یہ کس قدر ستم ظریفی کی بات ہے کہ قوم کے معمار چوکیدار بن گئے ہیں اور انہیں آج کل اُنہی دانش گاہوں کی حفاظت کرنا پڑرہی ہے جہاں کل تک وہ نو خیز نسل کو علم کے نور سے منور کررہے تھے ۔اساتذہ کسی بھی سماج کی تعمیر میں کلید ی رول ادا کرتے ہیں اور یہ اساتذہ ہی ہیں جو ایک سماج کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے علم و آگہی کے اجالے کی طرف لے جاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سماج میں ایک استاد کو سب سے اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے اور ایک استاد کی تعزیم و تکریم کو اخلاقی اقدار کی اعلیٰ نشانی سمجھا جاتا ہے تاہم افسوس کا مقام ہے کہ کشمیر میں استاد اپنا مقام کھو چکا ہے ۔اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ وادی میں جاریہ نامساعد حالات کے دوران سکولوں اور دانش گاہوں کو شر پسند عناصر کی جانب سے نشانہ بنایاگیا اور 30کے قریب تعلیمی ادارے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دئے گئے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حکومت اساتذہ کو حُکماًسکولوں کی چوکیداری پر مامور کرے ۔اسکولوں کی آتشزدگی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے ان کی حفاظت کرنا ناگزیر بن گیا ہے تاہم اس ضمن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر سماج کی مدد لی جاسکتی تھی۔ویسے بھی ہر سکول میں چوکیدار تعینات ہوتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سکولوں کی حفاظت یقینی بنائیں تاہم جس طرح کی صورتحال بنی ہوئی ہے ،ایسے میں اُن چوکیداروں کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی ناممکن بن چکی ہے ۔اسلام میں مساجد کے بعد سکولوں کا درجہ آتا ہے اور شاید ہی کوئی ذی حس شخص سکولوں کی آتشزنی کا طرفدار یا روادار ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے دلخراش واقعات پیش آئے ہیں اور اُن سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔حکومت نے جہاں ایسے واقعات کیلئے اشاروں کنایوںمیں حریت پسند قیادت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے وہیں حریت قیادت نے الٹا الزام حکومت اور اس کی ایجنسیوں پر ڈال دیا ہے ۔کل ہی پولیس کے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ان آتشزدگیوں کے سلسلے میں30سے زائد افراد کو حراست میں لیاجاچکا ہے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان انسانیت سوز حرکات میں کون ملوث ہے تاکہ ایسے عناصر کی سرکوبی کی جاسکے تاہم اگر حکومتی مشینری نے یوں ہی ابہام بنائے رکھا تو یہ سمجھا جائے گا کہ دال میں کچھ کالا ہے ۔اس عمل کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ ارباب اختیار کی جانب سے اشتعال انگیز بیان بازی نے بھی جلتی پر تیل کا کام کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دانش کدے خاک میں تبدیل ہوگئے ۔حکومت کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ اشتعال انگیز بیان بازیوں کا سہارا لے بلکہ فکر و فہم اور تد بر کا مظاہرہ کرنا ہی حکومتوں کا شیوہ ہوتا ہے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جاریہ ایجی ٹیشن کے دورا ن سرینگر سے لیکر دلّی تک ارباب بست و کشاد کا رویہ نہ صرف جارحانہ بلکہ اشتعال انگیز بھی رہا ہے اور بار بار مخالف قوتوں کے جذبات کو انگیخت کرنے اور انہیں چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ۔یہ تو کسی بھی طور مفاہمانہ پالیسی کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا ۔آج جب حکومت سکولوں کی حفاظت کیلئے اساتذہ کو چوکیداری کے کام پر مامور کرنے کیلئے مجبور ہوگئی ہے تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آخر اس کی ضر ورت ہی کیوں آن پڑی ؟۔حکومت کیلئے بے شک سرکاری املاک کی حفاظت لازمی ہے اور سکولوں کو آتشزنی سے بچانا ضروری ہے تاہم اس کام کیلئے اساتذہ کو مامور کرنا سمجھ سے بالاتر ہی نہیں بلکہ پوری اساتذہ کمیونٹی کیلئے کسی تذلیل و تضحیک سے کم نہیںہے ۔آخر اساتذہ کو چوکیداری پر لگا کر حکومت کیا پیغام دینا چاہتی ہے ؟۔کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ حکومت ان سے بیگار لے رہی ہے یا یہ مطلب نکالا جائے کہ حکومت ہڑتالی ایام کے دوران ان کے گھر بیٹھنے کا ان سے انتقام لے رہی ہے ۔جن سکولوں کی چوکیداری کی ذمہ داری اساتذہ کو سونپی گئی ہے ،وہاں بنیادی سہولیات کا بالکل فقدان ہے ۔سرکاری سکولوں میں پانی کا انتظام ہے ،نہ بجلی دستیاب ہے جبکہ گرمی کے انتظام کے بارے میں سوچنا دور کی بات ہے ۔ایسے میں آپ اساتذہ سے تقاضاکریں گے کہ وہ سردی کے ان ایام میں سکولوں کی چار دیواری کو بچانے کیلئے شب بیداری کریں تو یہ قرین انصاف نہیں ہے ۔آخر ایک ایسے استاد ،جس کے لئے اپنی حفاظت کیلئے کوئی ہتھیار نہیں ہے ،سے آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ نہتا سکول کی حفاظت کرے ۔یہ کام پولیس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں سے بخوبی ہوسکتا ہے اور اس کام کیلئے وہی موزون لوگ بھی ہیں۔استاد کو کمرہ جماعت سے نکال کر چوکیدار بنا کر حکومت حقیقی معنوں میں تعلیمی نظام کو پستیوں کی جانب دھکیلنے کی مرتکب ہو رہی ہے اور ارباب حل و عقد کو فوری طور اپنے اس فیصلہ پرنظر ثانی کرکے استاد کے پیشے کا تقدس بحال کرتے ہوئے انہیں اس طرح کی چوکیداری سے نجات دینی چاہئے ۔اس کے برعکس سماج میں بھی ایسی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ خود بخود اپنے تعلیمی اداروں کی حفاظت کاذمہ لیں اور کئی علاقوں میں لوگوں نے واقعی طور پر یہ بھیڑا اٹھا بھی لیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ آتشزدگی کی ایسی وارداتوں میں رفتہ رفتہ کمی آ رہی ہے ۔ایسا پولیس یا سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ممکن نہیں ہوا ہے بلکہ یہ اس سماج میں پل رہے لوگوں کی کاوشوں کا مرہون منت ہے ۔حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سکول عوامی پراپرٹی ہے اور عوام اس کے بہتر محافظ ثابت ہوسکتے ہیں،لہٰذا عوام کو ہی یہ ذمہ داری سونپی جانی چاہئے اور جہاں ضرورت محسوس ہو،وہاں پولیس اور دیگر سیکورٹی دستوں کی مدد لی جانی چاہئے تاہم اساتذہ کو اس کارِ بیگار و سے محفوظ رکھا جانا چاہئے کیونکہ وہ اس کام کیلئے قطعی طور نہیں بنے ہیں ۔