Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

اروناچل پردیش اور اُتراکھنڈ کے بعد

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 13, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
صوبائی انتخابات (۲۰۱۷ء)کے ایکزٹ پول کے سنسنی خیزانکشافات کے درمیان اِس سے ہٹ کر مضمون قلمبند کرناایک چیلنج سے کم نہیں کیونکہ ملک کا پورا میڈیا تقریباً ایک سُر میں جو نغمہ گا رہا ہے کوئی ضروری نہیں کہ ۱۱؍مارچ کو نتیجے کی صورت میں سب کچھ ویسا ہی ہو۔ملک کے موڈ کو بہر حال یکساں رکھنے میں کامیاب قومی میڈیا لائقِ ستائش ہے۔کاش! قومی مسائل پر اسی طرح کی ایک جیسی کوئی خبر نشر کی جاتی تاکہ اُن گمبھیر مسائل کا سدّ باب ہوتا لیکن میڈیا کو جیسے ایسے بے شمار مسائل میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔اگرچہ ۲۰۰۴ء،۲۰۰۹ء اور یہاں تک کہ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات کے ایکزٹ پول کے نتائج بُری طرح فیل ہو چکے تھے ۔اسی طرح دہلی اور بہار کے اسمبلی کے انتخابات کے نتائج نے بھی اِن ایکزٹ پول کی پول کھول کے رکھ دی تھی،پھر بھی لوگ ہیں کہ تکیہ کئے جا رہے ہیں اور خوش بھی ہو رہے ہیں ۔اِن ایکزٹ پول کا کرشمہ دیکھئے کہ اکھیلیش بھی ان کے جھانسے میں آگئے اور شکست خوردہ ہو کر یہ بیان دے بیٹھے کہ ضرورت پڑی تو بُوا جی یعنی مایاوتی کی حمایت لینے سے وہ نہیں ہچکچا ئیں گے۔خیر یہ تو ان کا بیان اور خواہش ہے لیکن کیا بُوا جی اس طرح کا کوئی قدم اٹھا سکتی ہیں ،یہ سو ٹکے کا سوال ہے؟(اب تو تمام نتیجے آگئے ہیں)
دینک بھاسکر ۲۰؍ فروری کے ناگپور ایڈیشن کا شمارہ میرے ہاتھ لگ گیا ۔صفحۂ اول پر شہ سرخی دیکھ کر حیرت تو نہیں ہوئی بلکہ ایک خاموش ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر پھیل گئی۔’’ناگا لینڈ کے وزیر اعلیٰ جیلیانگ کا استعفیٰ؛ نیفیو کی رہنمائی میں بن سکتی ہے بی جے پی کی حکومت؛بر سر اقتدار محاذ کے ۴۹؍ ایم ایل ایز ہو سکتے ہیںبی جے پیمیں شامل۔‘‘در اصل بی جے پی کو جلدی بہت ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔وہ ہر کام جلدی جلدی نمٹانا چاہتی ہے۔ہم سب نے سیاست میں ایک لفظ سنا ہے،ہارس ٹریڈنگ(horse-trading)۔ اس کا مطلب ہے ، انتخابات کے بعداپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے ایم پیز، ایم ایل ایز، کاؤنسلرس اور کارپوریٹروں کی خرید و فروخت ۔ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب ہاؤس معلق ہوتا ہے۔ایسے میں چھوٹی پارٹیوں اور بالخصوص آزاد امیدواروں کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور شاید قیمت بھی۔انہی کو بڑی پارٹیاں منہ مانگی قیمت دے کر خرید تی ہیں لیکن یہ سب حکومت بنانے سے پہلے ہوتا ہے۔کبھی کبھار حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دینے کے لئے بھی ’ہارس ٹریڈنگ‘کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح نرسمہا راؤ کے زمانے میں ہوا تھا۔اُس وقت جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے اراکین پارلیمان پر ’بک جانے‘کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اِدھر بی جے پی نے سیاست میں ایک نیا رجحان پیش کیاہے اور میڈیا بھی قدم قدم پر اس کا ساتھ دے رہا ہے۔جس سرخی کا اوپرذکر ہوا ہے وہ بی جے پی کی حکمت عملی ہے۔بی جے پی نے اب حکومت بن جانے کے بعد(ہارس ٹریڈنگ کا)یہ کھیل شروع کیا ہے۔اس طرح کا کھیل یہ ارونا چل پردیش میں کھیل چکی ہے اور اترا کھنڈ میں بھی کوشش کر چکی ہے۔