مختار احمد قریشی
استاد اور شاگرد کا تعلق محض تعلیم دینے اور لینے کا رشتہ نہیں بلکہ یہ ایک مقدس اعتماد اور محبت کا رشتہ ہے۔ استاد وہ ہستی ہے جو شاگرد کو علم کے ساتھ ساتھ تربیت اور کردار عطا کرتا ہے۔ وہ شاگرد کی صلاحیتوں کو پہچانتا ہے، اس کی کمزوریوں کو دور کرتا ہے اور اسے زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے لیے تیار کرتا ہے۔ شاگرد کے دل میں استاد کے لیے اعتماد پیدا ہونا ضروری ہے، کیونکہ جب شاگرد اپنے استاد پر اعتماد کرتا ہے تو وہ اس کی نصیحت کو دل سے قبول کرتا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اعتماد کے بغیر تعلیم محض رسمی عمل بن کر رہ جاتی ہے۔ احترام اس تعلق کا دوسرا ستون ہے۔ استاد کا احترام نہ صرف شاگرد کے لیے اخلاقی فریضہ ہے بلکہ یہ تعلیم کے عمل کو خوشگوار اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔ جہاں استاد اور شاگرد کے درمیان احترام قائم ہو وہاں تعلیمی ماحول میں سکون اور مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔
جدید دور میں یہ تعلق کئی چیلنجز کا شکار ہے۔ سماجی دباؤ، ٹیکنالوجی کا غلط استعمال، والدین اور اساتذہ کے درمیان کمزور روابط اور تعلیمی نظام میں بے پناہ مقابلہ بازی نے اس مقدس رشتے کو متاثر کیا ہے۔ بعض اوقات شاگرد استاد کو محض ایک مضمون پڑھانے والے شخص کے طور پر دیکھنے لگتا ہے اور استاد بھی طلبہ کو نمبر اور گریڈز تک محدود کر دیتا ہے۔ یہ رویہ تعلیم کی روح کو متاثر کرتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ شاگردوں کے ساتھ اعتماد قائم کرے، انہیں اعتماد دے کہ وہ سوال کر سکتے ہیں، اپنی مشکلات بیان کر سکتے ہیں اور سیکھنے کے عمل میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح شاگرد کو چاہیے کہ استاد کو اپنا رہنما اور خیر خواہ سمجھے اور اس کے تجربے اور علم سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ جب یہ دو طرفہ اعتماد قائم ہوتا ہے تو شاگرد اپنی پوری استعداد سے سیکھنے لگتا ہے اور استاد کو بھی اپنی محنت کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یہ تعلق صرف کلاس روم تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ زندگی بھر رہنے والا رشتہ بننا چاہیے۔ استاد شاگرد کے لیے محض علم کا ذریعہ نہیں بلکہ اخلاق اور کردار کی عملی مثال ہوتا ہے۔ شاگرد استاد کے قول سے زیادہ اس کے عمل سے سیکھتا ہے۔ اس لیے استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار کو ایسا بنائے جو طلبہ کے لیے مثالی ہو۔ دوسری طرف شاگرد کو بھی اپنے استاد کے وقت، محنت اور مقام کا احترام کرنا چاہیے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق جب اعتماد اور احترام پر قائم ہو تو یہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ یہی تعلق آنے والی نسلوں کو نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ باشعور اور باکردار بناتا ہے۔ آج کے دور میں ہمیں اس مقدس رشتے کو پھر سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم محض نصاب کا نام نہ رہے بلکہ ایک تربیتی اور اصلاحی عمل بن جائے۔
استاد اور شاگرد کے تعلق میں اعتماد اور احترام کی مضبوطی تعلیمی معیار کو نئی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے۔ جب شاگرد استاد کو صرف ایک علم دینے والا نہیں بلکہ ایک مشیر، دوست اور رہنما سمجھنے لگے تو وہ زیادہ توجہ سے سنتا ہے اور اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح استاد کو بھی چاہیے کہ وہ شاگرد کے دل میں خوف کے بجائے اعتماد پیدا کرے۔ سختی اور سزا کے بجائے رہنمائی اور حوصلہ افزائی کو ترجیح دے تاکہ شاگرد اپنی صلاحیتوں کو کھل کر استعمال کر سکے۔ اعتماد کا یہ ماحول شاگرد میں سوال کرنے کی عادت پیدا کرتا ہے، جو تخلیقی سوچ اور نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ والدین اس مقدس رشتے کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جب والدین استاد کا احترام کریں گے تو بچے بھی استاد کی عزت کریں گے۔ والدین اور اساتذہ کا باہمی رابطہ تعلیمی عمل کو زیادہ مؤثر بنا دیتا ہے۔ اسکول اور گھر کا ماحول ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو بچہ زیادہ بہتر طریقے سے ترقی کرتا ہے۔ اس تعلق کو مزید مستحکم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اساتذہ اور والدین کے اجلاس ہونا ضروری ہیں تاکہ دونوں مل کر بچوں کے مسائل کو حل کریں اور انہیں مثبت رہنمائی فراہم کریں۔
میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ استاد اور شاگرد کا تعلق محض ایک وقتی ضرورت نہیں بلکہ یہ عمر بھر کا رشتہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں نے استاد کے مقام کو بلند رکھا وہاں علم، تہذیب اور اخلاق پروان چڑھے۔ اور جنہوں نے استاد کی عزت کو نظر انداز کیا وہاں جہالت اور بے راہ روی نے جنم لیا۔ آج ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں دوبارہ وہی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں استاد اور شاگرد ایک دوسرے کے لیے اعتماد اور احترام کا پیکر ہوں۔ یہ تعلق مضبوط ہوگا تو ہمارے بچے نہ صرف امتحانات میں کامیاب ہوں گے بلکہ عملی زندگی میں بھی باوقار اور ذمہ دار شہری بن کر ابھریں گے۔ یہی حقیقی تعلیم اور استاد شاگرد کے تعلق کا اصل مقصد ہے۔
استاد اور شاگرد کے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول پیدا کرنا ناگزیر ہے جو محبت، اعتماد اور مکالمے کو فروغ دے۔ کلاس روم صرف پڑھانے کی جگہ نہ ہو بلکہ ایک ایسا تربیتی مرکز ہو جہاں استاد شاگرد کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور شاگرد استاد کو اپنی فکری رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھے۔ نصاب کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر زور دیا جائے، کیونکہ علم صرف تب فائدہ مند ہوتا ہے جب وہ انسان کو بہتر اخلاق اور عمل کی طرف لے جائے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ کے لیے مسلسل تربیت اور رہنمائی کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی تدریس کو بہتر بنا سکیں۔ استاد کا وقار اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب اسے عزت، سہولتیں اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع دیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شاگردوں میں بھی استاد کی قدر و قیمت کا شعور پیدا کیا جائے تاکہ وہ جان سکیں کہ استاد ان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
آج کے اساتذہ اور شاگردوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ تعلق صرف کتابی علم کے تبادلے تک محدود نہ ہو بلکہ ایک ایسا مضبوط رشتہ بن جائے جو نسلوں کی تعمیر میں مدد دے۔ استاد کے کردار اور شاگرد کے ادب سے ہی ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے جو انصاف، علم اور اخلاق پر قائم ہو۔ یہی وہ اعتماد اور احترام ہے جو قوموں کی ترقی کا اصل راز ہے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]