رئیس یاسین
ایک بہترین استاد طالب علموں کو اچھے اخلاق و اعتماد کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ وہ شاگردوں کو زندگی جینے کا راز بتاتا ہے۔ استاد قوم کے محافظ ہوتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ استاد کا رشتہ والدین سے بھی قریب تر ہوتا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ استاد سکھاتے ہیں کہ زندگی کے حالات میں کیسے جینا ہے۔ استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ قوم کے معمور کی حیثیت سے استاد کا بلند کردار کا حامل ہونا بہت زیادہ ضروری ہے۔ بقول اقبال
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
فرماتے ہیں مدرسے کا استاد تو ایک ایسے معمار کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنے طلبا کو روحانی سطح پر تعمیر و تربیت کرتا ہے ۔ اپنے علم و دانش کے ذریعے وہ طالب علموں کی ذہنی سطح بلند کرتا ہے۔یہ معزز رشتہ کن وجوہات سے بگڑ چکا ہے، اس کے بہت سے وجوہات ہیں۔ آج کل کے معاشرے میں استاد کا عزت و اکرام محض نام کا رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے قوم زوال پزیر ہو چکی ہے۔ خیرالقرون میں معلمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلمین درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور اور اور عہدوں پر فائز کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا، میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کردے یا بیچ دے۔ حضرت مغیرہ کہتے ہیں ہم استاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے تھے۔ امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباس کو امام المفسرین، بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابو ہریرؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے سینکڑوں صحابہ کرام نے معلم کائنات کے سامنے تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے نبی اکرم ؐ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام چہرہ انور کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے۔اس بات
کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے اور اَن پڑھ قومیں ان کے ماتحت رہی ہیں۔ آج اگر ہم پسماندہ ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم آداب معلم بھول گئے ہیں۔ آج جن اقوام نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور سائنسی دنیا میں انقلاب برپا کر کے پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ بٹھایا ہے ’ثقافت سے لے کر مذہب‘ گویا ہر شعبے میں ترقی حاصل کی ہےتووہ استاد کی ہی مرہون منت ہے۔
عمیق مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جو مقام استاد کو حاصل ہے ’وہ صدر مملکت کو بھی نصیب نہیں۔ مغربی ممالک میں معلم کو باقی تمام افراد پر اس قدر فضیلت حاصل ہے کہ استاد کی گواہی کو معتبر و مستند سمجھی جاتی ہے۔ جب کسی طالب علم کو نمایاں کامیابی ملتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے استاد کو سلام پیش کرتا ہےجبکہ ہمارے یہاں طلبہ کامیابی کو اپنی کمال سمجھتے ہیں اور ناکامی پر استاد پر الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم آج کے مسلم معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے مدارس میں اب استاد کی عزت نہیں کی جاتی ۔ اب استاد اپنا مقام کھو چکا ہے اس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ تعلیم کو اب تعلیم کی نظر سے نہیں بلکہ بزنس کے نظریہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب جو تعلق استاد کا اور شاگرد کا ہونا چاہیے تھا وہ ختم ہو گیا۔ تعلیم کا معیار دن بہ دن کھٹتا جا رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ ہمارے سامنے جو مختلف ذرائع موجود ہیں، شاگرد کو اب استاد کی ضرورت نہیں پڑتی ،وہ سماٹ فون کی مدد سے خود پڑھتا ہے۔ اس طرح اس کی نظر میں اب استاد کی اہمیت کم ہو گئ ۔استاد کو اس معاشرے نے ایک مزدور سے بھی بدتر تصور کیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ استاد کا پیشہ اس وقت سب سے مشکل ترین کام ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ آج کے استاد میں ایک تو اپنے مضمون کی مہارت ہونی چاہیے لیکن دوسری جانب اس کا اعلیٰ اخلاق کا مالک ہونا بھی چاہیے۔ استاد بچوں کی پرواہ ایسی کرے، جیسے اپنے بچوں کی کرتا ہو۔ لیکن جب یہی کچھ اس کے برعکس ہوتا توکوئی شاگرد استاد کی شان میں ایسا قدم اٹھاتا ہے کہ جس پر استاد کے قلب پر رنج واعلم طاری ہوتے ہیں۔ تو یہاں سے پھر سارا معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے ایک تو استاد کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ دوسرا معاشرے میں برائیوں کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ قوم کو صالح اور قابل استاد کم دستیاب ہوجاتا ہے۔ جب قوم کے نئی نسل استاد کی اور والدین کی عزت و اکرم نہیں کرتے تو اس چیز سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس معاشرے میں اب اچھائی کا کوئی عنصر نظر نہیں آتا۔
استاد کا رول بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام ترصلاحیت بروئے کار لائے اور شاگردوں سے محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ اس پیغمبرانہ پیشہ کی قدر تب ہو گی جب استاد کی عزت و اکرم کو عام کیا جائے۔ استاد ایک ہی وقت میں والدین، مربی، مشیر، رہنما کا رول ادا کرتا ہے۔ ایک شاگرد کی کل کائنات گھر سے لے کر اسکول تک ہوتی ہے۔ گھر میں والدین اس کے لئے ہیرو ہوتے ہیں اور اسکول میں اس کے استاد۔ بچے ہمیشہ ہماری نصیحت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ استاد کے عمل اور کردار سے ضرور متاثر ہوجاتے ہیں۔ استاد میں اعلیٰ صفات ہونے چاہئے۔ اچھا اور بہترین مدرس وہ ہے جس سے طلبہ اپنی زندگی کے مشکل حالات شیئر کرے ۔ بچوں کو پیار محبت سے سمجھائے ایسا نہ ہو کہ خوف اور دہشت کے مارے وہ استاد سے سوال کرنا ہی چھوڑ دے۔ ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ مہذب، پرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی کے مرہون منت ہے۔ جب تک ہم استاد کی قدر و عزت نہیں کریں گے تب تک ہماری قوم و ملت میں برائیوں و جرائم کا اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
[email protected]