بشیر اطہر
یوم اساتذہ ہمیں اپنے اساتذہ کے تئیں ہمدردی اور محبت کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ان اساتذہ کیلئے واقعتامبارک ترین دن ہوتا ہے جو اپنے طالب علموں کو جہالت کی اندھیری سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور انہیں علم کے نور سے نوازتے ہیں اور جو اپنے طالب علموں کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کو ہر وقت اور ہردور میں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ استاد حصول علم کا براہ راست ایک ذریعہ ہے اس لئے ان کا احترام کرنا ہم پر لازم ہیاساتزہ ایک انسان کی شخصیت سازی اور کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ ایک اچھے استاد کا بااخلاق اور باکردار ہونا انتہائی لازمی ہے اور تب ہی وہ طلبا ء کو صحیح طریقہ سے رہنمائی کرسکتا ہے۔ استاد کو انّا پرستی سے پاک ہونا چاہیے کیونکہ اس سے وہ بچوں کے معیار تک پہنچ سکتا ہے ۔اگر اس میں ذرا برابر بھی انا ہو تو بچے سیکھنے سے ڈر کے مارے سیکھنے سے رہ جاتے ہیں اور کئی اسکول بھی چھوڑنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایک استاد کو اپنے آپ کو طالب علم ہی تصور کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے شاگردوں کے لیول سے ان کی صلاحیت کو ابھار سکے۔ اس کے علاوہ استاد کو ذمہ دار، محنتی، اورفرض شناس ہونا چاہیے۔ اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں ۔جو بھی خصوصیات استاد میں ہوتی ہیں شاگرد بھی ان ہی خصوصیات کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے استاد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے اساتذہ کو اپنے شاگردوں کے سامنے ایسے کام بھی انجام نہیں دینے چاہئیں جن سے ان کے ذہن آلودہ ہوجائیں اور ان پر برے اثرات مرتب ہوں ۔
دور حاضر میں اساتذہ کو عزت کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ مادہ پرستی ہے کیونکہ لوگ مادیت کے شکار ہیں اور علم دینے والے کو سْبک سمجھتے ہیں اور دوسری وجہ دین اسلام سے دوری بھی ہے۔ اس لیے دیکھا گیا ہے کہ لوگ دولت کو عزت دیتے ہیں علم کو نہیں ۔ اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں اور وہ قوم کو تہذیب وتمدن، اخلاقیات اور معاشرتی اتارچڑھاؤ سے واقف کراتا ہے بشرطیکہ وہ خود ان چیزوں سے واقف ہو۔ اسی لئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اساتذہ باشعور معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک فلاسفر کا کہنا ہے کہ” ہر کسی کا ایک باپ ہوتا ہے مگر ایک طالب علم کو دوباپ ہوتے ہیں ایک وہ جو اس کی پرورش کرتا ہے، کھانے کیلئے کھانا دیتا ہے، رہنے کیلئے گھر دیتا ہے اور دوسرا باپ وہ ہوتا ہے جو اس کو روحانی، اخلاقی اور اصلاحی تربیت کرتا ہے آداب سکھاتا ہے جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے وہی استاد کہلاتا ہے مگر جو باپ اس کی تربیت کرتا ہے وہ زیادہ قابل قدر ہوتا ہے “برطانیہ میں ایک واقع کافی مشہور ہے کہ ایک دن برطانیہ میں ایک شخص کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں جرمانہ عائد کیا گیا مگر اس نے وقت پر جرمانہ جمع نہیں کیا تو اس کو کورٹ میں پیش کیا گیا جب جج نے پوچھا کہ آپ نے وقت پر جرمانہ جمع کیوں نہیں کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں ایک استاد ہوں اور اسکول میں مصروف رہتا ہوں جس کی وجہ سے جرمانہ بھرنے سے رہ گیا اور جس دن یہ جرمانہ عائد ہوا تھا اس دن مجھے سکول جانے میں دیر ہوئی تھی جس کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تو جج یکایک کھڑا ہوا اور کہا کہThe Teacher is in the court۔اس کے بعد کچہری میں موجود سبھی لوگ کھڑا ہوگئے اور جج نے اس کا جرمانہ اسی وقت معاف کیا اور ان پولیس والوں سے وہ جرمانہ وصول کیا جنہوں نے اس کے خلاف چالان کاٹا تھا۔ جب یہ خبر ایوان بالا تک پہنچ گئی تو انہوں نے ایک قانون اجرا کیا کہ اگر کچھ بھی ہو استاد کو کہیں پر بھی روکا نہ جائے تاکہ بچوں کا مستقبل مخدوش ہونے سے بچ جائے۔ اسی فکر کی وجہ سے ان قوموں کی ترقی کا راز معلوم ہو رہا ہے۔ اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جتنی عزت استاد کو ملتی ہے اتنی عزت وہاں کے وزیر اور صدور کو بھی نہیں ملتی ہے مگر برصغیر ایشیا میں اس کے برعکس ہے۔ یہاں ایوانوں میں استاد کے خلاف آوازیں اٹھائی جارہی ہیں، فقرے کسے جارہے ہیں اور تذلیل کی جارہی ہے۔ اس لئے یوم اساتذہ منانے کا مقصد بس یہی ہے کہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچے کہ استاد کا مقام قابل احترام ہے۔
الغرض استاد کا مقام ہرشئے سے زیادہ ہے کیونکہ استاد اگرچہ خود بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ ضرور بناتا ہے اس لئے آئے ہم اپنے اپنے اساتذہ کوسلام پیش کریںاور اگر وہ فوت ہوچکے ہیں توان کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھیں کیونکہ اگر ہمیں کوئی عزت دیتا ہے تو وہ استاد کی ہی بدولت ہے، اگر ہم کسی منصب پر فائز ہیں وہ بھی استاد کی ہی بدولت ہے۔