ریاست جموں و کشمیر کے ایک عالم بے بدل ،ادیب لبیب، نامی گرامی دانشور ،مثالی اُستاد اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک علامہ محمد اسماعیل الاثری صاحب 12اور 13مارچ کی درمیانی رات کو دا عی ٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اثری صاحب کا صحیفۂ اخلاق تابندہ و درخشاں رہا ،اُن کی ذہانت ،فطانت ،حاضر جوابی ،سنجیدگی اور مروت و مودت کے جذبات ہر لحاظ سے منفرد تھیں ۔ مولانا 12جنوری 1952کو پنلہ مالیگام پوگال پرستان ، ضلع رام بن کے دور افتادہ علاقہ میں الحاج امام الدین رونیال کے گھر میں تولد ہوئے، مڈل اسکول مالیگام میں داخلہ لیا تو یہاں سے ہی علم وحلم کے جوہر کھلنے لگے، گھر کا ماحول دینی تھا، اس لئے حصول علم کے لئے 1969میں ’’دارالتعلیم ‘‘مبارک پور اعظم گڑھ میں عربی ثلثہ پاس کیا ، جامعہ ا ثریہ مئو سے سند فرا غت حا صل کی، مدرسہ سبل السلام پھا ٹک حبش خا ن دہلی سے بھی اکتساب فیض کیا ۔کچھ عرصہ ریاست سے باہر ہی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور 1978 ء میں قائم شدہ الکلیتہ السلفیہ سری نگر سے وابستہ ہوئے تومولانا محمد نور الدین ؒ کا کئی برس قربِ خاص حاصل رہا ۔ مرحوم اثری صاحب شب و روز قرآن وسنت کی دورس وتدریس کی خدمت میں جٹے رہے اورکسی مسلک و مشرب کی تمیز کے بغیر تشنگان ِ علم کی پیاس بجھانے میں لذت و سرور محسوس کرتے۔1990میں کے نامساعدحالات انتہائی نا مساعد ہوگئے تو مولانانے پوگل پرستان کے کوہساروں کے درمیان انجمن کشفیہ کوہستانی کے ملکیتی رقبہ ٔ زمین پر کشفیہ تعلیمی مرکز کی بنیاد ڈالی ،دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگا ۔ ادھر سرینگر میں حالات کچھ سازگار ہو گئے توالکلیتہ السلفیہ نے کام پھر سے شروع کیا ،مرحوم کو واپس بلالیا گیا اور ادارے کے شعبۂ تحقیق کی سربراہ بنائے گئے ،کئی برس ہفت روزہ ’’مسلم‘‘کی ادارت بھی سنبھالی۔ سلفیہ گرلز کالج کا قیام عمل میں آیا تو انہیں اس ادارے کی سربراہی کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ مرحوم اعلیٰ پایہ کے منتظم تھے اور ڈسپلن کے حوالے سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ،طبعاً کم گواور سنجیدہ تھے لیکن رگِ ظرافت پھڑک اُٹھتی تو محفل کو زعفران زار بنا دیتے ۔اُن کے چھوٹے چھوٹے جملے اور مختصر مگر برجستہ اشعار کی ادائیگی مرحوم کی علمی استعداد اوروسعت مطالعہ کا پتہ دیتی تھی۔اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے اور مطالعہ کا شوق بے قرار رکھتا تھا ،کتابوں کی دنیا ہی اُن کی دنیا تھی ،کمپیو ٹر اور انٹرنیٹ اور Netمتعارف ہوا تو فوراً ہی انہیں بھی سیکھ لیا ۔Whats Up اور Face Book کا استعمال بھی خو ب کیا کرتے تھے ۔اپنے مضامین خود ٹائپ کرتے تھے ،زود نویس تھے اور کئی کتابوں کی تصنیف بھی کی ۔تحقیق سے خاص شغف تھا اور تاریخ سے بے حد دلچسپی ۔ایک عرصہ سے اپنے علاقہ پوگل پرستان کی تاریخ لکھنے کا شوق دل میں موجزن تھا ،ارادے کے پکے تھے اور اس پر کام شروع کردیا ،یہ اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہے کہ پچھلے سال یہ ضخیم تاریخ منصہ شہود پر آئی تودانشوروں، صحافیوں ،ادباء اور سنجیدہ فکر لوگوں نے اس قلمی کاوش کو بے حد سراہا ۔ اثری صاحب زبردست نقاد بھی تھے ،عالی ظرف لوگ اس تنقید سے برافروختہ نہیں ہوتے تھے بلکہ اصلاح احوال کی کوشش کرتے۔تعریف بھی کرنی ہوتی تو احتیاط کا دامن نہ چھو ٹتا،مبالغہ آرائی سے کوسوں دور تھے ۔حالیہ دنوں میں جب جموں کے عید گاہ میں ’’اسلام کا پیغام انسانیت کے نام‘‘ سے ایک کانفرنس ہوئی تومولانا اس میںشروع سے آخر تک اس میں شر یک رہے ۔راقم الحروف نے میڈیا کے منفی و مثبت اثرات پر حتی الوسع گفتگو کی ۔تقریر کے بعد میں اپنی جگہ پہ آ کے بیٹھ گیا تو مولانا میرے پاس آئے ،میں نے سوچا پتہ نہیں کہ اب تقریر میں کس کس کمی و خامی کا ذکر کریں گے لیکن دوسرے علماء کی موجودگی میں کہا : بشارت صاحب آپ کی تقریر نے آ ج بہت متاثر کردیا ۔میں نے سوچا کہ وار تیکھا ہے اور جملہ طنزیہ ہے ، اس لئے خاموش رہا تو پھر بول اُٹھے کہ تقریر جاندار ہی نہیں بلکہ اُن کی دانست میں شاہکار تھی،کہا آج آپ نے مجھے رُلا بھی دیا ۔