اب اس کا نیا شکار ناگالینڈ ہے۔اگرچہ ناگالینڈ میں جس محاذ(ڈیمو کریٹک الائنس آف ناگا لینڈیعنی ڈی اے این)کی حکومت ہے ،بی جے پی اس میں شریک ہے۔ لیکن صرف شریک ہے کیونکہ۶۰؍ممبروں والی اسمبلی میں اس کے ایم ایل ایز کی تعداد صرف ۴؍ ہے جب کہ قائد پارٹی ناگا لینڈ پیپلز فرنٹ کے ۴۸؍ایم ایل ایز ہیں اور آزاد رکن اسمبلی ۸؍ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام ارکان اسمبلی ڈی اے این محاذمیں شریک ہیں اور اسی لئے ناگالینڈ اسمبلی میں کوئی حزب اختلاف نہیں۔اس معنی میں یہ ملک کی واحد ریاست ہے اور اسی لئے ناگالینڈ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھالیکن اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لئے بی جے پی اس حساس ریاست میں بھی گیم کھیلنے سے باز نہیں آئی۔ اگرچہ ناگا لینڈ کی ۸۸؍فی صدی آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر قبائلی ہیں ،اُن کی اپنی ریت ہے،رواج ہے،جینے کا اپنا طور طریقہ ہے اور وہ انہیں کسی قیمت پر چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن بی جے پی کی اپنی ہوس ہے۔یہ پورے ملککو ایک رنگ میںرنگ دیناچاہتی ہے اوریہ سب کچھ بہت جلدی کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے اس نے ان خطوں کا انتخاب کیا ہے جہاں پر اس کی دال تو گل نہیں سکتی البتہ شوشے چھوڑ کر ان خطوں کو ڈسٹرب تو کر ہی سکتی ہے تاکہ بعد میں سیاسی فصل کاٹ سکے۔اگر وہاں پر فی الحال فائدہ نہیں ہوتا ہے تو وہاں کے حالات کا فائدہ یہ ہندوستان کے دوسرے اکثریتی علاقوںمیں اٹھا سکتی ہے۔
ناگالینڈ جنوری ہی سے ڈسٹرب چل رہا ہے ۔وہاں کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو ۳۳؍فی صدی ریزرویشن دینے کی اس قدر مخالفت ہوئی کہ ٹی آر جیالنگ کو استعفیٰ تک دینا پڑاجب کہ ان کی حکومت نے پہلے ہی ان بلدیوں کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔جس طرح اور جس جلد بازی سے یہ کام کیا گیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعے ۱۹۹۲ء میں خواتین کے لئے بلدیوں میں ۳۳؍فی صدی ریزرویشن کا قانون جو پارلیمنٹ میں پاس ہو گیا ہے اور جو ملک کے اکثر حصوں پر نافذہے اُس کی ناگالینڈ میں کوئی حیثیت نہیں کیوں کہ ناگا سماج اسے قبول نہیں کرتا ۔در اصل ان کے سماج میں مرد ہی کو اولیت حاصل ہے  انہوں نے نہ صرف اسے حقارت سے ٹھکرا دیا بلکہ اسیتسلیم نہ کرنے کا جواز بھی پیش کیا کہ دفعہ ۳۷۱(اے) کی رو سے دہلی کے پارلیمنٹ کا وہ قانون جو ناگا روایتوں پر مسلط کیاجائے گا اُس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک کہ ناگالینڈ کی اسمبلی اس بِل ی قانون کو پاس نہیں کر دیتی۔کشمیر کی طرح ہی ناگا لینڈ کو قانونی طور پر بہت ساری مراعات حاصل ہیں اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تشدد کو دعوت دینے جیسا ہے۔اس لئے بی جے پی کو اس کے علاوہ یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ یکساں سول کوڈ کیوں کر ناگالینڈ میںنافذ کر سکتی ہے؟اسی طرح ملک کے بیشتر حصوں میں وہ یکساں سول کوڈ نافذ نہیں کر سکتی کیونکہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو مختلف ذات پات، دھرم اور روایتوں و رسوم کے ماننے والے لوگوں پر مشتمل ہے ۔پس مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صرف تماشا دیکھتے رہیں ،اس پر ردعمل کا اظہار نہ کریں۔اگرچہ بی جے پی ۱۹۸۰ء ہی سے یکساں سول کوڈکا شوشہ چھوڑ کر تماشا دیکھتی رہی ہیلیکن یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ اپوزیشن میں تھی اور اب جب کہ اقتدار اس کے پاس ہے،اس مسئلے کو سلجھانا اس کے لئے آسان نہیں ہے۔
