیش کرنے کے لیے اپنے قلم کو جنبش دے رہا ہوں ۔ہماری وادیٔ تلیل نے بہت ہی باصلاحیت اور بہترین اساتذہ پیدا کئے ہیں، اُنہی میں سے ایک ہیں استاذ الاساتذہ مشفق و مہربان جناب عبدالرحیم لون، جنہوں نے اُس دور میں علم کی شمع روشن کی، جس دور میں تعلیم کا کوئی شوق و ذوق بہت ہی کم تھا ۔
عبدالرحیم لون وادیٔ تُلیل کے بڈوآب گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نےایسے دور میں تعلیم حاصل کی، جب پوری وادی میں تعلیم کے نام پر صرف ایک یا دو پرائمری اسکول تھے۔ ان اسکولوں میں بھی شاید ہی کوئی استاد موجود رہا ہوگا کیونکہ وادی کا مقامی استاذ شاید انور خان کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں اور دُور دراز کا کوئی استاذ گیا بھی ہوگا تو کم قلیل وقت کے لئے ۔ لیکن عبدالرحیم لون صاحب نے اساتذہ کی کمی اور نہ ہی اندھیرے ماحول کو دیکھا ،اپنی لگن اور محنت سے علم کے نور سے منور ہوئے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں تعلیم حاصل کی، انگریزی اور عربی بھی پڑھی۔ پرائمری کے بعد تعلیم حاصل کرنے بیسیوں کلومیٹر دور پیدل بانڈی پورہ جایا کرتے تھے ،اور لمبا سفر پیدل طے کرکے ڈگری کالج سوپور سے بی اے اور پھر کشمیر یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کرلیں۔ لون صاحب کی علم کی لگن اور ان کے شوق کا اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس دور میں تعلیم حاصل کی ،جس دور میں کوئی سہولت مہیا تھی اور نہ ہی تعلیم کا رواج تھا۔ لون صاحب وادی تلیل کے چند پہلے اساتذہ میں شامل ہیں،جن کی 1983ء میں ہائی اسکول بڈوگام میں بطور استاذ تقرری ہوئی۔ پھرلون صاحب ہائر سیکنڈری بڈوآب اوراس کے بعد وادی کے مختلف اسکولوں میں بطور ایک بہترین استاذ اور ہیڈ ماسٹر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ لون صاحب 2018ء میں بطور زونل ایجوکیشن آفیسر ہاریگنون کنگن، تقریباً 35 سال کی نمایاں تدریسی اور انتظامی خدمات کی انجام دہی کے بعد وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوگئے۔
ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کے دل میں گھر کرجاتا ہے۔ میں نے خود تو براہ راست لون صاحب سے تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن میرے اکثر اساتذہ لون صاحب کے شاگرد رہے ہیں ۔ بقول میرے اساتذہ لون صاحب ایک بہترین استاذ کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ صفات کے مالک انسان تھے۔ لون صاحب کا مزاج گرامی طلباء کو اچھی تعلیم دینا اور اُن کی مدد کرنا، طلباء کو بہترین انسان بنانا تھا ۔ ایک ماہر، متحرک ،محنتی و مثالی استاذ لون صاحب کی شاخت تھی ۔ عبدالرحیم لون صاحب ہمیشہ اپنی ڈیوٹی اور خدمات کے تئیں پُر عزم رہتے تھے۔ لون صاحب کے تعلیمی شعبہ میں گزرے وقت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور جب کبھی بھی تلیل میں شعبہ تعلیم کی بات ہوگی،اُنہیں ہمیشہ یاد کیا جائے گا ۔ لون صاحب کی طبیعت انتہائی سلجھی ہوئی تھی، اتنے سادہ اور شریف انسان تھے کہ نہ اس بات کا ادعاء تھا کہ وہ وادی کے پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ اشخاص میں شامل ہیں اور نہ ہی اس بات کا غرور تھا کہ وہ بہت ذہین اور قابل استاذ ہیں۔ سادگی اور شرافت کی تو یہ سطح تھی کہ جو کوئی بھی اُن سے ملاقات کرتا تھا ان کی شرافت، بلند اخلاق کا گرویدہ ہوجاتا تھا ۔ لون صاحب ہر کسی سے بلا تمیز امیر و غریب، مزدور و ملازم، چھوٹا یا بڑا خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتے تھے ۔ اپنے شاگردوں اور کام کے تئیں اتنے سنجیدہ تھے، کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے ناغہ نہیں کرتے تھے، اکثر غریب اور ضرورت مند طلباء کی مدد کرتے تھے۔ اپنے طلباء کے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ اور رحیمانہ انداز سے پیش آتے تھے۔ لون صاحب کی ایک ہی تمنا تھی کہ ان کے شاگرد تعلیم کے نور سے منور ہوکر بہترین انسان بن جائیں۔ اپنے شاگردوں کو اچھے اخلاق، اچھے آداب اور اچھے عادات سکھانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ ان کے شاگردوں یا ان کے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ و ملازمین لون صاحب کی ذہانت کی داد دیتے ہیں، ان کو اردو، فارسی اور انگریزی میں ایسا عبور حاصل تھا کہ ان کے شاگرد اور ہم منصب اکثر ان کی مثال دیا کرتے ہیں۔ لون صاحب کی دیانتداری، ایمانداری، شفقت اور اخلاص کا اندازہ اسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی ان کے شاگرد اور ہم منصب ان کا نام بے انتہا احترام اور عزت سے لیتے ہیں، آپ کے مشفقانہ انداز ، ہمدردانہ رویہ، مخلصی اور اعلیٰ اخلاق کو یاد کرکے تمنا کرتے ہیں کہ ہر استاذ عبدالرحیم لون صاحب جیسا ہو ۔بہرحال ہر انسان کو اس دار فانی سے رخصت ہوجانا ہے اور لگ بھگ 74سال کی عمر میںگذشتہ ماہ 6 ستمبر 2025ء کو محترم لون صاحب ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔اگرچہ اب لون صاحب ہمارے بیچ میں نہیں رہے تاہم وہ وادیٔ تُلیل کے دِلوں میں بسے رہیںگے،اور اُمید قوی ہے کہ اُن کے شاگرد جہاں بھی ہوں، جس بھی شعبے میں کام کررہے ہونگے، اُن کا نام روشن کریں گے۔ لون صاحب ایک بہترین استاذ اور ایک اعلیٰ صفات شخصیت ہونے کے بطور ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ لون صاحب کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
رابطہ۔ 6006796300
[email protected]