میں نے کہا کہ مولانا آپ تو کسی کی تحسین کرنے میں بڑے ’’بخیل‘‘ کہلائے جاتے ہیں، آج اتنی دریا دِلی؟ فرمایا: ’’ حق کا اظہار نہ کیا جائے تو کتمانِ حق کا گناہ سر آتا ہے‘‘ ۔ اُن کے یہ تاثرات اور عالی ظرفی تھی ورنہ میں کیا اور میری گفتار کیا ۔پچھلے سال مدرسہ کشفیہ مالیگام پوگل کی سالانہ تقریب کا انعقاد ہورہا تھا ،مولانا اُس کے روح رواں تھے اور یہاں کے پیر و جواں میںشمع محفل تو وہی تھے ،اُن کی گفتگو کی باری آئی تو کہا کہ کرسی پر بیٹھ کر ہی بولوں گا ،بولنا شروع کیا تو مجھے اس وقت سے خدشات نے آگھیرا ،ویسے پچھلے برس وہ اس قدر علیل ہوگئے تھے کہ جانبر ہونے کی اُمید نہ رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل خاص شامل حال رہا کہ صحت یاب ہوگئے اور اب تو کئی ماہ سے چاق و چوبند نظر آرہے تھے۔لیکن کسے خبر تھی کہ 12مارچ 2018 ء کو جمعیت منزل کی مسجد میں دن بھر ساری نمازوں کی پیشوائی کرنے والا یہ نامور امام بس اب چند ہی گھنٹوں کا مہمان ہے ۔عشاء کی نماز بھی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھائی ،اپنے کمرے میں چلے گئے ۔گھر کے دو بچے بھی ساتھ ہی رہتے تھے ۔9بج کر 22منٹ پر ایک یادگار دینی (Post)بھیفیس بک پر ڈالی،مطالعہ میں مصروف رہے پھر اچانک کوئی بارہ ساڑھے بجے طبیعت بگڑ گئی ،شفا ء خانہ منتقل کر نے کے لئے گاڑی کا انتظام کیا جانے لگا ،اس دوران نظام ِتنفس بگڑتا رہا ، خود دراز ہوئے ،بند آنکھیں ایک دفعہ کھولیں کچھ ذکر و اذکار میں محو ہوئے ،پانی کے چند گھونٹ ہی لئے تھے اور چند لمحات میں ہی اس مرد حق آگاہ نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔انا اللہ ونا الیہ راجعون ۔
مرحوم مولانا اسماعیل اثری جیسے استاذ الاساتذہ کی تدفین کے لئے اُن کی میت اشک بار آنکھوں اور مسنون دعاؤں کے سائے میں مرحوم کے آبائی گھر پہنچا دی گئی جہاں اللہ کا یہ مخلص بندہ ، دین ِ مبین کا فعال داعی، علم ودانش کا متوالا ، شعروادب سے فطری شغف رکھنے و الا اب تاقیام ِ قیامت منوں مٹی نیچے ابدی نیند سوتارہے گا مگر ان کے علم کی عطر بیزیاں اور دینی خدمات کی بھینی بھینی خوشبوئیں پوری ریاست میں برابر پھیل رہی ہیں۔رات ہی میں اُن کے انتقال کی خبر میڈیا پر چھاگئی تو ہزاروں کی تعداد میںاساتذہ ،علماء ،سیاسی و مذہبی قائدین ،مرحوم کے شاگردوں کا وسیع حلقہ ا ور عوام کا ایک جم غفیرجمع ہوا ، حسب پروگرام گائوکدل چوک سری نگر میں صدر جمعیت اہل حدیث پروفیسر غلام محمد بٹ المدنی کی پیشوائی میںاس مردِ حق آگاہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ یہی سے قافلے کی صورت میں مرحوم کاجسد خاکی بشٹ چنہینی اُد ھم پور کو روانہ کیا گیا ۔ یہاں پر ہزاروں لوگوں نے الشیخ مولانا رحمت اللہ بالی کی پیشوائی میں مرحوم کی نماز جنازہ پھر سے اداکی اور پھر آہوں ،سسکیوں ،ہچکیوں اور مسنون دعائوں کے بیچ اُنہیں آغوش لحد میں رکھا گیا ۔یوں یہ علم و دانش کا ماہتاب مٹی کا پردہ اوڑھ کر سوگیا ۔ درس وتدریس کے میدان میں با لخصوص اُن کی خدمات کا احاطہ اس مختصر کالم میںممکن نہیں۔ البتہ یہ کہے بغیر رہا نہیں جاتا کہ مولانا مرحوم مغفور کے شاگردوں اور تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ریاست اور بیرون ریاست اُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے طالبین دین کی تعداد کچھ کم نہیں ۔غم و اندوہ کی شدت سے میرے اندر کا شاعر لب بستہ ہے، اس لئے ان سطور کا خاتمہ کسی اور شاعر کے ان اشعار کے ساتھ ؎
تیری جدائی پہ مرنے والے وہ کون ہے جو دل حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے
اگرچہ قدرت کا ایک شاہ کار آخری نیند سو چکا ہے
مگر تیری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انسان میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
علم کی عظمت اُجڑ گئی ہے زبان کا زور بیان گیا ہے
اُتر گئے منزلوںکے چہرے وہ سوئے دارالاماں گیا ہے
مگر تیری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
فون نمبر 9419080306