ناگالینڈ ٹرائبل ایکشن کمیٹی (این ٹی اے سی) جو حکمراںمحاذ کا حصہ ہے،کے احتجاج کی وجہ سے ہی ناگالینڈ میںسیاسی بھونچال آیا۔اگرچہ ناگا پیپلز فرنٹ کے صدر ڈاکٹر ایس لی ژِتسوہی اب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں لیکن جو حالات بی جے پی کی مدد سے پیدا کئے گئے تھے اُن حالات میں ڈاکٹر موصوف کا وزیر اعلیٰ بننا آسان نہیں تھا کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ نیفیو رِیو نے تقریباً ۴۰؍ایم ایل ایز کو آسام کے مشہور زمانہ ’کازیرنگا نیشنل پارک‘ میں مقیم کر دیا تھا۔نیفیورِیو تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔موجودہ اسمبلی فروری۲۰۱۳ء میں جب منتخب ہو کر آئی تھی اس وقت بھی وزیر اعلیٰ یہی بنائے گئے تھے لیکن بعد میں ۲۰۱۴ ء میں کمان ان سے لے کر جیالانگ کو دے دی گئی تھی۔میڈیا نے واضح طور پر لکھا کہ نیفیورِیو کو بی جے پی مدد کر رہی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناگا پیپلز فرنٹ میں بی جے پی پھوٹ ڈالنا چاہتی تھی جس کو موجودہ صدر نے کامیاب ہونے نہیں دیا۔اب تو آئندہ سال کے شروع ہی میں انتخابات ہوں گے لیکن بی جے پی کے ارادوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس سے قبل اروناچل پردیش میں بی جے پی نے کس طرح اقتدار پر قبضہ کیا ہے کہ تمام کے تمام ۴۰؍ کانگریسی ایم ایل ایز(صرف ایک کو چھوڑ کر) کواپنی پارٹی میں شامل کر لیا۔اس پروسیس میں ایک نوجوان سابق وزیر اعلیٰ کالیکھو پل نے معزول ہونے کے بعد خود کشی بھی کر لی تھی۔بی جے پی اپنا کھیل کھیلنا بند نہیں کرے گی ۔اسے صرف پارٹی عزیز ہے ،ملک کی کوئی پروا نہیں ۔ملک کے ہر خطے پر حکمرانی اس کا خواب ہے جس کی تعبیر کے لئے وہ ملک کو بھی داؤ پر لگا سکتی ہے۔اس لئے ملک کے ہوش مند شہریوں کو چاہئے کہ اس کی پیش رفت کو روکیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کی تکثیریت کا شیرازہ بکھر جائے اور ہم پھر سے غلام ہو جائیں ۔
(مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں،رابطہ  9833999883)
’’مابعد نوآبادیاتی مطالعات اوردوسر ے مضامین ‘‘
 اسٹیڈی ٹیبل
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لورن میں آسمانی بجلی گرنے سے 10بھیڑیں ہلاک
پیر پنچال
بغیر اجازت انشورنس کٹوتی و صارفین کیساتھ مبینہ غیر اخلاقی رویہ بدھل میں جموں و کشمیر بینک برانچ ہیڈ کے خلاف لوگوں کاشدیداحتجاج
پیر پنچال
انڈر 17کھیل مقابلوں میں شاندار کارکردگی | ہائرسیکنڈری اسکول منڈی نے کامیاب کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی
پیر پنچال
نوشہرہ سب ڈویژن میں پانی کی شدید قلت،لوگ محکمہ کیخلاف سراپا احتجاج شیر مکڑی کے لوگوں نے ایگزیکٹیو انجینئر کے سامنے شکایت درج کروائی
پیر پنچال

Related

کالممضامین

سیدالسّادات حضرت میرسید علی ہمدانی ؒ ولی اللہ

June 2, 2025
کالممضامین

شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ کا عرسِ مبارک | الہامی نگرانی اور احتساب کی ایک روحانی یاد دہانی عرس امیر کبیرؒ

June 2, 2025
کالممضامین

شام میں ایک نئی صبح ندائے حق

June 1, 2025
کالممضامین

تمباکو نوشی مضرِ صحت ،آگہی کے ساتھ قانونی کاروائی کی ضرورت سالانہ ایک کروڑافراد لقمۂ اجل اوربے شمار مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں

June 1, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?