سرینگر//وادی میں موسم کی غیر یقینی صورتحال کو موسمی انتہا( کلائی میٹ ایکسٹریم) سے تعبیرکرتے ہوئے ماہرین کا ماننا ہے کہ ارضیاتی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ سے بخارات کا حجم تیزی سے بڑ ھ رہا ہے جس کی وجہ سے شدت کی بارشیں بھی ہورہی ہیں جبکہ پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگل جانے کے سبب پانی کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے ۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیات کے پروفیسر شکیل احمد رومشو نے کشمیر عظمیٰ کو بتا یا ’’وادی میں ژالہ باری اور انتہائی شدت کے ساتھ بارشوں سے متعلق کوئی ڈیٹا موجودنہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اسکی اصل وجوہات کیا ہیں۔ تاہم موسم کی غیر یقینی صورتحال دراصل کلائی میٹ ایکسٹریم کی وجہ سے ہو رہا ہے جس کے لئے ارضیاتی حدت ذمہ دار ہے۔ سرینگر کے جنوبی علاقوں میں بارشوں اور ژالہ باری کی شدت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہاں ویٹ لینڈ اور تالابوں میں پانی جمع ہے جو تیزی کے ساتھ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اس لئے ہوائیں سرد ہو جاتی ہیں جس کے سبب ان علاقوں میں بادل پھٹنے،سخت ژالہ باری اور انتہائی شدت کی بارشیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔پروفیسر رومشو نے وادی میں دوبارہ سیلاب کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دریائے جہلم میں پہاڑوں پر حالیہ برف کے پگل جانے سے سطح آب میں پہلے ہی اضافہ ہوا ہے اور اس دوران150سے200ملی میٹر بارش سے ہی سیلاب آنا طے ہے۔رامشو کا کہنا ہے کہ وادی میں رواں موسمی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے جبکہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں سرمائی موسم اب گرم ہوتے جارہے ہیں اور صرف دو روز تک مسلسل بارشیں تباہ کن سیلاب کے لئے کافی ہے۔ادھر محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’گرج چمک اور انتہائی شدت کی بارشیں اور ژالہ باری پری مون سون موسم میں عام بات ہے اور اسے بادل کے پھٹنے سے مناسبت نہیں دی جاسکتی جو بالکل ایک الگ موسمی عمل ہے اور جس کے پھٹنے سے بڑے پیمانے پر اموات ہونے کا خدشہ ہو تا ہے اور طرح کی صورتحال کا ظہور یہاں بالکل ہی نہیں ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ رواں دنوں کوئی بادل نہیں پھٹا بلکہ صرف انتہائی شدت کی بارشیں اور ژالہ باری ہوئی جو یہاں کے موسم کا ایک اہم پہلو ہے۔وادی میں سیلابی صورتحال کے متعلق انہوں نے کہا کہ معمول کے درجہ حرارت میں اضافے کی بدولت برف پگل رہی ہے جس سے دریائے جہلم میں پانی کی سطح میں پہلے سے ہی اضافہ ہو چکا ہے تاہم گذشتہ دنوں درجہ حرارت میں بتدریج کمی آنے کی وجہ سے برف کاپگلنا کم ہو گیا ہے جس کے باعث سطح آب میں بھی تھوڑی گراوٹ آنے سے سیلاب کے آثار کم ہو گئے ہیں ۔